بھارت کے معروف ترین اخبار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے ۲۹؍ اگست ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی گرتی ہوئی ساکھ پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ مضمون میں سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے شیخ حسینہ کی مقبولیت میں کمی اور خالدہ ضیاء کی مقبولیت میں اضافے سے بہت پریشان ہیں۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ حسینہ واجد نے کئی معاملات میں بھارت کی دل کھول کر مدد کی ہے۔ شرپسندوں کا قلع قمع کرنے کے نام پر بھارتی فورسز کو بنگلہ دیشی باشندوں پر فائر کھولنے کی اجازت بھی دی گئی، دہشت گردی کے واقعات کی مشترکہ تفتیش پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ مگر اب کئی برسوں کی محنت پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی خفیہ اداروں نے بنگلہ دیش میں قدم جمانے کے حوالے سے بہت محنت کی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ حسینہ واجد کی مقبولیت میں کمی کے ہاتھوں اُن کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔ اگر خالدہ ضیاء دوبارہ اقتدار میں آگئیں تو بھارت کے لیے بنگلہ دیش سے فائدہ اٹھاتے رہنا ممکن نہ ہوگا۔
بھارت کے سیکورٹی ادارے چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حسینہ واجد کی مقبولیت کا گراف پھر بلند ہو۔ چند ایک منصوبوں میں بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش کی بھرپور معاونت حسینہ واجد کی گرتی ہوئی ساکھ کو تھوڑا بہت سہارا دے سکتی ہے۔ دریائے ٹیسٹا کے پانی کی شراکت، دریائے پدما پر بڑے پُل کی تعمیر میں بھارت کی طرف سے بڑے پیمانے پر رقوم کی فراہمی اور ایسے ہی چند دوسرے اقدامات حسینہ واجد کو بنگلہ دیشی عوام کی نظر میں دوبارہ وقیع بنا سکتے ہیں۔ فی الحال تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ فروری ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھرپور کامیابی حاصل کرلے گی۔
’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون پر تبصرہ کرنے والوں کی تعداد ۴۰۰ سے زائد ہے۔ اِن میں بیشتر بھارتی ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے بارے میں انتہائی غلیظ اور اہانت آمیز زبان استعمال کی ہے۔ تبصرے کا انداز سراسر غیر مخلصانہ ہے۔ بیشتر بھارتیوں کی نظر میں بنگلہ دیش اب بھی بھارت کی طفیلی ریاست ہے۔ اُنہیں میڈیا یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ بنگلہ دیش تو بھارت کے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اہم اشاریوں (Indices) میں بنگلہ دیش نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خام قومی پیداوار میں اضافے کی شرح کے اعتبار سے بھی بنگلہ دیشی معیشت کی کارکردگی بھارتی معیشت کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ بھارت میں صنعتوں کے پنپنے کا عمل تھم چکا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں صنعتیں تیزی سے پنپ رہی ہیں۔
بھارت کے بیشتر باشندوں کو اب تک یہ نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اُن کی نظر میں بنگلہ دیش اب بھی مشرقی بھارت کا غریب کزن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے بھارت کی طرح مشرقی بھارت میں بھی ذات پات کا نظام رُو بہ عمل ہے۔ برہمن اب بھی خود کو باقی تمام ہندوؤں سے اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں اور اُن کی نظر میں دوسروں کی زندگی کی بھی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔ اُن کے خیال میں باقی تمام ہندوؤں کو برہمنوں کے زیر نگیں رہنا چاہیے۔ یہی سوچ بنگلہ دیش پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ بنگلہ دیش میں اپنے مفادات اور اثاثوں کو بچانے کے لیے بھارت کچھ بھی کر گزرے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت مخالفین کو انتہائی سفاکی سے کچلنا چاہے اور بھارت کے خفیہ ادارے اس کی بھرپور مدد کریں۔ بات یہ ہے کہ لوگوں کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ پانچ سال پہلے جو کچھ ہوا تھا اسے بھول کر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ اِس وقت کیا ہو رہا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے کرپشن کو ہوا دی ہے اور امن بحال کرنے سے متعلق اُس کے اقدامات نیم دِلانہ رہے ہیں۔ حسینہ واجد کے سامنے واحد آپشن انتخابات کا ہے، کسی اور طریقے سے وہ اپنے اقتدار کو بچانے کی پوزیشن میں نہیں۔ موجودہ حکومت سے فائدہ اٹھانے والوں کو آئندہ انتخابات میں شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ عوامی لیگ بھی اُسی کشتی میں سوار ہے جس میں فخر الدین اور معین الدین کی عبوری حکومت سوار تھی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت پر حسینہ واجد کی حکومت کا انحصار بڑھتا جائے گا۔
بھارت اِس وقت بنگلہ دیش سے من چاہا فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بھارتی خفیہ اداروں کی رپورٹ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کو بچانے کے لیے بھارت کو بنگلہ دیش کی ضرورت ہے۔ ماؤ نواز باغیوں نے بھارتی فورسز اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ باغیوں نے بھارتی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ جب ماؤ نواز باغی، کسی بھی نوعیت کی بیرونی امداد کے بغیر، وسطی بھارت میں فورسز کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں تو سوچیے کہ دور افتادہ شمال مشرقی ریاستوں میں وہ کون سی قیامت نہ ڈھاتے ہوں گے!
بھارتی سیکورٹی فورسز کو شمال مشرق کی دور افتادہ ریاستوں میں کمک پہنچانے اور بر وقت رسد یقینی بنانے کے لیے بنگلہ دیش سے راہداری کی سہولت لینا پڑتی ہے۔ اگر بنگلہ دیشی حکومت سے تعلقات بہتر ہوں تو یہ سہولتیں آسانی سے اور بہت کم خرچ پر مل جاتی ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت اس معاملے میں بھارت کی ممد و معاون رہی ہے۔ بھارتی فوج کے رنگروٹ میدانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں پہاڑی علاقوں میں تعیناتی کا تجربہ ہوتا ہے نہ عادت۔ ان علاقوں میں ان کی مشکلات دو چند ہو جاتی ہیں۔
بھارت کی مرکزی کابینہ میں پرنب مکھرجی تھے تو حسینہ واجد کے لیے آسانیاں تھیں۔ اب وہ صدر بن چکے ہیں، اس لیے مرکزی کابینہ میں بنگلہ دیشی مفادات کی بات کرنے والے کم رہ گئے ہیں۔ رہی سہی کسر مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کے برسر اقتدار آنے سے پوری ہوگئی ہے۔ ایک طرف تو بھارت کو شمال مشرقی ریاستوں میں ماؤ نواز باغیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے بنگلہ دیش سے راہداری کی سہولت درکار ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیشی حکومت کو بھی بھارت سے کئی معاملات میں حمایت اور مدد چاہیے۔ اگر بنگلہ دیش کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں میں بھارت کا کردار نمایاں نہ ہوا تو حسینہ واجد کی حکومت کے لیے عوامی حمایت برقرار رکھنا بہت دشوار ہوجائے گا۔ اگر دریائی پانی کی تقسیم اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے حوالے سے بھارت نے بنگلہ دیش میں اہم اقدامات نہ کیے تو حسینہ واجد کی ساکھ کا بحال ہونا انتہائی دشوار ہوگا۔ بھارت کچھ کیے بغیر ہی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو کسی طور ممکن نہیں۔ عوامی لیگ کو اقتدار پر گرفت کے لیے بہت کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔
(“Delhi Worries on Hasina’s Popularity Slide”… “Weekly Holiday” Dhaka. Sept. 7th, 2012)
Leave a Reply