
صرف چند سال قبل دنیا امریکی قوت کے خیال سے مرعوب تھی۔ نوقدامت پرستوں کے ایجنڈا نے نہ صرف یہ کہ وائٹ ہائوس کے نقطۂ نظر میں جان ڈال دی بلکہ یہ بین الاقوامی تعلقات کے مستقبل سے متعلق عالمی مباحثہ پر بھی حاوی رہا۔ گیارہ ستمبر کے بعد ہم نے تیز رفتار تواتر کے ساتھ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ چھیڑ دی اور ’’بدی کا محور‘‘ کی نشاندہی کی جو کہ ایک نئے امریکی امپائر کا تصور تھا اور جو غیرمعمولی فوجی قوت، حکومت کی تبدیلی کی خواہش و نظریہ، عراق میں جارحیت نیز یہ دعویٰ کہ مغربی طرز کی جمہوریت جیسی جمہوریت یہ دنیا میں ہر جگہ اور ابتدا میں مشرقِ وسطیٰ میں قابلِ نفاذ اورحسبِ حال ہے جیسے نکات پر مشتمل تھا۔ ان میں سے بیشتر نکات اس تیزی سے سامنے لائے گئے کہ جس کا تصور شاید ہی کسی نے پہلے سے کیا ہو۔ عراق پر امریکی قبضے میں مایوس کن ناکامی کے ساتھ یعنی اس حد تک ناکامی کہ امریکی حلقۂ انتخاب اب اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں، نوقدامت پرستوں کا زمانہ عالمِ نزع میں داخل ہونے والا ہے۔ لیکن متعین طور سے وہ کیا چیز ہے جو اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے؟ نئی امریکی صدی کے منصوبے میں نوقدامت پرستی نے پورے طمطراق سے یہ خیال کیا کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کی ازسرِنو تشکیل امریکی تصور کے مطابق کی جائے گی اور یہ کہ سابقہ دو قطبی دنیا کی جگہ ایک قطبی دنیا لے لے گی جس میں امریکا عالمی و علاقائی امور پر فیصلہ کن طور پر حاوی ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بش انتظامیہ اس ہدف کے قریب کبھی بھی نہیں پہنچ سکی۔ ایک مختصر وقت کے لیے یہ دنیا کے ممالک کی عظیم اکثریت کوآمادہ کرنے میں کامیاب ہوئی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ترجیح کو قبول کر لیں اور بظاہر اس کے لیے ان سے دستخط لینے میں بھی۔ حتیٰ کہ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد افغانستان پر جو جارحیت ہوئی اس کے لیے بھی بش انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر ہامی بھروائی لیکن امریکا عراقی جارحیت کی حمایت میں ممالک کی اکثریت کو راضی کرنے میں ناکام ہو گیا اور رائے عامہ سے جب اس نے رجوع کیا تو وہاں سے بھی اسے کوئی خاص حمایت نہ مل سکی۔ اقوامِ متحدہ میں اتفاقِ رائے کے حصول میں اپنی ناکامی کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے یکطرفہ ارادے کا اظہار کیا اور عراق پر حملہ کر دیا لیکن بعد میں عراقی مہم جوئی میں جو اسے ناکامی کا سامنا ہوا، اس کے نتیجے میں یہ مزید تنہا ہو گیا اور یکطرفیت کی اس کی غلط پالیسی آشکار ہو گئی۔ مشرقِ وسطیٰ نو قدامت پرستوں کے عالمی ایجنڈا کا جو ہمیشہ سے مرکز رہا ہے، میں امریکی حکمتِ عملی کا تیا پانچا ہو کر رہ گیا ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی نوقدامت پرستوں کا منصوبہ ناکام رہا۔ شمالی کوریا کو ’’بدی کا محور‘‘ کا لقب دیا گیا لیکن امریکا کا شمالی کوریا کے بحران کے حل کے لیے شش فریقی گفتگو سے اتفاق کرنا خاموش اعتراف تھا کہ کیم کی حکومت سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس بہت زیادہ حمایت نہیں ہے۔ اس حقیقت کا مزید شدت سے اظہار اس وقت ہوا جب امریکا حالیہ جوہری ٹیسٹ کو روکنے میں ناکام ہو گیا اور اس نے چین پر انحصار کیا کہ وہ شمالی کوریا کو گفتگو میں مصروف کرنے کے لیے راہ تلاشے۔ درحقیقت چین نے امریکا کو ہشیاری کے ساتھ اس ضرورت کو قبول کر لینے پر مجبور کر دیا جس کی وہ اب تک مزاحمت کر رہا تھا یعنی یہ کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات میں شامل ہو جائے جس میں چین ایک دیانتدار ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ نوقدامت پرستوں کی تمام بڑے بول کے باوجود سیدھی بات یہ ہے کہ امریکا مشرقی ایشیا میں بہت ہی کمزور ہے جبکہ چین بہت ہی زیادہ یہاں مضبوط ہے۔ لہٰذا امریکا شمالی کوریا کے بحران میں ثانوی کردار ادا کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ خطے میں سست رفتار اور شرمندگی سے عاری امریکی اثر و رسوخ کے زوال کا یہ چونکا دینے والا مظہر ہے۔ دریں اثنا اس خطے میں جہاں اس نے ایک صدی سے زائد عرصہ حکمرانی کی ہے اور جسے روایتی طور پر یہ اپنے گھر کا صحن تصور کرتا ہے اور جہاں اس نے سرد جنگ کے پورے دور میں بڑی بے رحمی سے مداخلت کی ہے، خاص طور سے لاطینی امریکا میں۔ اب امریکا کو یہاں سب سے تاریک ترین صورتحال کا سامنا ہے، اس سے کہیں زیادہ خراب صورتحال کا سامنا جو اس کو سرد جنگ کے دور میں کیوبا کی طرف سے رہا ہے، امریکا کو ہوگو شاویز کے وینزویلا میں بہت مضبوط اور وسائل سے بھرپور مخالفت کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسا براعظم ہے جہاں بائیں بازو نے غیرمعمولی پیش رفت کی ہے۔ بش انتظامیہ کم از کم ابھی تک تو لاطینی امریکا میں اپنی بڑھتی ہوئی تنہائی کو اور بائیں بازو کی بلا روک ٹوک پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ حتیٰ کہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی نوقدامت پرستوں کی کمزور پوزیشن روزبروز نمایاں ہے جو اس نے ایران کے مسئلے کے حوالے سے ظاہر کی ہے جو کہ ’’بدی کے محور‘‘ ایک دوسرا رُکن ہے۔
شمالی کوریا کے مسئلے کی طرح امریکا نے جس کی ایک وجہ عراق میں بہت زیادہ اس کی مصروفیت ہو سکتی ہے، ایران کے جوہری عزائم پر مذاکرات کا معاملہ اس گروہ کے حوالے کیا ہے جو جرمنی، فرانس، روس اور برطانیہ پر مشتمل ہے۔ اگرچہ مغربی یورپی ممالک امریکی پیش کش سے بہت زیادہ خوش نظر آتے ہیں لیکن روس خوش نہیں معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی چین خوش ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ دونوں ہی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں اور دونوں ہی اقتصادی پابندی اور فوجی کارروائی کی دھمکی دیے جانے کے مخالف ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایران پر مذاکرات کچھ اس طرح کے دلدل میں پھنس گئے ہیں جنہیں مشکل اور غیریقینی صورتحال کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نوقدامت پرستوں نے اپنے آپ کو بہت زیادہ طاقتور محسوس کیا ہوتا تو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی یہ وہی کچھ کرتے جو انھوں نے عراق میں کیا تھا۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا اور اب یہ ناقابلِ تصور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا خیال بھی دل میں لائیں۔ اس کے برعکس میز گھومنے کے مرحلے میں معلوم ہوتی ہے۔ امریکا ایران کو تنہا کرنے کے بجائے اب ایران اور شام سے مدد لینے کی ضرورت محسوس کر رہا ہے تاکہ وہ اسے عراق کے بحران سے نکالنے میں سہارا دے سکیں۔ لبنان میں اسرائیلی جارحیت کی ناکامی اور مقبوضہ علاقوں میں مسلسل تباہی کی وجہ سے ہم امریکا کی پسپائی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ۱۹۵۶ء سے ہمیشہ امریکا اس خطے پر بہت مضبوط طریقے سے براجمان رہا ہے اور ۱۹۸۹ء سے یہاں ہر اہم واقعات میں امریکا بہت ہی مضبوط طریقے سے ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ سال مشرقِ وسطیٰ میں امریکی قوت کے زوال کا سال ہے جس کے ناقابلِ بیان نتائج سامنے آئیں گے۔ یہاں ہم امریکا کی استعماری طاقت میں اضافے کے لیے بش مہم جوئی کی بھاری قیمت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ امریکا کی عالمی طاقت کی ممکنہ محدودیت کے ادراک میں ناکامی کے بڑے گہرے نتائج ہوں گے جسے بظاہر ابھی محسوس نہیں کیا گیا ہے۔ طویل المیعاد عالمی رجحانات کا ادراک کرنے کے بجائے بش انتظامیہ نے امریکی قوت کا بہت زیادہ اندازہ لگایا اور اس بنا پر اس نے ایسی بھیانک غلطی کی کہ اس کے استعماری خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آئندہ کی حکومتیں اس کی بھاری قیمت چکائیں گی۔ بجائے اس کے کہ امریکا ۱۹۸۹ء سے پہلے کی قوت کو سویت یونین کی شکست سے حاصل ہونے والی قوت کے ساتھ مجتمع کرتا، یہ روز بروز ایسی دنیا سے ٹکرا گیا جونئے قومی کرداروں کی بڑھتی ہوئی قوت کا مظہر تھی اور یہ قومی کردار کسی بھی طرح ایک کوئی ملک نہیں تھا بلکہ اس حوالے سے چین، بھارت اور برازیل خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ ۲۱ویں صدی کے ۶ سال گزر جانے کے بعد کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ کوئی بھی علامت ایسی نہیں ہے جس سے صدی امریکا کی صدی کے طور پر متعارف ہو بلکہ امریکا کو بالکل ایک مختلف مستقبل کا سامنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اپنے زوال کے مسئلے سے کس طرح نمٹتا ہے۔ حاشیہ کے طور پر صرف ایک نکتہ کا اضافہ کیا جانا چاہیے کہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآں عملیت پسند لوگ زیادہ مناسب طریقے سے ہو سکتے ہیں نہ کہ نظریت پسند لوگ۔
نوٹ: مضمون نگار مارٹین جیکس ایشیا ریسرچ سینٹر لندن اسکول آف اکانومکس میں وزیٹنگ ریسرچ فیلو ہیں۔
(بشکریہ: برطانوی اخبار ’’مانچسٹر گارجین‘‘۔ شمارہ: ۱۶؍نومبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply