
ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس اُن بقید حیات علمی شخصیات میں سے ہیں جو دورِ حاضر میں ہمارے لیے علمی و فکری مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ فلسفہ میں پی ایچ ڈی ہیں، جبکہ حدیث شیخ ابن بازؒ سے پڑھ رکھی ہے اور عقیدہ میں بالعموم مدرسۂ نجد سے کسب فیض کیا ہے۔ امریکا میں بننے والے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ میں عالم اسلام کے جو مفکرین پیش پیش رہے، ان میں ڈاکٹر جعفر ادریس بھی شامل رہے ہیں۔ بعد ازاں، یعنی اِس انسٹی ٹیوٹ پر ’’عقلیت پسند‘‘ رجحانات کی چھاپ بڑھ جانے کے بعد، ڈاکٹر جعفر نے امریکن اوپن یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، جس میں ہمارے استاد ڈاکٹر صلاح الصاویٰ آپ کے دست راست تھے، جو بعد ازاں ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس کے امریکا بدر ہو جانے پر اس جامعہ کے صدر بنے۔ امریکا سے نکال دیے جانے کے بعد سے ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس اپنے آبائی وطن سوڈان میں قیام پذیر ہیں۔ قدیم اور جدید ہر دو علوم میں ید طولیٰ رکھنے والے ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس فکری امور میں عالم اسلام کے نوجوانوں کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ اور ایک نہایت قابل اعتماد علمی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔
’’بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے انیسویں صدی کی ہزاروی (Millenarian) تحریک سے جنم لینے والی امریکی پروٹسٹنٹ تحریک کے لیے استعمال ہونا شروع ہوئی، جو پھر بعد میں علیحدہ طور پر بیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکا کی مذہبی و غیر مذہبی زندگی میں دَر آنے والے جدید رجحانات کے بالمقابل استعمال ہونے لگی۔ یہ اصطلاح مذہبی مقالوں کے ایک مجموعہ The Fundamentals سے اخذ کی گئی جو ۱۹۰۹ء کو امریکا میں شائع ہوا۔
تاہم بعد میں یہ اصطلاح کسی مذہب کے بنیادی عقائد سے تمسک اور سیکولرزم سے برأت کی صورت میں جلد ہی ایک عالمگیر واقعہ کے طور پر دیکھی اور سمجھی جانے لگی۔ دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب کے پیروکاروں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سیکولرزم کو محض مسترد کر دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے مذاہب کی روشنی میں اس کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے خود کو منظم کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں‘ تاکہ اس کے مناسب متبادل تلاش کر سکیں۔ چنانچہ ہر مذہب میں اس کے اپنے اپنے بنیاد پرست پائے جاتے ہیں۔ مثلاً بنیاد پرست یہودی‘ بنیاد پرست بدھ‘ بنیاد پرست ہندو‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر جو بنیاد پرستی ہمیشہ خبروں کی زینت بنی رہتی ہی اور جس کے لیے مغربی دانشور‘ صحافی اور منصوبہ ساز سب سے زیادہ متفکر و منہمک نظر آتے ہیں‘ وہ صرف اور صرف ’’مسلم بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ تاہم یہ سمجھنا غلط ہو گا‘ جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ تمام مسلم بنیاد پرست مل کر یکساں طور پر ایک ہی تحریک تشکیل دیتے ہیں جس کے نظریات اور مقاصد سب میں ایک طرح سے مشترک ہوں اور جو کسی واحد قیادت تلے متحد بھی ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’اسلامی‘‘ کا سابقہ لگانے والے گروہوں میں شیعہ بھی ہیں اور سُنی بھی۔ اور اس ایک بظاہر مشترک پہچان کے باوجود ہر دو گروہوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق اور بعد پایا جاتا ہے۔ بلکہ خود سنی اور شیعہ میں ان کے اپنے اپنے اندر مختلف گروپس اور تحریکیں پائی جاتی ہیں۔ ان سب کو مغربی میڈیا ایک ہی پہچان سے مُلقّب کرتا ہے: ’’بنیاد پرست‘‘۔
تو پھر ان مختلف و متنوع مسلم جماعتوں اور تنظیموں، حتیٰ کہ بعض مسلم ریاستوں تک کو اصطلاحِ مذکورہ کے تحت لانے کی کیا مناسب توجیہ اور کیا نقطۂ اشتراک ہونا چاہیے؟ پس وہ چیز جو ان سب جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان مشترکہ ہے‘ اور جس میں یہ سب جماعتیں‘ غیرمذہبی بنیاد پرست تحریکوں کے بالمقابل یکساں طور پر صف آراء نظر آتی ہیں‘ وہ بلاشبہ سیکولرزم کا مسترد کیا جانا ہے۔
چنانچہ مذہبی بنیاد پرستی اپنی اس تعریف کی رُو سے ایک سیکولر مخالف طرزِ عمل ہے۔
لیکن چونکہ کچھ مسلم بنیاد پرست‘ اور مسلم دنیا اور مغرب میں موجود ان کے مخالفین‘ سیکولر مخالف رویّے کو مغرب مخالف یا امریکا مخالف رویے کے ساتھ گڈمڈ کر دیتے ہیں‘ لہٰذا اس کے نتیجے میں مسلم بنیاد پرستی کی تعریف ایک مغرب مخالف رویے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ یہ نقطۂ نظر بسا اوقات کچھ ان اہلِ مغرب کی طرف سے بھی اختیار کیا جا رہا ہوتا ہے جن کو خود وہاں کے سیکولرزم سے شدید ترین مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ مغرب اور سیکولرزم کو ایک دوسرے کا مترادف و ہم معنی قرار دینا‘ ایک طرح سے خود مغرب کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ کیونکہ مغربی تہذیب میں کافی کچھ ایسا بھی ہے جو مغرب اور دیگر اقوام کے لیے سیکولرزم کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت اور قدر و قیمت کا حامل ہے۔
اور چونکہ مسلم دنیا پرستی کی حیثیت متعین کرنے میں سب سے زیادہ زور اسی مغرب مخالف رویے پر ہی رہا ہے‘ چنانچہ اب جو کوئی بھی مسلم فرد یا گروپ کسی بھی اہم مسئلہ یا نکتہ یا کسی پالیسی پر مغرب کے ساتھ آوازۂ اختلاف بلند کرتا ہے‘ اس پر فوراً ’’بنیاد پرست‘‘ کی مہر ثبت کر دی جاتی ہے۔ اب جمہوریت کو ہی لے لیجیے۔ کوئی عاقل و ہوشمند شخص ایسا نہیں ہو گا جو جمہوریت سے تعلق رکھنے والی تمام کی تمام چیزوں کو رد کرتا ہو۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ جمہوریت میں بھی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں انسان کی بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ تاہم یہ سوچنا بھی قطعاً غلط ہو گا کہ جو لوگ بیسویں صدی کی مغربی اقوام کی طرز پر جمہوری ادارے اور ان جیسی اَقدار نہیں رکھتے وہ لازماً مغرب کے دشمن ہیں۔
ستم بالائے ستم‘ کہ مسلم بنیاد پرستی کے نام سے اب اکثر لوگوں کے ذہن میں دہشت گردی کا تصور ابھرنے لگا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں میں سے جو چند ایک شاید دہشت گردی قرار دی جانے کی واقعی مستحق ہوں‘ ایک حقیقی مسلمان کو ان کے تصور سے ہی جھرجھری سی آجاتی ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایک حساس اور صاحبِ دل مخلوق ہے۔ دوسرے یہ کہ معصوم انسانوں کو قتل کرنا جو مسلمانوں کے ساتھ برسرِ پیکار نہ ہوں‘ پیغمبرِ اسلام کی طرف سے سختی سے منع کیا گیا ہے‘ حتیٰ کہ جب مسلمان کفار کے ساتھ بالفعل مبتلائے کارزار بھی ہوں۔
اس سب گفتگو کا مقصد مسلم دنیا میں ابھرنے والے بنیاد پرستی کے اس وقوعہ کی تردید کرنا نہیں ہے۔ اصل سوال اس کے پائے جانے کا نہیں (کہ وہ تو ایک واقعہ ہے) بلکہ اس کی اصل نوعیت اور کیفیت کو سمجھنے کا ہے۔
تو پھر ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ کی درست تعریف کیا ہونی چاہیے؟ اس کے لیے اب ہم اسے عیسائی بنیاد پرستی سے پرکھ کے دیکھتے ہیں:
جو خصوصیات عیسائی بنیاد پرست تحریک کے لیے وجۂ امتیاز قرار دی جاتی ہیں‘ ان میں انجیل کے ایک ایک لفظ کے خدا کی طرف سے نازل ہوا ہونے کا عقیدہ رکھے جانے کے ناتے اس کا ایک قطعی حجت کے طور پر تسلیم کیا جانا‘ اور اس کے الفاظ کے ظاہری معنی کی پیروی کرنا‘ نیز مسیح کی بن باپ پیدائش اور قیامت سے پہلے ان کی آمدِ ثانی‘ (کفار کے) مخلّد فی النار ہونے کا نظریہ‘ اور (اشاعت مذہب کے لیے) تبلیغی سرگرمیوں کا التزام کیا جانا وغیرہ امور شامل ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو ان سب میں قرآن کے بعینہٖ کلامِ خداوندی ہونے پر کامل اتفاق پایا جاتا ہے۔ قرآنی آیات کی تفہیم و تشریح کے لیے ان کا طریقِ کار بڑی اور بنیادی حد تک ظاہری طرز پر مبنی ہے۔ اگرچہ عیسائیوں کے ہزاروی نظریے ایسی کوئی خرافات مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی‘ تاہم یہ سب مسیح کی بن باپ پیدائش کے ساتھ ساتھ ان کے نزولِ ثانی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ مزید برآں‘ ہر مسلمان اگرچہ ’’تبلیغی‘‘ (Evengelic) نہیں ہوتا‘ تاہم مسلمانوں کو تبلیغیت (Evengelism) کے اس نظریے سے کوئی اصولی اختلاف بھی نہیں ہے۔ یوں بنیاد پرستی کی ’’عیسائی شرائط‘‘ پر اگر پرکھا جائے تو تقریباً تمام ہی مسلمان اس طرح لازمی طور پر بنیاد پرست قرار پاتے ہیں۔
اندریں صورت‘ بنیاد پرستی کو مسلمانوں میں کے کسی مخصوص فرد‘ گروہ یا تحریک کے ساتھ کیونکر خاص کیا جاسکتا ہے؟
جہاں تک میرا خیال ہے‘ اسلام کے کچھ ایسے نظریات کو‘ جن کو کچھ مسلمان نصوصِ شرعیہ کے ظاہری معنی کا عین اقتضاء سمجھتے ہوں‘ جبکہ دیگر یا تو ان سے جاہل ہوں، یا ان کو نظرانداز کیے ہوئے ہوں یا ان کو اسلام سے غیر متعلق سمجھتے ہوں، اسلام کی مبادیات کے طور پر بشدتِ و اصرار پھیلانا ہی اس (یعنی بنیاد پرستی کے) زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بنیاد پرستی کی اس تعریف کو یہاں ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک گونہ وسعت اور گنجائش پائی جاتی ہے جس کے سبب یہ اس فینامنن کو نہ تو کسی خاص طور میں محدود کرتی ہے‘ اور نہ اسے کسی بیرونی ثقافت کے ردِعمل کے طور پر ہی ظاہر کرتی ہے۔ بایں ہمہ یہ اس قدر محدود بھی ہے کہ تمام کے تمام مذہبی پیروکاروں کو ایک ہی صف میں بھی لاکھڑا نہیں کرتی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ایقاظ‘‘ ……۔ جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply