
جب ولادی میر پیوٹن نے ۲۰۰۰ء میں صدارتی انتخاب جیتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا خواب روس کو عالمی مرکزی دھارے میں مدغم کرنا تھا۔ ان کے مرکزی اقتصادی پروگرام میں جو اُس وقت کے وزیرِ معاشیات ہرمن گریف نے تیار کیا تھا، دوسری چیزوں کے علاوہ جتنا جلد ممکن ہو، ڈبلیو ٹی او میں شمولیت اختیار کرنا تھا۔
البتہ عملاً پیوٹن کی اشرافیہ کے عالمگیریت پسند بیانات اور تحفظاتی پالیسیاں اور انضمام کی مزاحمت بیک وقت جاری ہے۔ روس ڈبلیو ٹی او میں شامل ہونے میں بالآخر کامیاب ہو گیا، لیکن ۲۰۱۲ء میں جا کر یہ ممکن ہوا۔ اس شمولیت سے پہلے اور اس کے بعد بھی، حکومت نے آزادانہ تجارت اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (فارن ڈائیرکٹ انوسٹمنٹ) کو کمزور کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے۔ ۲۰۰۶ء میں روس نے شیل کی زیر قیادت سیخلن توانائی کمپنی کو اپنا اکثریتی حصہ گیزپروم کو فروخت کرنے پر مجبور کر دیا۔ ۲۰۰۸ء میں کریملن نے ۳۰ سے زائد شعبوں (بشمول براڈ کاسٹنگ، ماہی گیری، انتظام اور طباعت) کی فہرست منظور کی، جن میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے حکومتی منظوری لازمی قرار دی گئی۔ اس فہرست کو بالآخر ۴۵ صنعتوں تک بڑھا دیا گیا۔ یہاں تک کہ جو صنعتیں فہرست میں شامل نہیں تھیں، متعدد مواقع پر ان میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خاموشی کے ساتھ ہٹ جانے پر مجبور کیا گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے جن اثاثوں کو حاصل کرکے کاروبار کرنے کا ہدف بنایا تھا، انہیں سیاسی طور پر متصل، مسابقت کو ناپسند کرنے والے روسی کاروباری اداروں نے قبضے میں لے لیا۔
روس میں بدعنوانی کی اعلیٰ سطح کی وجہ سے یہ اقدامات غیر متوقع نہیں تھے۔ تاہم، روس کے عالمگیریت سے جڑنے کے مجموعی تصور پر کم از کم ۲۰۱۴ء تک سوال نہیں اٹھایا گیا۔ اس وقت بھی جب پیوٹن کے زیرِ انتظام روس کی معیشت مزید بدعنوان اور مزید جامد ہوتی جارہی تھی، روس عالمی معیشت میں تیزی کے ساتھ ضم ہوتا جارہا تھا۔
یوکرین بحران کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں روس کی طرف سے کریمیا کے اتصال اور نتیجتاً مغربی پابندیاں عائد ہونے کے بعد روس میں ’’ہم‘‘ اور ’’تم‘‘ کی ایک واضح تقسیم پائی جاتی ہے۔
اس بات کا حتمی ثبوت روس کی طرف سے جوابی پابندیاں عائد کرنا تھا۔ اگست ۲۰۱۴ء میں روس نے مغربی اشیائے خور و نوش کی درآمد پر پابندی لگا دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مغربی کسانوں سے زیادہ یہ روسی گھرانوں کو تکلیف دے گی۔ ۲۰۱۵ء میں حکومت ایک قدم اور آگے بڑھی اور حکم دیا کہ باہر سے درآمد شدہ کھانے کی جو شے بھی روس میں پائی گئی، وہ جلا دی جائے گی۔ روس میں قحط کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، یہ اقدام سیاسی طور پر خطرناک تھا۔ اس کے باوجود حکومت نے یہ ثابت کرنے کو فوقیت دی کہ حکومت مغربی اشیائے خور و نوش کو برباد تو کردے گی، لیکن انہیں روس کے غریبوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دے گی۔
تنہائی کا راستہ
روس کی اشرافیہ اس بظاہر عالمگیریت مخالف موقف پر کس طرح پہنچی؟ اگرچہ پیوٹن کا ابتدائی مقصد روس کو عالمی معیشت میں مدغم کرنا تھا، لیکن دراصل موجودہ صورتحال ان کے طرزِ حکومت کے ارتقا کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔
ابھی تک ان کی حکومت کی بنا ایک براہ راست سماجی معاہدہ پر تھی۔ عوام بدعنوان اشرافیہ کی عدم جوابدہی کے بدلے بڑھتی ہوئی آمدنیوں اور اعلیٰ معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دونوں کو معیشت کی کشادگی سے فائدہ ہو رہا تھا۔ بڑھتے ہوئے نرخوں نے اقتصادی نمو کو مزید تقویت دی تھی اور اشرافیہ کو دیگر چیزوں کے علاوہ بیرونِ ملک پُرتعیش جائیداد خریدنے اور دنیا کے دولت مند طبقۂ خاص میں جگہ حاصل کرنے کا موقع دیا تھا۔
تاہم ۲۰۱۲ء تک روس کے اقتصادی انجن کا ایندھن ختم ہوگیا۔ ترقی کے تمام موجود ذرائع استعمال کے بعد خالی ہو گئے۔ تیل کی قیمتیں ابھی تک بلند تھیں مگر اس میں مزید اضافہ نہیں ہورہا تھا۔ مزدور اب اتنی ارزاں قیمت پر بکثرت دستیاب نہیں تھے اور اضافی پیداوار کی صلاحیت بھی ختم ہو گئی تھی۔ روس ۲۰۰۹ء کی کساد بازاری کے نقصانات سے تو نکل آیا تھا، لیکن مزید معاشی ترقی صرف نئی سرمایہ کاری اور موجودہ فرموں کی پیداواری صلاحیت میں بہتری کی بدولت ممکن تھی۔ اور اس مقصد کے لیے جائیداد کے حقوق کا تحفظ، معاہدوں کا نفاذ اور مسابقت کو فروغ دینے کے لیے اصلاحات ضروری تھیں، جو براہ راست حکمران اشرافیہ کے استحقاق کے لیے خطرہ تھیں۔
لہٰذا حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اس طرح کی اصلاحات، جن کا عوامی سطح پر اعلان کیا گیا، یہاں تک کہ تحریری طور پر وعدہ بھی کیا گیا، کبھی رو بہ عمل نہ ہوئیں۔ اقتصادی نمو سے ۲۰۱۱ء میں ۴ فیصد سے ۲۰۱۳ء میں ایک فیصد پر آگئی۔ چونکہ سماجی معاہدہ اور حکومت کی حمایت کی بنا بڑھتی ہوئی آمدنیوں پر تھی، معاشی رفتار میں کمی کے ساتھ ہی پیوٹن کی مقبولیت کی شرح ۲۰۱۰ء کے آخر میں ۷۹ فیصد سے ۲۰۱۳ء کے اختتام تک ۶۱ فیصد پر آگئی۔
چنانچہ حکومت نے حکمرانی کے نئے جواز تلاش کرنا شروع کر دیے اور بالآخر کریمیا کے اتصال اور یوکرین میں میدن کے بعد کی حکومت سے مخاصمت نے روسی قوم پرستی کی رگوں میں لہو دوڑا دیا۔ اس کے نتیجے میں پیوٹن کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور وہ ۸۰ فیصد سے بھی کچھ اوپر چلی گئی، لیکن اس عمل نے مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات کو تباہ کر دیا۔
یوکرین کے بحران سے پہلے روس میں کچھ عوامی شخصیات نے سخت مغرب مخالف بیانیہ اپنایا لیکن امریکی اور یورپی سیاست دانوں اور کاروباری اداروں کو یقین تھا کہ یہ محض روس کے رجعت پسند عناصر کی تسکین کے لیے ہے۔ مگر کریمیا کے اتصال کے بعد مغرب مخالف پروپیگنڈہ محض سستا عوامی بیانیہ نہیں رہ گیا۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ روسی حکومت نے کریمیا کے اتصال کی اقتصادی قیمت اور مشرقی یوکرین میں تشدد آمیز عدم استحکام کا اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ کریملن نے سوچا ہوگا کہ روس اور یورپی معیشتوں کا باہمی انحصار مغرب کے ردعمل اور تنقیدی بیانات کو ایک خاص حد سے بڑھنے نہ دے گا اور شاید پابندیوں کو بھی محدود کر دے گا۔
اپریل ۲۰۱۴ء میں پیوٹن نے کھل کر جنوب مشرقی یوکرین کو، نوووروسیا (نیا روس) کہنا شروع کر دیا اور یہ مؤقف اپنانا شروع کر دیا کہ خطے کے باقی چھ صوبوں کو بھی کریمیا کی پیروی کرنی چاہیے۔ تاہم مغربی پابندیوں کے عائد ہونے کے بعد، جس نے آئندہ پابندیوں کی دھمکیوں کو معتبر بنا دیا، کریملن نے حکمت عملی تبدیل کر دی۔ اگرچہ کریمیا رائے شماری کے صرف ایک ہفتے کے بعد روس کا حصہ بن گیا، علیحدگی اختیار کرنے والے دوسرے خطوں کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ماسکو نے مئی ۲۰۱۴ء میں دونسک اور لوہانسک میں ہونے والی رائے شماریوں کو تسلیم نہیں کیا اور یوکرین سے دونسک کی آزادی کی علانیہ حمایت کرنے سے دریغ کیا۔ ملائشیا ایئر لائن کا جہاز گرنے کے بعد مغربی عزم مضبوط ہوا اور شعبہ جاتی پابندیاں بھی عاید کر دی گئیں۔ چنانچہ مغرب کے ساتھ روس کے اقتصادی اور معاشی تعلقات خاصے خراب ہو گئے۔
کریملن کی حکمت عملی کا ایک اہم عنصر اس کے مرکزی رجحان کا ایشیا کی طرف ہونا ہے۔ روس نے یہ فرض کیا کہ چین کے ساتھ مضبوط تعلقات اس کے مغرب سے الگ ہونے کے معاشی اثرات کو قابلِ برداشت بنا دیں گے۔ ان معنوں میں روس عالمگیریت سے دور نہیں ہونا چاہتا تھا بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری کا بہاؤ مغرب سے مشرق کی سمت بدلنا چاہتا تھا۔
تاہم ابھی تک تبدیلی کی یہ امید بر نہیں آئی ہے۔ روس ابھی تک چین کے ساتھ کچھ پروٹوکول اور افہام و تفہیم کے چند مسودات پر دستخط کرنے میں ہی کامیاب ہو سکا ہے، مگر لازمی معاہدوں اور ٹھوس سرمایہ کاری پر ابھی بھی عمل ہونا باقی ہے۔ اس کی کئی توضیحات ہو سکتی ہیں۔
سب سے پہلی تو یہ کہ اگرچہ چین روس کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتا ہے مگر مغرب کے ساتھ اس کے اقتصادی تعلقات بہت زیادہ اہم ہیں، یہ تعلقات نہ صرف حکومت کے لیے بلکہ حکومتی ملکیت میں موجود بینکوں اور کارپوریشنوں کے لیے بھی، جنہوں نے خاص طور پر فرانسیسی بینک بی این پی پاریباس کے دردناک تجربے سے سبق سیکھا ہے، جسے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر ۹ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ امریکی پابندیوں کی اطاعت امریکی کاروباروں کو کھونے سے کم نقصان دہ ہے۔
ایک وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چینی مذاکرات کاروں نے اُس وقت تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہو، جب تک اُن کے روسی ہم منصب معاہدوں کے لیے زیادہ بے چین نہیں ہو جاتے اور پھر انہیں بہتر شرائط پیش نہیں کردیتے۔ یہ نقطۂ نظر روس کی حالت کے بارے میں زیادہ پُرامید ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ روبل کی قدر اور تیل کی قیمت، دونوں کے گرنے اور چین کی اپنی معاشی ترقی سست ہونے کی وجہ سے وسیع پیمانے پر دو طرفہ اقدامات کے امکانات سکڑ رہے ہیں۔ چین کے مرکزی جیوگرافیائی سیاسی منصوبے، ایک پٹی ایک سڑک کو کھربوں ڈالر کی ضرورت ہوگی اور چین سرمایہ کاری کے بہت سے نئے اور مہنگے منصوبوں کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔
آخری توضیح یہ کہ چین کے کارپوریٹ مالکان بھی اندرونِ ملک سیاسی دباؤ سے متاثر ہوں گے۔ صدر شی جن پنگ کی بے مثال بدعنوانی مخالف مہم کے پیشِ نظر وہ روس کی بدنامِ زمانہ بدعنوان کمپنیوں سے سودے کرتے ہوئے محتاط ہوں گے۔
یوریشیا اکنامک اسپیس کے ارکان (آرمینیا، بیلاروس، قزاقستان اور کرغستان) کے ساتھ بڑھتے ہوئے ادغام کے بھی روس کو کوئی خاص فوائد حاصل نہیں ہوئے۔ یہ ممالک نہ تو جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں، نہ بڑی مقامی منڈیاں ہیں اور نہ ہی کافی مالی ذخائر رکھتے ہیں۔ چنانچہ کسٹم یونین کا روس پر معاشی اثر کبھی چین یا مغرب کے معاشی اثر کے برابر نہیں ہو سکا۔ علاوہ ازیں، کریمیا کے اتصال اور اس کے بعد پیوٹن کے ان بیانات نے کہ قزاقستان ۱۹۹۱ء سے پہلے کبھی ایک آزاد ریاستی شکل میں موجود نہیں رہا، بیلا روس اور قزاقستان کو اپنی خودمختاریوں پر ممکنہ روسی تجاوزات کے حوالے سے پریشان کر دیا۔ دونوں ممالک نے کریمیا کے الحاق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بیلاروس تو ممنوعہ اشیائے خور و نوش کی روس تک برآمد کا ایک راستہ بن گیا ہے، جہاں یا تو ان اشیا کی شکل تبدیل کر دی جاتی ہے یا صرف لیبل ہی بدل دیا جاتا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۴ء میں ایک مختصر وقفۂ انتشار کو چھوڑ کر روسی حکومت، خاص طور پر مرکزی بینک، بڑی حد تک مالی استحکام برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ مغرب کی مالی منڈیوں تک رسائی پر پابندیوں کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک نے ایک نیا راستہ نکالا ہے اور وہ ہے غیر ملکی کرنسی کی دوبارہ خرید کے معاہدے۔ عملاً مرکزی بینک نے روسی بینکوں کو قرضے کے طور پر ڈالر دیے جنہوں نے روسی کمپنیوں کے سامنے اپنے قرضے بطور زرِ ضمانت ظاہر کیے اور اپنے خارجی قرضوں کو ادا کرنے کے لیے ڈالرز کو استعمال کیا۔ اس نے روس نہ صرف روبل کی قدر کو بچانے میں کامیاب ہوا بلکہ روسی کارپوریٹ ادارے بھی ڈالر میں موجود قرضوں کو ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔
حکومت نے اپنے طور پر منظم انداز میں اہم بینکوں میں سرمایہ ڈالنے کے معاملے پر بھی غور کیا۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ تنہائی خاص طور پر بینکنگ نظام کے لیے خاصی مہنگی ثابت ہوتی ہے۔ قوی امکان ہے کہ روسی بینک، سوائے سبر بنک کے، جسے ہرمین گریف چلاتے ہیں، ۲۰۱۵ء میں خسارے میں رہیں گے۔ ڈپوزٹ انشورنس ایجنسی کے مالی ذخائر پہلے ہی خالی ہو چکے ہیں اور اس نے مرکزی بینک سے مدد مانگ لی ہے۔
حکومتی امداد کی اب بھی بہت ضرورت ہے مگر حکومت کے اپنے پاس بھی مالی ذخائر کی کمی ہے۔ ۲۰۱۶ء کا بجٹ مسودہ گرچہ خرچ میں ۸ فیصد تک کٹوتی ظاہر کرتا ہے لیکن اس میں بجٹ خسارہ اب بھی جی ڈی پی کا ۳ فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے نقد رقم کے بجائے حکومتی بانڈز کے ذریعے بینکوں میں سرمایہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے وقتی طور پر تو مسئلہ حل کر دیا ہے مگر طویل مدت میں بڑے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ حکومتی قرضوں اور بینک ڈیفالٹ کے شیطانی چکر میں پھنس جانے کا خطرہ ہے۔ اگر بینکوں کے پاس حکومتی بانڈز ہوں گے تو حکومتی قرض بحران سرمایہ کو متاثر کرے گا اور بینکوں میں دوبارہ سرمایہ ڈالنے کے لیے حکومتی بجٹ کو نئے قرض جاری کرنا پڑیں گے۔ یورو زون نے حالیہ سالوں میں اسی مسئلے کا سامنا کیا اور بینکنگ یونین قائم کرکے اس چکر سے نکلنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ روس یورپی یونین کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے میں ڈھٹائی سے کام لے رہا ہے اور وہ بالآخر سیدھا اسی جال میں آپھنسے گا۔
کیا تنہائی سودمند ہے؟
یہ جان لینے کے بعد کہ موجودہ خارجہ پالیسی صرف تنہائی کی طرف لے جائے گی، روسی حکومت نے یہ بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے کہ دراصل یہی تنہائی اس کا مقصود تھی، یاکہ تنہائی روس کے لیے بہتر ہے۔
درآمدات اور غیرملکی سرمایہ کاری گھٹا کر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پابندیاں اور جوابی پابندیاں آخرکار درآمد کے متبادل اور ترقی کو فروغ دیں گی۔ اصل میں روسی حکومت ایک بار پھر نوزائیدہ صنعت کی دلیل کی طرف لوٹ گئی ہے۔ یعنی اگر مقامی صنعت میں مسابقت ہوگی تو تحفظاتی پالیسیاں اس کو بین الاقوامی مسابقت کاروں کے برابر آنے اور پھر ان سے آگے بڑھ جانے میں مدد دیں گی۔
دنیا بھر میں کئی حکومتوں نے اس دلیل کا غلط استعمال کیا ہے مگر کریملن خاص طور پر اس کا نمایاں مجرم ہے۔
نوزائیدہ صنعت کی دلیل کے صحیح ہونے کے لیے بہت سے عوامل کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ یہ دلیل صنعتوں کے ایک محدود گروہ پر منطبق ہوتی ہے، نہ کہ مجموعی معیشت پر۔ اصولی طور پر، ایک امید افزا صنعت جو اپنے غیر ملکی حریفوں سے پیچھے ہو، اسے مروجہ ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھروسا کرنا پڑتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ محفوظ صنعتوں کو پیداواری صلاحیت کی حد کے قریب رہنا پڑتا ہے جبکہ روس میں مزدوروں کی پیداواری صلاحیت، خاص طور پر محفوظ صنعتوں میں، امریکا کے مقابلے میں کم از کم دو گنا کم ہے۔ تیسرا یہ کہ غیر ملکی صنعت کے برابر پہنچنے میں، نام نہاد نوزائیدہ صنعت کو ایک بڑی مقامی منڈی درکار ہوتی ہے۔ اگرچہ روس ایک بڑا ملک ہے لیکن اس کی مقامی منڈی خاص طور پر تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے اب قدآور نہیں ہے۔ ڈالرز میں عالمی جی ڈی پی میں روس کا حصہ اب صرف ۲ء۱ فیصد ہے۔ آخری یہ کہ جو بھی حفاظتی پالیسی عائد کی جاتی ہے، وہ عارضی ہوتی ہے، ورنہ حفاظتی صنعتوں کو عالمی منڈیوں کے برابر پہنچنے کی ترغیب نہ ہوگی۔ محفوظ صنعتیں فائدہ اٹھائیں گی اور گھریلو صارفین کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
یہ واضح ہے کہ نوزائیدہ صنعت کی دلیل کے ممکنہ نتائج بھی جادوئی طریقے سے حاصل نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے بھی روس کو مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ روس کو تکنیکی اہلیت اور بہترین تنظیمی صلاحیتوں دونوں اشکال میں جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ روس کو مالیاتی منڈیوں سمیت جدید سروسز تک رسائی کی ضرورت ہے۔ روس کو عالمی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔ حکومت کچھ بھی کہے، روسی معیشت کسی بھی دوسرے جدید ملک کی طرح خود انحصاری کی بنیاد پر فروغ نہیں پاسکتی۔
تیل کے شعبے میں بھی، جو نسبتاً روس کا مستحکم شعبہ ہے، خود انحصاری گراں ثابت ہوگی۔ پابندیوں سے پہلے روس کی ریاستی تیل کمپنی روسنیفٹ نے سرکردہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ بڑے بڑے سودے کیے جو اس بات کا اظہار تھا کہ وہ نئے کنووں کی تعمیر کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے۔ امریکی اور یورپی ٹیکنالوجی کے بغیر روسی تیل کی پیداوار کو بلندی پر پہنچنے میں کئی سال لگیں گے، جس کے ظاہر ہے کہ وفاقی بجٹ پر منفی اثرات ہوں گے۔
تیل کے سوا دوسرے شعبوں میں اچھی امیدیں اور بھی معدوم ہیں۔ غیر استخراجی (Non extractive) کاروباروں کو ٹیکنالوجی اور مغربی سرمائے تک رسائی درکار ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔
چنانچہ یہ حیران کن نہیں کہ روسی برآمدات میں کمزور روبل کے باوجود اضافہ نہیں ہوا ہے۔ روبل کی قدر میں کمی، پابندیوں اور خاص طور پر روس کی اپنی جوابی پابندیوں نے درآمدات کو جی ڈی پی کے ۱۶؍فیصد تک پہنچا دیا ہے، جو ۲۰۰۹ء سے اب تک کی کمزور ترین سطح ہے۔ برآمدات میں بھی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ برآمدات اور جی ڈی پی کی اوسط نسبت ۲۰۱۴ء کے آخر نصف اور ۲۰۱۵ء کے پہلے نصف میں ۳۴ فیصد تھی جو گزشتہ دو سالوں کی اوسط نسبت ۳۲ فیصد کے مماثل ہی ہے۔
تنہائی نئی منڈیوں بشمول ٹرانسپورٹ، سیاحت اور زراعت کے شعبوں میں بھی برآمدی ترقی کے امکانات کو کمزور کرتی ہے۔ اب یہ شعبے صرف مقامی منڈیوں تک ہی محدود ہو گئے ہیں اور مقامی منڈی تیل کی کم قیمتوں اور کمزور روبل کی وجہ سے ۲۰۱۳ء سے پہلے کے حجم کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔
کریملن کا پروپیگنڈا بار بار اپنے پسندیدہ مو ضوع جنگِ عظیم دوم تک لوٹ جاتا ہے اور یہ دلیل گوش گزار کی جاتی ہے کہ فتح اسٹالن کی صنعتی ترقی کی وجہ سے ملی تھی جو مبینہ طور پر بیرونی امداد کے بغیر عمل میں آئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ آج کے روس کو اس دلیل سے کیا فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس سے قطع نظر، یہ دلیل ہی غلط ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ سوویت یونین کو جنگ کے دوران لینڈ لیز پروگرام سے خاطر خواہ مدد ملی تھی۔ دوسرا، مغرب سے جدید صنعتی ساز و سامان کی درآمد کے بغیر ۱۹۳۰ء میں صنعتی ترقی ممکن ہی نہ تھی۔ آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ اسٹالن کے صنعتی ترقی کے طریقوں کے تباہ کن معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ روسی زراعت تباہ ہو گئی تھی جس نے صنعت سازی کو بھی متاثر کیا تھا۔ قحط اور سیاسی جبر کی وجہ سے لاکھوں جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
آگے کیا ہوگا؟
روس کی معیشت کدھر جائے گی، اس کا تعین داخلہ اور خارجہ دونوں پالیسیاں کریں گی۔ اگر اسٹیٹس کو قائم رہا تو تنہائی کا سفر جاری رہے گا۔ کمزور روبل درآمدات کو کم سطح پر رکھے گا، جس سے لا محالہ درآمدات کے متبادل کی طرف جانا پڑے گا۔ مقامی گھرانوں کو پہلے کی طرح درآمدی اشیا دستیاب نہ ہوں گی۔ مقامی اشیا مہنگے نرخوں پر خریدنا پڑیں گی اور معیاراتِ زندگی نیچے آئیں گے۔
عوامی بے چینی اور ممکنہ احتجاجات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے امکان ہے کہ حکومت دولت کی بہتر تقسیم کرنے کی کوشش کرے گی۔ سب سے پہلے وہ ریزرو فنڈ اور قومی بہبود فنڈ کو کام میں لائے گی مگر یہ سب ایک یا دو سالوں کے اندر ہی ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد حکومت کاروباروں پر ٹیکس بڑھائے گی جس سے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب کم ہو گی۔ نتیجتاً سرمایہ باہر جائے گا اور جی ڈی پی میں مزید کمی واقع ہوگی۔ چنانچہ روسی معیشت کے لیے تنہائی انتہائی مہلک ثابت ہوگی۔
۲۰۱۴ کے بعد سے حکومت پر یہ منکشف ہوا ہے کہ اس کی مقبولیت صرف معیشت کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ پروپیگنڈا اور سنسر شپ کے ایک جامع پروگرام کو استعمال کرتے ہوئے حکومت عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ معاشی مشکلات خارجی مسائل یا سازشوں کی وجہ سے ہیں۔ نیا سماجی معاہدہ جس میں حکومت کی مقبولیت کی بنا خوشحالی کے بجائے پروپیگنڈے پر ہے، دراصل تنہائی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری جتنی کم ہوگی اور مغرب کے ساتھ رابطہ جتنا کم ہوگا، عوام کی نظر میں روسی مشکلات کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرانا اتنا ہی آسان ہو گا۔
روس اس راستے پر کب تک سفر کر سکتا ہے؟ جواب ایک مشہور کہاوت میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ’’آپ تمام لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ آپ کچھ لوگوں کو تمام وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ لیکن آپ تمام لوگوں کو تمام وقت کے لیے بیوقوف نہیں بنا سکتے۔‘‘ موجودہ پروپیگنڈا کی بے مثال سطح کو دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ روس اپنی معیشت کی مشکلات کے اصل اسباب کا جائزہ لینے کا کام شروع کرے گا۔ اس وقت تک تنہائی کا سفر جاری رہے گا۔ اور روس بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری سے علیحدہ رہے گا۔ قلیل مدت میں اس کے معیشت پر تباہ کن اثرات ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ سوویت یونین کی ایک بہت بند معیشت تھی، پھر بھی وہ آٹھ دہائیوں تک باقی رہی۔ اصل قیمت طویل مدت میں چکانی پڑے گی۔ روس ترقی کے مواقع ضائع کرتا رہے گا اور جمود کا شکار رہے گا۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Deglobalizing Russia”.
(“carnegie.ru”. December 16, 2015)
Leave a Reply