
استاذ محمد مبارک
اصلاح و تجدید کے لیے سرگرم افراد میں سے جن لوگوں نے ترجیحات کے مسئلے پر توجہ دی، ان میں ایک، شام کے استاذ محمد مبارکؒ ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب: الفکرُ الاِسلامی الحدیثُ فِی مُواجَہۃِ الأفکارِ الفَریبۃِ میں اس پہلو کے بارے میں بڑی عمیق گفتگو کی ہے۔ یہ درحقیقت مختلف مباحث اور محاضرات ہیں جو انہوں نے مختلف مواقع پر پیش کیے ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے اسلام میں مختلف اشیا کے درمیان موجود نسبتوں کا خیال رکھنے کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے، اسے میں اس کی اہمیت کی وجہ سے ہوبہو نقل کرنا چاہتا ہوں:
اسلامی نظام میں وحدت کے خاصے کے ساتھ ہی ایک اور خاصہ ہے، اور وہ اس سے کم اہم نہیں ہے۔ وہ یہ کہ زندگی کے مختلف پہلوئوں میں اقدار اور نسبتوں کا خیال رکھا جائے۔ مال، لذت، عقل، معرفت، قوت، عبادت، قرابت، قومیت اور انسانیت زندگی کی اقدار میں سے ہیں۔ اسلام نے اپنے نظامِ زندگی میںان میں سے ہر ایک کے لیے ایک محدود جگہ اور نسبت مقرر کی ہے۔ ان میں سے کوئی قدر اس سے تجاوز نہیں کرسکتی، تاکہ ایک قدر دوسری قدر پر ظلم نہ کرے۔
اسلام کو مسخ کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان نسبتوں میں کوئی تبدیلی کی جائے، مثلاً کسی کو اپنی حد سے بڑھا دیا جائے یا اسے دوسرے کی نسبت سے کم کیا جائے۔ جیسا کہ آخری بعض زمانوں میں عملاً یہ ہو چکا ہے۔ زندگی کے نظام میں نسبتوں کی تبدیلی ایسی ہے جیسے مزاحیہ تصویر میں تبدیلی۔ یہ انسان کی کچھ شکل و صورت پیش کرتی ہے مگر مزاحیہ انداز میں۔ یا اس تبدیلی کی مثال دوائی کے اجزا میں تبدیلی کی طرح ہے، جس سے وہ دوائی خراب ہوجاتی ہے اور اس کی صفات و خصوصیات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات وہ ایک مضر مادے اور زہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اگر ہم زندگی کو سو اجزا میں تقسیم کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلام نے ان میں کئی ا جزا کو عبادت کے لیے خاص کیا ہے۔ یہی معاملہ کمائی اور خرچ، جہاد اور جائز اشیا سے لذت اندوز ہونے کا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک حصہ مقرر ہے۔ اگر ہم ان نسبتوں کو تبدیل کریں گے، مثلاً جہاد کی قدر کم کریںگے اور عبادت کے حصے میں اضافہ کریں گے، مال کمانے میں کوتاہی کریں گے یا اس کے خرچ کرنے میں، اپنے سامانِ لذت میں حد سے تجاوز کریں گے یا اس کو معطل کریں گے، تو اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسے نظام کی طرف نکل جائیں گے جو اپنی حقیقت اور روح کے لحاظ سے اسلامی نظام کے خلاف ہے۔ اس طرح ہم اس توازن کو خراب کر دیں گے جو اللہ تعالیٰ نے زندگی کی اقدار اور اس کے مختلف پہلوئوں میں قائم کر رکھا ہے۔
موجودہ دور میں مسلم کامل اس کو کہا جاتا ہے جو عبادت بمعنی پوجا پاٹ کی طرف متوجہ ہو اور اس کے سوا کسی کام میں دخل نہ دیتا ہو۔ اپنی خانقاہ میں بیٹھا ہو، اس سے باہر نہ نکلتا ہو اور ہر وقت اپنے ذکر و اذکار میں مصروف ہو۔ عبادت کی یہ صورت قطعی طور پر اس صورت کے مطابق نہیں ہے جس پر نبی کریمﷺ اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے صحابہ عمل پیرا تھے۔ اگر ان کی زندگی کا ایک بڑا جز عبادت تھا تو جہاد بھی اس کے صفحات کو بھرے ہوئے تھا۔ معاشرے کو غلط عقائد سے آزاد کرنے کا جہاد، صحیح عقائد کو دلوں میں بٹھانے کا جہاد، معاشرے کو ظالم کے ظلم و استبداد سے نجات دلانے کا جہاد، کمزوروں کی مدد کا جہاد اور لوگوں کے درمیان عدل کے قیام کا جہاد۔ اس طرح ایک ایسے مسلمان کی زندگی بھی ناقص اور مضطرب رہتی ہے جو جہاد اور معاشرتی اصلاح میں تو مشغول رہتا ہو مگر وہ عبادت اور تعلق باللہ سے خالی ہو۔
ہمارے فقہائے متقدمین نے بھی اس نظریے یعنی نسبتوں کے نظریے پر توجہ کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک مسلمان سے مطلوب فرائض اور دوسری چیزوں کے مطالبے میں فرق رکھا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ممنوعات اور محرمات کو بھی ممانعت اور حرمت کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں باتیں گناہ میں برابر نہیں ہیں کہ ایک آدمی جہاد میں شریک ہے اور دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہے اور وہ اپنی جگہ خالی کرکے دشمن کو اپنی صفوں میں گھسنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص شراب پیتا ہے یا سور کا گوشت کھاتا ہے۔ اگرچہ ہیں یہ دونوں چیزیں حرام، مگر یہ دونوں درجے میں برابر نہیں ہیں۔
بہت سی آیات اور احادیث اس فکر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے، جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں‘‘۔ (التوبہ: ۱۹)
اسی طرح رسول اللہﷺ کا وہ قول کہ جب آپﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل ہے جو جہاد کے برابر ثواب رکھتا ہو، یہ سوال دو یا تین بار پوچھا گیا اور آپﷺ ہر بار جواب دیتے رہے کہ لَاتَسْتَطِیُعُوْنَہٗ ’’تم یہ نہ کرسکو گے‘‘۔ آخرکار جب سائل باز نہ آیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد فی سبیل اللہ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو مسلسل روزہ رکھے اور رات کو ساری ساری رات قیام کرے، وہ اللہ کی آیات پر قانت ہو، نہ روزے سے اکتاہٹ محسوس کرے اور نہ نماز سے۔ یہاں تک کہ مجاہد واپس لوٹ آئے‘‘۔ (متفق علیہ)
اور صحاح میں ہے کہ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون سا انسان سب سے افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جو اپنے نفس اور مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ پوچھا گیا: پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص جو کسی گھاٹی میں رہتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو ان کے شر کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ رسول اللہﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ایک شخص سود کا ایک درہم کھائے، یہ اس سے زیادہ سخت (گناہ) ہے کہ آدمی ۳۳ بار زناکرے‘‘۔
معلوم ہوا کہ سود جو ایک مالی ظلم ہے، اس کی حرمت زنا کی حرمت سے زیادہ ہے۔
اگر ہم اس طرح کی احادیث جمع کرنے کی کوشش کریں جو مختلف امور کے درمیان اقدار کا تعین کرتی ہیں تو ہمیں باقاعدہ ریاضی حساب کے ساتھ ان سے وہ اقدار ہاتھ آئیں گی جو زندگی کی مختلف ترجیحات میں موجود ہیں۔ جیسے نبیﷺ فرماتے ہیں: ’’عادل حکمران کی زندگی کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔ (منذری الترغیب)
اور یہ کہ ’’عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک ادنیٰ مسلمان پر‘‘۔ (ترمذی)
اسی طرح فرمایا: ’’ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے‘‘۔ (ابن ماجہ۔ ترمذی)
اس سے ان لوگوں کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے جو اپنی توجہ ایک ایسے کام کی طرف کرتے ہیں، جو فی نفسہٖ اسلام میں مطلوب یا ممنوع ہوتی ہے مگر کسی دوسری چیز کے مقابلے میں آئے تو وہ اس سے کئی گنا زیادہ مطلوب یا اس سے کئی گناہ زیادہ ممنوع ہوجاتی ہے۔ اس وقت اسلامی ممالک دو عظیم خطرات سے دوچار ہیں: ایک استعمار اور دوسرے لادینیت۔ ان کی زمین بھی حملے کی زَد میں ہے اور ان کا عقیدہ بھی۔ یعنی ان کے مادی اور معنوی دونوں قسم کی دولت پر ڈاکا پڑا ہے اور وہ اس سے چھینی جارہی ہے۔ اگر یہ دونوں حملے کامیاب ہوگئے اور ان کے ممالک کے ساتھ ان کا عقیدہ بھی منہدم ہوا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا تو باقی شعائر اسلام کو قائم رکھنا ممکن نہ رہے گا۔ نہ یہی ہو سکے گا کہ لوگ پھر بھی اسلام کے اوامر کو قائم کریں اور اس کے احکام کو عملی جامہ پہناتے رہیں۔ اس بنا پر لوگوں کے ذہنوں کو دوسرے مسائل کی طرف موڑنا اور ان کو امت کے زوال کا سبب گرداننا، اہم اور بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے۔ بنیادی مسئلہ ہے: اسلامی ممالک پر بیرونی قبضہ اور براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان کے اوپر اپنا اقتدار قائم رکھنا، اسلامی عقیدے کو مختلف طریقوں سے منہدم کرنا اور مختلف صورتوں میں لادینی افکار اور مذاہب کو عام کرنا۔ تو کیا ان حالات میں یہ جائز ہے کہ مسلمان اس مسئلے پر دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں کہ تراویح کی رکعتیں آٹھ ہیں یا بیس، اور یہ کہ ایک مسجد میں دوسری جماعت ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس طرح کیا یہ جائز ہوگا کہ ہم ایسے مسائل میں سنت اور بدعت کا معرکہ گرم کریں جس کا عقیدے کے ساتھ کوئی دور کا تعلق بھی نہ ہو؟
میں یہ نہیں کہتا کہ ان امور کے بارے میں علمی بحث بھی نہ کی جائے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اس کی وضاحت اُس وقت ہونی چاہیے جب اس کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہو۔ عبادات میں صحیح طریقے کی وضاحت مستحسن ہے، کیونکہ عبادات شارع کی طرف سے متعین ہوتی ہیں، ان میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود اگر ان سے فتنہ پیدا ہوتا ہے اور یہ دو مسلمان گروہوں کے درمیان جھگڑے کا ذریعہ بنتی ہیں تو ان سے اجتناب ضروری ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا منکر سامنے آرہا ہے، جو پہلے والے منکر سے زیادہ بڑا اور خطرناک ہے۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں۔ حالانکہ ان کو جس صورتحال کا سامنا ہے، اس میں ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی قوت کو تقسیم کریں یا بنیادی مسائل کو چھوڑ کر دوسری چیزوں میں اپنے آپ کو مصروف کرلیں۔
شیخ محمد الغزالی
ترجیحات کے مسئلے کی طرف جن لوگوں نے توجہ دی، ان میں سے ایک، نامور داعیٔ اسلام شیخ محمد الغزالی حفظہ اللہ ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں، خاص طور پر اُن کتابوں میں جو ماضی قریب میں لکھی گئیں، اس مسئلے کا بھرپور اہتمام کیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے دعوتی سفر میں ایسے لوگ دیکھے جو اسلام کے ساتھ یا اسلامی دعوت کے ساتھ نسبت رکھتے تھے، مگر انہوں نے اسلام کے پودے کو الٹا دیا تھا۔ اس کے بنیادی پیڑ کو انہوں نے ہلکی شاخوں میں تبدیل کیا تھا اور فروع کو ان اوراق کی مانند قرار دیا تھا جن کے ساتھ ہوائیں اٹکھیلیاں کھیلتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پتوّں کو پیڑ اور تنے کا قائم مقام بنا دیا تھا، جس کی طرف ہر فکر کو متوجہ کرنا وہ ضروری سمجھتے تھے، اسی کا پورا پورا اہتمام کرتے تھے اور اسی کے لیے کام کرتے تھے۔
اس مقام پر میں شیخ غزالی کی ایک ہی عبارت پر اکتفا کروں گا، جو اُن کے ذہن رسا کی نمائندگی کرتی ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے ترجیحات کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے، اس کو پختہ کرنے کا بہت خیال رکھا ہے اور انہوں نے اسلام کی ایک جامع فکر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں ہر چیز کو اس کا پورا پورا حق ملے اور ہر چیز کو اپنے مطلوبہ مقام پر رکھا جائے۔ شیخ غزالی اسلامی تہذیب کا زوال اور امت مسلمہ کی ترقی اور پھر پستی کے بارے میں اپنی کتاب الدعوۃُ الاِسلامیۃُ تَستَقبِلُ قرنَہا الخامِسَ عَشَرَ میں اَلتَّصْوِیْرُ الْجزْئیُّ لِلاِسلام کے عنوان کے تحت بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسلام کے کچھ اوپر ساٹھ یا ستر شعبے ہیں، مگر کیا یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی ترتیب اور توازن نہیں ہے۔ کیا یہ اس چیز کی طرح ہے جسے کسی شخص نے بازار سے خریدا ہو اور پھر کسی نے کسی طرح اپنے تھیلے میں ٹھونس دیا ہو؟ نہیں، یہ ایسے شعبے ہیں جو خطرات اور قدر و قیمت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کی جامع صورت میں ایک مخصوص مقام ہے، جس سے یہ تجاوز نہیں کرسکتی۔
ایمان کے ان شعبوں کو ملانے والا جال کسی وزارت یا کسی ادارے کے لیے وضع کردہ اس نقشے کی مانند ہے جن میں کوئی مدیر ہوتا ہے، کوئی اس کا معاون ہوتا ہے، کچھ ملازم ہوتے ہیں اور کچھ نگران ہوتے ہیں۔ ان سب کے درمیان ایک متعین تعلق اور ارسال و قبول اور نفاذ و انتاج کا ایک نظام ہوتا ہے۔
ایمان کے یہ شعبے جو کئی عشروں پر مشتمل ہیں ایک چلتی ہوئی گاڑی کی مانند ہیں، جس کی ایک ظاہری شکل و صورت اور ایک انجن ہوتا ہے۔ اس میں ایک ڈرائیور ہوتا ہے، اس میں تیل ڈالا جاتا ہے۔ اس کے پہیے ہوتے ہیں، روشنیاں ہوتی ہیں، سیٹیں ہوتی ہیں اور اس طرح کے اور بہت سے پرزے مل کر گاڑی بنتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک کام اور ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔
اسلامی ثقافت اپنے پہلے دن سے کچھ لازمی ارکان، کچھ اضافی امور، بعض اصول اور بعض فروع پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ قلبی اعمال ہیں اور کچھ جسمانی۔
مگر بعض لوگوں میں یہ نئی بات رواج پکڑ گئی کہ اسلام کا کوئی جز اتنی وسعت بھی اختیار کرسکتا ہے کہ وہ باقی اجزا کا حق مارے۔ جیسا کہ جسم میں بعض اجزا اتنے پھول جاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے جسم کے باقی اجزا کو مطلوبہ بڑھوتری نہیں ملتی، اور جسم ہلاکت سے دوچار ہو جاتا ہے۔
یہ عقلی کوتاہی سب سے پہلے جن لوگوں کو لاحق ہوئی وہ خوارج تھے۔ دوسرے الفاظ میں فقاہت کا یہی خلل تھا جس کی وجہ سے انہوں نے حضرت علیؓ سے یہ شرط لگائی کہ یا تو وہ تحکیم سے بیزاری کا اعلان کریں یا وہ ان کے خلاف جنگ کریں گے۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اپنے بڑوں یعنی بنوامیہ کے خلفا سے بیزاری کا اعلان کریں یا ان کے خلاف جنگ ہوگی۔
ایک خاص فکر نے انسان کی عقل پر قبضہ کیا، اس نے اس کے سارے نفسیاتی خلا کو پُر کیا اور دوسرے افکار کے لیے کوئی جگہ خالی نہ چھوڑی جو اسے ناپسند تھے۔
مجھے ایک آدمی ملا جو بھلائی کے ساتھ معروف تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ فلاں شیخ کی کرامات پر یقین رکھتے ہیں؟ میں نے کہا: میں نے ان کے حالات نہیں پڑھے۔ اس نے کہا: یہ کتاب لے لیں۔ اس میں ان کی پوری سیرت بیان کی گئی ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ مجھے ملا اور پوچھا: آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا: میں کتاب پڑھنا بھول گیا۔ اس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: وہ کیوں؟ میں نے کہا: یہ کوئی زیادہ ضروری نہیں تھا۔ اگر میں مر جائوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تمہارا شیخ کون تھا اور اس کی کرامات کیا تھیں؟ وہ چلا گیا اور میرے بارے میں اس بات کی اشاعت کرتا رہا کہ میں ’گمراہ‘ ہوں اور میں اولیا کی کرامات پر ایمان نہیں رکھتا۔
ایک اور شخص مجھے ملا۔ اس نے کہا: موسیقی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اگر یہ جہادی موسیقی ہو جس کا مقصد جرأت دلانا اور قربانی پر ابھارنا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر ایسی جذباتی موسیقی ہو جس کے ذریعے کسی جائز اور مفید کام کا شوق دلایا جاتا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر یہ بُرے جذبات ابھارنے والی اور فحش موسیقی ہو تو پھر جائز نہیں ہے۔ وہ چلا گیا اور میرے بارے میں یہ تبلیغ کرتا رہا کہ میں اباحیت پسند ہوں اور میں حرام (یعنی) موسیقی سنتا ہوں۔
ان دونوں افراد کا ایک بات پر ایمان تھا اور انہوں نے اسی کو دین سمجھ رکھا تھا۔ وہ تمام حالات اور افراد کو اسی کٹھہرے میں کھڑا کر کے ان کے بارے میں فیصلہ دلواتا تھا۔
یہ حد سے زیادہ اہمیت جو دین کے کسی مخصوص پہلو کو ہوتی ہے، یہ وہ مرض ہے جو کبھی ایسے فقہا کا پیدا کردہ ہوتا ہے جن کی فکر تو تیز ہوتی ہے مگر ان کے دل عبادت گزاروں کے نہیں ہوتے، یا ان صوفیوں کی تخلیق ہوتا ہے جن کے احساسات تو عشق کی انتہا پر ہوتے ہیں، مگر ان کے پاس فقہا کی عقل نہیں ہوتی۔
یہ راز ان محدثین کا کارنامہ ہوتا ہے جو نصوص یاد تو کرلیتے ہیں، مگر انہیں اپنے ٹھیک ٹھیک مقام پر نہیں رکھتے اور ان میں اجتہاد کا مَلکَہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ ان اصحاب رائے کی کارگزاری ہوتی ہے جو مصلحت کو تو دیکھتے ہیں مگر اسے کسی صحیح نص کے ساتھ جوڑ نہیں سکتے۔ یا یہ ان حکمرانوں کی کرم فرمائی ہوتی ہے جو کچھ مقررہ اہداف کے لیے کام کرتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ جمہور کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں کہ تقویٰ کے سرمایے میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی عام طور پر ہوتا ہے کہ لوگ انفرادی عبادتوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، مگر جب بات نصیحت یا زجر کی آتی ہے یا امرونہی کا موقع ہوتا ہے یا حکمرانوں کی ناراضی مول لینے کا مرحلہ ہوتا ہے تو وہاں طویل خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ یہ خرابی ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو مراسم عبادت میں خوب ماہر ہوتے ہیں اور وہ شارع کی طرف سے آئی ہوئی اطاعتوں میں ذرّہ برابر بھی کمی بیشی نہیں کرتے، مگر باوجود اس کے وہ ان کی حکمتوں سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے اور نہ ان میں سے کسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
نماز کے نتیجے میں نظم و ضبط اور طہارت آتی ہے مگر وہ باہم متفرق اور پراگندہ ہوتے ہیں۔
حج ایک تعمیری سفر ہے جو دل اور اعضا کو سکینت اور رحم سے معمور کرتا ہے، مگر لوگ مناسک حج کے وقت بھی اور اس کے بعد بھی سخت خُو اور بُرے ہوتے ہیں۔
اسلام کی دعوت ان لوگوں کے کانٹے صاف کردیتی ہے جو کم سمجھ والے اور زیادہ سرگرم ہوتے ہیں اور وہ اپنی کم فہمی کی وجہ سے بھلائی کی جگہ برائی کے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔
ان نوجوانوں سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچے گا جو یورپ و امریکا کے معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں بھی سفید کُرتے پہنتے ہیں، زمین پر بیٹھتے ہیں، ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں، پھر انگلیاں چاٹتے ہیں، ان کے خیال میں یہ کھانے کے بارے میں نبیﷺ کی ہدایت ہے۔ اور پھر وہ مغرب کے سامنے اسلام پیش کرتے ہوئے اسی سے آغاز کرتے ہیں۔
کیا اسلام میں کھانے کے آداب یہی ہیں؟
اور جب یورپی لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کسی مشروب کی تلاش میں ہے، وہ گلاس پکڑتا ہے پھر اگر وہ کھڑا ہوتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے تاکہ پینے میں سنت پر عمل کرسکے۔ کیا یہی عجیب منظر اس کے لیے اسلام میں داخل ہونے کے لیے دلچسپی پیدا کرے گا۔
اور یہ تو چھوڑیں ایسی اشیا کیوں کسی کو اللہ کی راہ سے روکنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور ان کی وجہ سے اسلام ایسی شکل میں سامنے آتا ہے، جیسے یہ کوئی بدشکل اور بدنما دین ہو۔
اسلامی دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں پہلے اختلافی امور پیش نہیں کیے جاتے، خواہ وہ اپنے علم برداروں کے لیے کتنی ہی اہمیت رکھتے ہوں۔ زمین پر بیٹھ کر کھانا اور ہاتھوں سے کھانا سنت عادیہ میں سے ہے۔ ان کا عبادات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دین کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہوگا کہ اسے ان فروعی امور کے پس منظر میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ اسی طرح عورت کے چہرے پر نقاب ایک ایسا مسئلہ ہے جسے بعض فقہا نے قبول کیا ہے اور بعض نے قبول نہیں کیا۔ چنانچہ کسی طرح بھی یہ بات درست نہیں ہوگی کہ اللہ کے دین کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسی مسئلے کو سب سے پہلے ان پر لازم کیا جائے۔
اس حدیث پر غور کریں جسے امام بخاری نے اسلامی پیغام کو پیش کرنے کے طریق کار کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس طریق کار کی تائید کی ہے۔ یوسف بن ماہک سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کے ہاں بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ایک عراقی آیا اور کہنے لگا: کون سا کفن بہتر ہے؟ انہوں نے کہا: ارے تمہیں کیا تکلیف ہے؟ (یعنی یہ سوال پوچھنے کی کیا ضرورت ہے) پھر اس نے کہا: ام المومنین! مجھے اپنا مصحف تو دکھایئے۔ وہ کہنے لگیں: کیوں؟ اس نے کہا: شاید میں اس کے مطابق قرآن کا کوئی نسخہ تیار کرلوں ، کیونکہ لوگ اس کو غیر مرتب پڑھ رہے ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟ ہاں! اور تم نے اس سے پہلے قرآن کو پڑھا ہے؟ قرآن جب پہلے پہل نازل ہو رہا تھا اس وقت عموماً مفصلات نازل ہوتی تھیں جن میںجنت اور جہنم کا ذکر ہوتا تھا۔ پھر جب لوگ اسلام کی طرف لوٹ آئے تو پھر حلال و حرام کے احکام نازل ہونا شروع ہوئے۔ اگر سب سے پہلے یہ حکم نازل ہوتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم شراب کو نہیں چھوڑ سکتے، اسی طرح اگر شروع ہی میں یہ حکم نازل ہوتا کہ زنا، نہ کرو۔ تو لوگ کہتے کہ ہم تو زنا کو نہیں چھوڑ سکتے۔ مکہ میں، جب میں چھوٹی بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہَیٰ وَاَمَرُّ (القمر:۴۶) ’’ان سے نمٹنے کے لیے اصل وعدے کا وقت تو قیامت ہے، اور وہ بڑی آفت اور زیادہ تلخ ساعت ہے‘‘۔ مگر سورۂ بقرہ اور نساء اُس وقت جاکر نازل ہوئیں جب میں نبیﷺ کے ساتھ تھی۔ راوی کہتا ہے کہ پھر انہوں نے اپنا مصحف نکالا اور اس کے سامنے کوئی سورت پڑھ دی۔
لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو دعوت کا کام کرتے ہیں، مگر ان میں فقہ اور سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ وہ اس دین پر احسان کے بجائے اس کا نقصان کرتے ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں، جو اپنی کوتاہی کو استعلا کے پردے میں چھپاتے ہیں اور الٹا دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
یہ قصور بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ میں نے بعض ایسے طالب علم بھی دیکھے ہیں جو اسلام کو چاروں طرف سے محدود کرتے کرتے اس کو مرد کے چہرے پر داڑھی اور عورت کے چہرے پر نقاب تک محدود کردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تصویر بھی حرام ہے خواہ وہ کاغذ پر کیوں نہ ہو، اور اسی طرح وہ موسیقی کو بھی مسترد کرتے ہیں، خواہ وہ شریفانہ ماحول میں اور اچھے الفاظ کے ساتھ کیوں نہ ہو۔
میں یہ نہیں چاہتا کہ اس طرح کے امور میں کسی حکم کا فیصلہ کر دوں، میرا مطلب تو صرف یہ ہے کہ جو بھی کام کرنا ہو، وہ اپنے اندازے کے مطابق ہونا چاہیے۔ کوئی شخص جو طرزِ عمل بھی اختیار کرے اسے دین کی بلند ترین چوٹی قرار نہ دے۔ حالانکہ وہ دین کے فروعی معاملات میں سے ہوں اور جن کی خاطر جنگ و جدل کرنا دین کے پائوں پر کلہاڑی مارنے اور امت
مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے۔
’’اے ہمارے رب! ہم سے بھول چُوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔ آمین، (البقرہ: ۲۸۶)
(کتاب مکمل ہوئی!)
☼☼☼
Leave a Reply