بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں کمی آگئی۔ ۲۰۱۱ء میں ہونے والی مردم شماری میں لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار میں تاریخی کمی واقع ہوئی ہے۔
بھارت کے رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کے کمشنر نے انکشاف کیا کہ ۲۰۰۱ء میں مسلمانوں کی آبادی میں ۵۲ء۲۹ فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا تھا جو ۲۰۱۱ء میں صرف ۶۰ء۲۴ فیصد رہ گیا ہے۔
آبادی کے ماہر سباترا مکھرجی کے مطابق یہ ایک اچھی خبر ہے، جس میں کوئی شک نہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں، ہندو اور مسلمانوں نے آبادی کی روک تھام کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔
مذہبی طبقات کے حساب سے ۲۰۱۱ء کی مردم شماری سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
۱۹۶۱ء سے ۲۰۱۱ء تک آبادی کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں اس وقت ۶۳ء۹۶ کروڑ ہندو، ۲۲ء۱۷؍کروڑ مسلمان، ۷۸ء۲ کروڑ عیسائی اور ۰۸ء۲ کروڑ سکھ ہیں جبکہ باقی علاقہ بدھ مت، جین اور دوسرے مذاہب میں منقسم ہے۔
بھارت میں مذہبی بنیادوں پر آبادی کے اعداد و شمار (جنس، رہائش گاہ، ذیلی اضلاع، اور قصبوں کی سطح پر جاری کیے گئے) سے پتا چلتا ہے کہ جنس کے لحاظ سے مسلمانوں کا تناسب ہندوؤں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ جنسی لحاظ سے مسلمانوں میں ہر ہزار مردوں کے مقابلے میں ۹۵۱ خواتین ہیں۔ جبکہ ۲۰۰۱ء میں یہ تعداد ایک ہزار اور ۹۳۶ تھی۔ دوسری طرف ایک ہزار ہندو مردوں کے مقابلے میں ۹۳۹ خواتین ہیں، جو ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں تھوڑی بہتری کا مشاہدہ ہے۔
مذہبی بنیاد پر مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی کی بڑھتی تعداد آسام میں اندراج ہوئی ہے۔ جبکہ دو بھارتی ریاستوں اترکھنڈ اور کیرالہ میں بھی مسلم نفوس کی شرح آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
۱۸۷۲ء میں پہلی مردم شماری سے لے کر اب تک عوام کی مذہبی پروفائل میں سماجی، ثقافتی اور اعداد و شمار کی خصوصیات قابلِ غور ہیں۔
بھارت کے رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کے کمشنر نے کہا کہ مذہب یا مذہبی گروہ کی اعداد و شمار جس کے لیے معلومات جمع کی گئی تھیں، آزادی سے پہلے کچھ مختلف تھیں۔ لیکن آزادی کے بعد، خاص طور پر ۱۹۶۱ء کے وقت سے مذہبی اعداد و شمار میں کچھ یکسانیت ملتی ہے۔
“Decadal growth of Muslims in India witnesses historic low”.
(“bdnews24.com”. August 26, 2015)
Leave a Reply