
حال ہی میں امریکا کے نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (NASA) نے ڈیپ امپیکٹ کے نام سے ایک خلائی جہاز ایک دمدار سیارہ (جن کو عرفِ عام میں جھاڑو تارہ بھی کہا جاتا ہے) کی تحقیق کے لیے خلا میں روانہ کیا ہے۔ دمدار سیارے ایسے چھوٹے فلکی اجسام ہوتے ہیں جو طویل بیضوی مداروں میں سورج کے اطراف گردش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت میں زمین سے دکھائی دیتے ہیں۔ زمین سے ان کو جھاڑو تارہ کی شکل میں آسمان پر دیکھا جاتا ہے۔ (سب سے مشہور و معروف جھارو تارہ ہیلی کا دمدار سیارہ Halley’s Comet ہے)۔ دمدار سیارے دراصل مٹی اور چٹانوں کے تودے ہوتے ہیں جو نظامِ شمسی کے شدید سرد علاقوں میں آج سے کوئی ساڑھے چار بلین سال پہلے وجود میں آئے تھے۔ اب تک ایسے دمدار سیاروں کے دور سے مشاہدات کیے جاتے رہے ہیں۔
فی الحال ڈیپ امپیکٹ (Deep Impact) کے نام سے جو مصنوعی خلائی سیارہ امریکا نے روانہ کیا ہے وہ ایسا پہلا خلائی مشن ہے جو کسی دمدار سیارہ کی اندرونی سطح میں گھس کر اس کی تحقیقات کرے گا۔ اس تحقیق سے پتا چلے گا کہ آخر یہ دمدار سیارے کن کن عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا ماحول کون کون سے اجزاے ترکیبی پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہ خلائی مشن جملہ ۶ سال کے عرصہ پر محیط ہو گا۔ یہ اس سال ماہِ جولائی میں دمدار سیارہ ٹمپل۔ون (Temple-1) کے قریب آکر اس سے ٹکرائے گا۔ اس وقت اس کا جملہ وزن تقریباً ۳۷۰ کلو گرام ہو گا۔ جب یہ دمدار سیارے کی سطح سے ٹکرائے گا تو اس سے وہاں ایک بڑا گڑھا بن جائے گا جو ایک بڑے گھر سے لے کر فٹ بال کے ایک میدان کی جسامت کا ہو سکتا ہے۔ اس گڑھے کی جسامت کا انحصار اس دمدار سیارے کی سطح کی کیفیت پر ہو گا۔ اس ٹکر کی وجہ سے اس پر موجود برف اور دھول کا ملبہ ہٹ جائے گا اور برف کی تہوں کے نیچے موجود دمدار سیارے کی اصل ساخت ظاہر ہونے لگے گی۔ اس دوران یہ خلائی مشن اپنے کیمروں کی مدد سے وہاں کی تصاویر اور طیف نگار (Spectrometer) آلے کے مشاہدات زمینی اسٹیشن کو روانہ کرے گا۔ جن کے تجزیوں (Analyses) کی مدد سے زمینی ماہرین دمدار سیارے کی سطح کی تحقیقات انجام دیں گے۔ یہ تحقیقات دیگر تفصیلات کے علاوہ خود ہمارے نظامِ شمسی کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں معاون بنیں گی۔
(بحوالہ: سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply