آسٹریلیا پورے براعظم پر مشتمل ایک ملک ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کر رہاہے ۔ ویسے تو عالمی سیاست میں آسٹریلیا کا اب تک اس طرح عمل دخل نہیں رہا جس طرح سے امریکہ برطانیہ ، فرانس اور روس وغیرہ کا ہے۔ مگر اس کے باوجود آسٹریلیا کا عالمی سیاست میں بالواسطہ کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آسٹریلیا کو امریکہ کا انتہائی اہم اور قریبی اتحادی ملک بھی سمجھا جاتا ہے اور حال ہی میں آسٹریلیا کے پارلیمانی انتخابات میں شکست کھانے والے وزیر اعظم جان ہاورڈ کو برطانیہ کے ٹونی بلیئر کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا انتہائی اہم اور قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی طرح ہی امریکی صدر بش کی پالیسیوں اور اقدام کی پیروی اور حمایت کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ آسٹریلوی وزیر اعظم جان ہاورڈ اور ان کی پارٹی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کو امریکہ کے لیے ٹونی بلیئر کے جانے کے بعد ایک اور شدید دھچکا کہا جا رہا ہے ۔ امریکہ اب ایک انتہائی قابل اعتماد ساتھی سے محروم ہو گیا ہے، جس سے عالمی سیاست اور آنے والے وقت میں دور رس نتائج مرتب ہوں گے ۔ ۲۴ نومبر کو آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے خاصے دلچسپ نتائج سامنے آئے جن میں سابق وزیر اعظم جان ہاورڈ کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اپوزیشن کی لیبر پارٹی سے ہار گئی جس کے بعد لیبر پارٹی کے رہنما کیون رڈ کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا گیا۔ گزشتہ ۳۳ برس سے ممبر پارلیمنٹ اور گیارہ برس سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز وزیر اعظم جان ہاورڈ اپنی نشست بھی نہ جیت سکے۔ نتائج کے مطابق لیبر پارٹی کو ۳ء ۵۳ فیصد جب کہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو ۷ء۴۶ فیصد ووٹ ملے ۔ لیبر پارٹی نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی ۱۵۰ نشستوں میں سے ۸۶ پر کامیابی حاصل کی جب کہ حکومت قائم کرنے کے لیے اُسے ۷۶ نشستوں کی ضرورت تھی۔ اس طرح اپوزیشن لیڈر اور گزشتہ ۹ برس سے رکن پارلیمنٹ کیون رڈ آسٹریلیا کے ۲۶ ویں وزیر اعظم بننے کے قریب ہیں۔ جان ہاورڈ عراق جنگ میں امریکی صدر بش کے قریبی ساتھی ہیں اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی رخصتی اور منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد ان کی اہمیت میں اور اضافہ ہو گیا تھا ۔ تاہم یہی اتحاد اور امریکہ کی بے جا حمایت ان کی غیر مقبولیت اور زوال کا سبب بنی ۔ انتخابات سے قبل ہی سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے جان ہاورڈ اور ان کی قدامت پسند جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہار نے کی پیشن گوئی کر دی تھی جب کہ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے سر براہ کیون رڈ کو وزارت عظمیٰ کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔ جان ہاورڈ نے اپنی انتخابی مہم میں اقتصادی پالیسیوں کو ہتھیار بنا یا اور اپنے مدمقابل لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے اس پہلو کے حوالے سے سبقت لینے کی کوشش کی جب کہ کیون رڈ نے عراق جنگ میں شرکت اور امریکہ کا دست راست بننے کو جان ہاورڈ اور ان کی پارٹی کے خلاف استعمال کیا۔ لیبر پارٹی حکومت سے باربار مطالبہ کرتی رہی تھی کہ عراق جنگ میں شامل آسٹریلوی فوجی واپس بلائے جائیں، جب کہ جان ہاورڈ کی حکومت نے جیت کی صورت میں ان میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیون رڈ نے الیکشن مہم کے دوران آسٹریلیوی عوام سے وعدہ کیا تھاکہ اگر وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ۲۰۰۸ء کے آغاز میں آسٹریلوی فوج عراق سے واپس بلا لیں گے۔ کیون رڈ اپنی انتخابی مہم میں خاصے حاوی اور کامیاب نظر آئے جب کہ جان ہاورڈ اس مہم کے دوران تھکے ہوئے نظر آئے۔
انتخابات سے قبل ہونے والے متعدد پول واضح کر چکے تھے کہ کیون رڈ کی مقبولیت جان ہاورڈ سے کافی زیادہ ہے جب کہ اس بات کی بھی پیشن گوئی کی جا چکی تھی کہ جان ہاورڈ اپنی نشست سے ہی ہار جائیں گے۔ ۶۸ سالہ جان ہاورڈ ۱۹۷۴ء سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور ۱۹۹۶ سے وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ انہیں تنخواہیں کم کرنے، عراق جنگ میں بش کا ساتھ دینے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدے کیو ٹو پروٹوکول پر دستخط کرنے سے انکار پر عوام کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انتخابات سے قبل ہی انہوں نے اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ اگر وہ اس بار بھی وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو دو سال بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ انہوں نے لیبر پارٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے منشور میں شامل اقتصادی اصلاحات ملکی معیشت کو نقصان پہنچائیں گی اور صرف ان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی ہی ملکی معیشت کو بلندی پر لے جا سکتی ہے۔ جان ہاورڈ اپنی تمام تر حکمت عملیوں کے باوجود حالیہ انتخابات میں بری طرح شکست کھا گئے۔ اب ان کی جگہ کیون رڈ سے نہ صرف آسٹریلیا میں بلکہ عالمی سطح پر بہت سی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں ۔ اب ایک عمومی سوچ اور امید سامنے آرہی ہے اور وہ یہ ہے کہ آسٹریلیا اب نئی آزادانہ پالیسیوں اور اقدام کے تحت دنیا میں اہم کردار ادا کر ے گا، جس سے آسٹریلیا میں بھی ملکی تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس وقت سب کے مرکز نگاہ اور مرکز امید لیبر پارٹی کے کیون رڈ ہیں۔ لیبر پارٹی کے سر براہ کیون رڈ کی عمر پچاس برس ہے اور ان کی اہلیہ سیلف میڈ ارب پتی خاتون تاجر ہیں۔ کتابوں اور بچوں سے پیار کرنے والے رڈ نے اپنی سفارتی زندگی کا طویل عرصہ اسٹاک ہوم اور بیجنگ میں گزارا جہاں انہوں نے روانی سے چینی زبان بولنا سیکھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی علاقے کوئنز لینڈ میں لیبر ڈپارٹمنٹ کے سینئر بیورو کریٹ کی حیثیت سے کام کیا۔
۱۹۹۸ء میں انھیں کوئز لینڈ کی فیڈرل پارلیمنٹ میں گرفتھ کی سیٹ کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۶ء تک کیون رڈ نے لیبر پارٹی کی وزارتِ خارجہ کمیٹی میں ترجمان کی حیثیت سے کام کیا۔ دسمبر ۲۰۰۶ء میں کیون رڈ نے زندگی کا ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اس وقت کے لیبر سربراہ کم بینر لے کو چیلنج کیا اور پارٹی ووٹنگ میں انھیں شکست دے کر پارٹی کے سربراہ بن گئے۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے انھوں نے عام انتخابات میں اپنے حریفوں کا سخت مقابلہ کیا۔ آسٹریلیا میں سیاسی تجزیہ نگار کیون رڈ کی کامیابی کو بین الاقوامی صورتِ حال میں اہم خیال کر رہے ہیں۔ جان ہاورڈ امریکا اور مغرب نواز لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے جن کے ایشیائی ممالک کے ساتھ کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے جبکہ ان کے برعکس کیون رڈ ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔ چینی زبان روانی سے بولنے والے کیون رڈ نے ایشیائی سیاست کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ان کی جیت آسٹریلیا اور ایشیائی ممالک کو زیادہ قریب لائے گی۔ واشنگٹن اس وقت کیون رڈ کی سربراہی میں آسٹریلیا اور چین کے درمیان مضبوط ہوتے اور نیا رخ اختیار کرتے ہوئے تعلقات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں جب چین کے صدر ہوجن تائو نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا تو کیون رڈ نے ان سے گفتگو چینی زبان میں کی تھی۔ چین چونکہ آسٹریلوی اشیا اور خام مال کا بہت بڑا خریدار ہے، اس لیے جان ہاورڈ کے دور ہی سے چین اور آسٹریلیا کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہو گئے تھے۔ چین کے صدر ہوجن تائو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے غیرجمہوری ملک کے صدر ہیں جنہوں نے آسٹریلیا کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ لیبر پارٹی کی حکومت کے دوران امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان یورینیم پالیسی پر اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو جائے گی۔ آسٹریلیا وہ ملک ہے جس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ یورینیم کے ذخائر موجود ہیں۔ صدر بش امریکی کانگریس سے بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ بھارت کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور ایٹمی ایندھن مہیا کرنے کی اجازت دے جس کو بل کلنٹن کے دور میں روک دیا گیا تھا۔ اس موقع پر بش کے دستِ راست جان ہاورڈ نے اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت کو یورینیم فراہم کریں گے۔ اس کے برعکس کیون رڈ کی لیبر پارٹی ۷۰ء کی دہائی سے اینٹی نیو کلیئر تحریک چلا رہی ہے جس کے تحت آسٹریلیا ایسے کسی ملک کو یورینیم فراہم نہیں کرے گا جس نے این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کیے ہوں۔ آسٹریلیا میں موجودہ پارلیمانی انتخابات میں برسرِ اقتدار پارٹی کے تبدیل ہو جانے سے تین نہایت اہم ایشوز سامنے آئیں گے جو کہ سابقہ حکمراں پارٹی کی پالیسیوں سے یکسر تصادم ہیں۔ سب سے پہلا ایشو آسٹریلیا کو برطانوی شاہی تسلط سے نجات دلانا ہے۔ لیبر پارٹی نے انتخابات سے قبل آسٹریلیا کو ایک حقیقی جمہوری ملک بنانے اور برطانوی شاہی خاندان کا آسٹریلیا پر اثر و رسوخ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ آسٹریلیا کی ری پبلکن پارٹی کے رکن مائیک گیٹنگ نے کہا ہے کہ جان ہاورڈ کی شکست سے آسٹریلیا کے لیے برطانوی شاہی تسلط سے آزادی کا راستہ کھل گیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ لیبر پارٹی اپنا وعدہ پورا کرے اور آسٹریلیا میں شاہی حکومت ختم کر دی جائے۔ آسٹریلیا ۱۷۸۸ء سے برطانوی نوآبادی تھا اور اسے ۱۹۰۱ء میں آزادی ملی تھی۔ جان ہاورڈ نے ۱۹۹۹ء میں آسٹریلیا کو حقیقی جمہوریہ بنانے کے لیے ریفرنڈم کروایا تھا لیکن انھوں نے مہم کے دوران اس کی مخالفت شروع کر دی جس کی وجہ سے آسٹریلیا میں ایک طبقہ جان ہاورڈ کو ہی ریفرنڈم کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے مگر اب لیبر پارٹی کے آنے سے اُمید بندھ چلی ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور عملی قدم اٹھائے گی۔
دوسرا اہم ایشو عراق سے آسٹریلوی فوجیوں کی واپسی کا ہے۔ ٹونی بلیئر کے بعد جان ہاورڈ ہی عراق جنگ اور دیگر پالیسیوں کے بارے میں امریکا کے اہم حمایتی تھے۔ ان کے جانے سے امریکا کو عراق میں ایک شدید دھچکا لگے گا۔ کیون رڈ نے اپنے پیش رو جان ہاورڈ کے برعکس آسٹریلوی فوجیوں کی واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آسٹریلیا کی انتہائی تربیت یافتہ اور اسپیشل فورسز امریکا کے شانہ بشانہ انتہائی اہم اور خفیہ سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہیں۔ جان ہاورڈ امریکا کی حمایت میں اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ بعض اوقات وہ عراق میں فوجوں کے قیام کے موقف میں امریکا سے زیادہ جوش اور ضرورت سے زیادہ حمایت کا اظہار کرتے تھے۔ اس وقت افغانستان میں بھی آسٹریلیا کی ایک ہزار اسپیشل فورسز موجود ہیں۔ عراق کے بعد افغانستان میں بھی اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ نئی آسٹریلوی حکومت وہاں سے فوجوں کے انخلا کا اعلان کر دے۔
آسٹریلیا کی پالیسی میں تیسری اہم تبدیلی کیون رڈ کی ماحولیات کے حوالے سے معاہدے کیوٹو پروٹوکول پر دستخط پر آمادگی ہے اور اب جان ہاورڈ کے ہارنے کے بعد اقوامِ متحدہ کے کیوٹو پروٹوکول کی مخالفت کرنے والے ممالک میں بش تنہا رہ گئے۔ آئندہ ہفتے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر ایک اہم کانفرنس ہونے والی ہے جس میں ۲۰۱۲ء کے بعد کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں پر غور کیا جائے گا۔ کیوٹو پروٹوکول پر دستخط کرنے والے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ۲۰۱۲ء تک گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کے لیے دیے گئے ٹارگیٹ کو پورا کریں۔ مارچ ۲۰۰۱ء میں بش نے کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کو منظوری کے لیے امریکی سینیٹ میں جمع نہیں کروائیں گے۔ اس معاملے میں بش کو آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ کی حمایت حاصل تھی جن کا خیال تھا کہ کیوٹو پروٹوکول وقت کا ضیاع ہے کیونکہ اس میں دنیا کے بڑے آلودگی پیدا کرنے والے چین جیسے ممالک شامل نہیں ہیں۔ آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات سے جہاں ایک طویل عرصے تک قائم رہنے والے دور کا خاتمہ ہوا ہے، وہیں یہ انتخابات ایک نئے دور کے آغاز کی نوید لے کر آئے ہیں۔ کیون رڈ کی کابینہ میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔ آسٹریلیا کی تاریخ میں پہلی نائب وزیراعظم خاتون کو بنایا گیا ہے۔ نائب وزیراعظم جولیا گیرالڈ کو تعلیم اور صنعتی تعلقات کی وزارت بھی دی گئی ہے۔ لیبر پارٹی کے منصوبہ ساز اسٹیفن اسمتھ کو وزیرِ خارجہ جبکہ سابقہ پارٹی لیڈر سائمن کرین کو تجارت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ خاتون وزیر پینی دونگ کو ماحولیات کا وزیر بنایا گیا ہے جو کیوٹو پروٹوکول کے سلسلے میں مذاکرات کریں گی۔ وزیرِ دفاع جوئل فٹزگبن کو بنایا گیا ہے جو عراق سے آسٹریلیا کے فوجی دستوں کی واپسی کے لیے کیون رڈ کی مدد کریں گے۔
عالمی سیاست، معیشت اور مختلف امور میں وقت کے ساتھ ساتھ امریکا کی گرفت ڈھیلی پڑتی چلی جارہی ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے ہم خیال اور رازداں ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ اسپین اور اٹلی میں تبدیلیوں کے ساتھ ہی برطانیہ میں بھی صدر بش ٹونی بلیئر جیسے ساتھی سے محروم ہو گئے جنہیں عالمی میڈیا میں صدر بش کے پالتو کتّے سے تشبیہ دی جانے لگی تھی اور اب وہ گزشتہ گیارہ برسوں سے برسرِ اقتدار جان ہاورڈ جیسے قریبی اور اہم ساتھی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے دوسرے قریبی ساتھی کولن پاول، ڈونالڈ رمسفیلڈ، ورلڈ بینک کے سابق صدر پال وولفووٹز اور جارج ٹینٹ وغیرہ بھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اب یہ نیا سال ۲۰۰۸ء صدر بش کا آخری سال ہے۔ اس کے بعد وہ بھی منظرِ عام سے پس منظر میں چلے جائیں گے اور اُمید قوی ہے کہ آئندہ برس امریکی حکومت کی لگام ڈیمو کریٹک پارٹی کے ہاتھ میں ہو گی جو صدر بش کی بیشتر پالیسیوں کو ۱۸۰ کے زاویے کا رخ دے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں بہت سے ممالک اپنی افواج واپس بلوانے کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ جاپان کی پارلیمنٹ نے بھی عراق سے فوجی دستوں کی واپسی کی منظوری دے دی ہے۔ اب اُمید کی جاسکتی ہے کہ عنقریب دنیا کو فردِ واحد کی یکطرفہ آمرانہ، غیردانشمندانہ اور غیرمنصفانہ پالیسیوں سے نجات مل جائے گی۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۲۲ دسمبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply