
بنگلہ دیش میں استغاثہ اور تفتیشی ادارے مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل میں کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ کوئی ایسا گواہ بھی سامنے نہیں لایا جاسکا ہے جسے سب کچھ اچھی طرح یاد ہو اور جو عدالتی کارروائی کو بہتر انداز سے آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہو۔
چار دن تک ناکام رہنے کے بعد ۲؍ فروری کو ٹریبونل کے سامنے استغاثہ نے ایک ایسا گواہ پیش کیا جسے کچھ بھی صحیح ڈھنگ سے یاد نہیں تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس گواہ نے اپنی بات صرف دو منٹ میں مکمل کرلی۔ وکیل صفائی نے اس پر جرح کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔
استغاثہ کی جانب سے گواہوں کو پیش کرنے میں ناکامی اب ٹریبونل میں ایک مسئلہ کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ ٹریبونل کی کارروائی شروع ہوتے ہی جب گواہان طلب کیے گئے تو صرف ایک گواہ پیش کیا گیا۔ اس پر ٹریبونل کے سربراہ جسٹس نظام الحق نے چیف پروسیکیوٹر غلام عارف ٹیپو کو مخاطب کرکے کہا ’’چار دن بعد بھی آپ صرف ایک گواہ کے ساتھ پیش ہوئے ہیں‘‘۔ چیف پروسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں ٹریبونل کو لاحق فکر کا احساس ہے اور یہ بھی بتایا کہ گواہان کی تلاش کے حوالے سے استغاثہ مستقل کوششیں کرتا رہا ہے۔ اس جواب سے جسٹس نظام الحق مطمئن نہ ہوئے اور مرکزی تفتیشی افسر ہلال الدین کو مخاطب کیا کیونکہ گواہان پیش کرنا تفتیشی افسران ہی کی ذمہ داری ہے۔ ہلال الدین نے بتایا کہ گواہان کو پیش کرنے میں استغاثہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چند گواہان بیمار ہیں۔ اس پر ٹریبونل کے سربراہ نے کہا کہ گواہان اگر بیمار ہیں تو انہیں ڈھاکہ لاکر علاج کرایا جائے اور اپنی نگرانی میں رکھا جائے۔
اس کے بعد پروسیکیوٹر سعید الرحمن نے ۶۷ سالہ گواہ محمد حسین علی کے بیان سے کارروائی کا آغاز کیا۔ مگر کچھ ہی دیر بعد گواہان پیش کرنے کا معاملہ پھر ابھر کر سامنے آگیا۔ وکیل صفائی نے جب یہ دیکھا کہ گواہان کو پیش کرنا استغاثہ کے لیے ممکن نہیں رہا ہے تو اس نے کارروائی کے التوا کی درخواست کی۔
پروسیکیوٹر حیدر علی نے جب ٹریبونل کو بتایا کہ الزامات ثابت کرنا انتہائی دشوار ہو رہا ہے اور گواہان کو پیش کرنا بھی آسان نہیں۔ تو ٹریبونل کے سربراہ نے کہا کہ وہ اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، کوئی وضاحت طلب نہیں کر رہے۔ کسی بھی الزام کو ثابت کرنا استغاثہ ہی کا کام ہے۔ اس کے بعد ٹریبونل کے سربراہ، استغاثہ اور وکلائے صفائی کے درمیان چند جملوں کا تبادلہ ہوا اور کارروائی ۱۳ فروری تک ملتوی کردی گئی۔
جماعت اسلامی کے رہنما مولانا دلاور سعیدی کے بارے میں استغاثہ نے ۶۸ وکلاء پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور شواہد بھی لانے کی بات ہو رہی تھی مگر اب تک چند گواہ ہی پیش کیے جاسکے ہیں۔ کئی مواقع پر گواہان پیش کرنے میں استغاثہ مکمل طور پر ناکام رہا ہے جس کے نتیجے میں ٹریبونل کی کارروائی کئی بار ملتوی کی گئی ہے۔ اس عمل سے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا ہے جس پر ٹریبونل برہم بھی ہے۔ ۲؍ فروری کو ٹریبونل کی کارروائی اس لیے ملتوی کرنا پڑی کہ تین گواہان رشتہ داروں سے ملنے گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ استغاثہ انہیں دوبارہ ٹریبونل میں لانے میں ناکام رہا ہے۔ یہ دعوے بھی کیے جارہے ہیں کہ گواہان پر دباؤ ہے۔ انہیں جماعت کے لوگوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں جس کے باعث وہ ٹریبونل میں دوبارہ پیش ہونے سے خوفزدہ ہیں۔ پروسیکیوٹر حیدر علی نے ڈیلی اسٹار سے بات چیت میں بتایا کہ کسی بھی الزام کو ثابت کرنا آسان نہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بتانے سے بھی قاصر رہے کہ اس کیس میں کتنے گواہان کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل میں مولانا دلاور حسین سعیدی کو ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کے الزام کا سامنا ہے۔
چوبیسویں گواہ محمد حسین علی نے ٹریبونل کو بتایا کہ اس نے دلاور حسین سعیدی کو بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران ضلع جیسور کے علاقے بھاگڑ پاڑا میں کسی مقام پر دیکھا تھا۔ اس سے قبل استغاثہ کے دو گواہوں نے ٹریبونل کے روبرو اپنے بیان میں کہا تھا کہ سعیدی نے بھاگڑ پاڑا میں روشن علی کے مکان میں پناہ لے رکھی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بنیاد پر فیروز پور میں سعیدی کو تلاش کیا جارہا تھا۔
محمد حسین علی پورے یقین سے نہیں کہہ پایا کہ اس نے سعیدی کو بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک سے قبل دیکھا تھا یا بعد میں۔ جب پروسیکیوٹر نے اس سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے چند سوالات کیے تو اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سب چالیس سال پہلے کے معاملات ہیں اور اسے اچھی طرح یاد نہیں کہ کیا ہوا تھا۔
یہ تھی چوبیسویں گواہ کی دو منٹ کی گواہی یا بیان۔ وکلائے دفاع نے اس پر جرح کرنے سے انکار کردیا۔ دن بھر کی کارروائی نصف گھنٹے سے بھی کم وقت میں ختم ہوگئی۔
ٹریبونل کی کارروائی مکمل ہوتے ہی وکیل صفائی میزان الاسلام نے روزنامہ جنا کنتھا کی ۲؍ فروری کی اشاعت میں شامل ایک رپورٹ کی طرح توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ صحافت کے بنیادی اصولوں اور ضابطہ اخلاق کے منافی ہے۔ رپورٹ میں تیئیسویں گواہ کے حوالے سے کہا گیا تھا ’’گھر واپس پہنچنے پر مجھے معلوم ہوا کہ سعیدی نے میری بیوی کی آبرو پر ہاتھ ڈالا تھا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ گواہ نے صرف یہ کہا تھا کہ ’’میں گھر واپس پہنچا تو میری بیوی نے بتایا کہ اس پر ہاتھ ڈالا گیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس دن سعیدی گھر پر آیا تھا۔‘‘ جسٹس نظام الحق نے اس رپورٹ کا حوالہ دینے کے بعد کورٹ روم میں موجود صحافیوں سے کہا کہ وہ ٹریبونل کی کارروائی کی رپورٹنگ میں زیادہ سے زیادہ احتیاط برتیں۔ انہوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ اگر کسی بات میں شبہ محسوس ہو تو اس کا ذکر ہی نہ کریں۔ وکلائے صفائی نے تجویز پیش کی کہ مذکورہ اخبار سے کہا جائے کہ وہ تصحیح شائع کرے۔ ٹریبونل نے کہا کہ وہ اس تجویز پر غور کرے گا۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی اسٹار‘‘ ڈھاکا۔ ۸ فروری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply