ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا (Betina Robotka) کا تعلق مشرقی جرمنی سے ہے اور وہ برلن یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ۱۹۷۸ء تک روس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں جنوبی ایشیا کی عصری تاریخ پر تحقیق کر کے برلن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔ فی الوقت وہ کراچی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اساتذہ کے تبادلے کے پروگرام کے تحت یونیورسٹی میں لیکچر دینے تشریف لائی ہوئی ہیں۔
برصغیر کی تحریکِ آزادی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے مسائل پر ان کی آرا بڑی منفرد ہیں۔ جمہوریت کے حوالے سے بھی انہوں نے ہند و پاکستان کے مسائل اور تجربات کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ (ادارہ)
٭ پارلیمانی جمہوریت ریاست کو چلانے کا ایک طریقہ ہے جو یورپ میں ۱۸۔۱۹ویں صدی میں ایک مخصوص معاشرتی‘ سیاسی نیز ثقافتی صورتحال کے تحت صورت پذیر ہوا۔
اس کی ترقی و نشوونما ایک ایسی خصوصیت ہے جسے ہم یورپی جدیدیت (modernity) کا نام دیتے ہیں۔ دانشوروں کے درمیان یہ بحث جاری ہے کہ آیا کوئی جدیدیت ایشیائی ممالک میں بھی آج پائی جاتی ہے‘ مگر جمہوریت بطور ایک سیاسی نظام کے ان کے لیے کس حد تک مناسب ہے؟ اس حوالے سے کوئی سوال زیرِ بحث نہیں ہے۔
جدیدیت کی خصوصیات کیا ہیں؟ اقتصادی شعبے میں سرمایہ داریت کا فروغ‘ زمین کی ملکیت کے فیوڈل طریقے کا خاتمہ‘ پیداوار اور تقسیم کی اربنائزیشن اور مکنائزیشن شامل ہے‘ ایک ایسا معاشرہ جو فیوڈ سوشل گروپس سے علیحدگی کے سبب تشکیل پایا‘ زمیندار صنعتکار بن گئے۔ نئے فری لیبر پاور اور بوژروائی انٹرپرائزز کا ظہور‘ ماقبل جدید سماجی اداروں مثلاً مشترک خاندان اور زمینداروں پر انحصار وغیرہ کا خاتمہ‘ نظریاتی میدان میں روشن خیالی‘ معقولیت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی‘ مساوات‘ آزادی اور پیشہ ورانہ اخوت پر مبنی خیالات‘ سکولرائزیشن‘ جس کا مطلب کلیسا (مذہب نہیں) اور ریاست کے مابین اقتدار کا بٹوارہ وغیرہ جدیدیت کی خصوصیات قرار پائیں۔ ان بنیادوں پر انتخابات‘ بالغ رائے دہی‘ سیاسی جماعتوں اور نظریات کے ساتھ جمہوریت کا پارلیمانی نظام تشکیل پذیر ہوا۔
٭ ان عوامل پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تقریباً تمام کے تمام عوامل پاکستان میں یا تو مفقود ہیں یا ان کی شکلیں مختلف ہیں۔ سرمایہ دارانہ اقتصادی ترقی کمزور ہے اور مخصوص علاقوں میں محدود ہے۔ وڈیرہ شاہی (اور قبائلیت) ختم نہیں ہو سکا ہے بلکہ موجودہ نظام میں مدغم ہو گیا ہے۔ چنانچہ فیوڈل ذہنیت اور سوچ کے ساتھ معاشرے کی تبدیلی نامکمل ہے اور یہ فیوڈل سوچ ان کے ذہنوں پر بھی حاوی ہے جو اپنے مخصوص سماجی و اقتصادی مفہوم میں فیوڈلز اور قبائل میں سے نہیں ہیں۔ مثلاً خاندانی عزت کا خیال خاندان کی عورتوں کے ذہن میں بھی سمایا ہوا ہے۔ اس لیے مساوات و برابری کا خیال ابھی نموپذیر ہے‘ حتی کہ برسرِکار پارلیمنٹ بھی ایسے فیوڈلز اور قبائلی سرداروں سے بھری ہے جو جاگیرداری اور قبائلی نظام کے خلاف کسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کا خیال تک دل میں نہیں لاسکتے ہیں۔
٭ سیکولرائزیشن کی مانگ پر بحث ہو سکتی ہے اور اس پر ازسرِ نو غور کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ کلیسا کے بغیر کسی معاشرے میں ایک جائز مطالبہ ہے؟
٭ سیاسی جماعتیں پارلیمانی جمہوریت کا ایک اہم عنصر ہیں۔ مغرب میں ایک سیاسی جماعت یکساں خیالات کے حامل لوگوں کا وہ گروہ ہے جو ایک سیاسی نظریے پر متفق ہیں (لبرل‘ کنزرویٹو یا سوشل ڈیمو کریٹک آئوٹ لُک) پاکستان میں سیاسی جماعت کسی فرد یا خاندان کا ایک نجی ادارہ ہے جس کی کوئی گہری نظریاتی بنیاد نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اسلامی سوشلزم‘ جمہوریت اور اس طرح کے دیگر نعروں کا استعمال اپنے motto کے طور پر تو کرتی ہیں مگر ان سے ان کا مقصد اپنے ذاتی اقتدار کے مقاصد پورے کرنا ہوتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا سیاسی نظام جو پاکستان کی ضروریات کو پوری کرتا ہو‘ ان سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر قائم کیا جاسکتا ہے؟
٭ کیا پاکستان کے لیے اس مرحلے پر اس بات کا کوئی امکان ہے کہ وہ یورپی ترقی کی نقل کر سکے اور پھر اس طرح کے حالات پیدا کر سکے کہ جن میں پارلیمانی نظام پوری طرح قابلِ عمل اور کارآمد ہو؟ اگر ہاں! تو اس میں کتنا وقت لگے گا؟ کیا ہم انتظار کے متحمل ہیں کہ کوشش اور غلطی کے عمل کا تجربہ کریں؟
٭ جمہوریت یا اس کے متبادل کے امکانات سے متعلق کوئی بھی گفتگو پاکستان کے زمینی حقائق سے صَرفِ نظر نہیں کر سکتی۔ ان حقائق سے آنکھیں بند کر لینا ایک بے معنی سی بات ہے۔ وہ پیشگی شرائط جو پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے بآسانی جاری رہنے کے لیے ضروری ہیں‘ ان کا پہلے ہی ذکر کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کم از کم ایک اور حقیقت ہے اور وہ پاکستان کی سیاست میں فوج کا کردار‘ جسے ضرور خاطر میں لانا ہو گا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ کوئی منتخب جمہوری حکومت بغیر فوج کو شامل کیے کام نہیں کر سکتی ہے۔ وقتی طور سے یہ حقیقت ایک بہت ہی مستحکم حقیقت ہے اور مستقبل قریب میں اس کے محو ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستان میں کسی بھی سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوج کو کسی نہ کسی انداز میں حکومت میں شامل کرے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل ایک طریقہ ہو سکتا ہے لیکن اور بھی دوسرے طریقے ہو سکتے ہیں۔
٭ کیا امکانات ہیں؟ اس کا جواب پانے کے لیے ہمیں پہلے اس کا تعین کرنا ہو گا کہ اس کام کے لیے ہم پارلیمانی جمہوریت یا کسی دوسرے سیاسی نظام سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
۱) ریاست اور حکومت کے استحکام کو یقینی بنانا‘ جس میں امن و قانون کی بہتری شامل ہے۔
۲) موجودہ حکومت سے آئندہ حکومت کو تشدد سے پاک انتقالِ اقتدار کی فراہمی کے ایک آسان طریقے کی دریافت۔
۳) حکمرانوں کی جوابدہی کے ایک موثر نظام کی تشکیل۔
۴) ایک ایسے موثر نظام کی تشکیل جو معیشت کو ترقی دے اور معاشرے میں دولت کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔
٭ دوسری زمینی حقیقت جس کو پیشِ نظر رکھنا ہے وہ ہے بین الاقوامی صورتحال۔ مغرب اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ جمہوریت سب سے بہترین بلکہ واحد قابلِ قبول طریقہ ہے کسی ملک پر حکومت کرنے کا (جمہوریت کی جیسی بھی شکل وہ اپنے یہاں رائج کیے ہوئے ہیں)۔ انہوں نے اس طریقہ کو اختیار کیا ہے اور اس خیال کو تمام بین الاقوامی تنظیموں مثلاً اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں شامل کردہ ہے۔ نیز ترقی پذیر ممالک کے تئیں قومی و بین الاقوامی پالیسیوں کا تعین اس امر پر منحصر ہے کہ آیا یہ ممالک جمہوری خیال کیے جاتے ہیں یا نہیں۔ سفارتی تعلقات سے متعلق فیصلے‘ تجارتی تعلقات میں ترجیحی مقام‘ امداد برائے ترقی اور قرضوں کے حصول کا انحصار‘ اس بات کا تعین کہ کوئی ملک یا حکومت جمہوری ہے یا نہیں۔ انتخاب کی نگرانی Election on monitoring کے ذریعہ ہوتا ہے‘ جس کا رواج ۸۰ کی دہائی سے ہوا۔ ایک آزاد اور صاف و شفاف انتخاب کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک جمہوری حکومت پر منتج ہو گا۔ لہٰذا پاکستان کو وقتی طور سے ایک بونس ملا ہے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر جو گیارہ ستمبر کے بعد سامنے آئی ہے اور اس وقت مغرب پاکستان میں جمہوریت میں زیادہ استحکام کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن یہ صورتحال ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہے گی۔ لہٰذا پاکستان میں کوئی بھی سیاسی نظام حتیٰ کہ اگر یہ روایتی مفہوم میں پارلیمانی جمہوریت کی جانب گامزن نہ ہو تب بھی کسی نہ کسی طرح کا جمہوری نظام ہی ہو گا اور اس پیغام کو عام ہونا ہے۔
٭ جس قسم کا بھی جمہوری نظام اس ملک میں تشکیل پائے گا‘ اسے بہرحال مذکورہ بالا حقائق و صداقتوں کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ لہٰذا بالکل ہی کسی نئے نظام کے لیے امکانات بہت زیادہ نہیں ہیں بلکہ موجودہ سیاسی نظام کو ہی اس ملک کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ بین الاقوامی ضرورت کے مطابق انتخابات کا انعقاد ہونا ہے اور جوابدہی کا نظام بھی بین الاقوامی ضرورت کے مطابق ہونا ہے۔ فوج کو حکومت میں شامل کرنا ہو گا اور سیاسی پارٹیوں پر بہت زیادہ انحصار نہیں کرنا ہو گا۔ مزید غور و فکر اور گفتگو کے لیے دروازہ کھلا ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply