
ہانگ کانگ سے اکواڈور تک، سوڈان سے عراق تک عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں۔ سڑکیں بھری ہوئی ہیں۔ چوک آباد ہیں۔ دکانوں پر حملے کرکے لوٹ مار بھی کی جارہی ہے اور انہیں جلایا بھی جارہا ہے۔ ٹائر جلاکر سڑکیں بند کی جارہی ہیں۔ مظاہرین کو بظاہر واضح قیادت میسر نہیں۔ پھر بھی چند ایک اچھی باتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ لبنان جیسے مذہبی و مسلکی اعتبار سے انتہائی منقسم ملک میں بھی مظاہرین حکمرانوں کے خلاف متحد ہیں۔ مظاہرین کو تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی ہے۔ سوڈان، الجزائر اور لبنان میں قیادت کو پسپا ہونا پڑا ہے۔
دنیا بھر میں عوامی احتجاج کی وجوہ مختلف ہیں۔ لبنان میں واٹس ایپ کے ذریعے کی جانے والی کالز پر عائد کیے جانے والے ٹیکس نے لوگوں کو بھڑکادیا۔ چلی میں زیر زمین راستوں کے کرایوں میں اضافے نے عوام کو مشتعل کیا اور وہ سڑکوں پر آگئے۔ بیشتر واقعات میں وجوہ معاشی ہیں۔ پسماندہ ممالک کے نوجوان بے روزگاری سے تنگ ہیں۔ معاملہ صرف بے روزگاری کا نہیں، کم اجرتوں اور تنخواہوں کا بھی ہے۔ معاشروں میں معاشی عدم مساوات بڑھتی ہی جارہی ہے۔ بنیادی سہولتوں اور آسائشوں سے محروم طبقات اب یہ سب کچھ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اُن کا انتہائی بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ معاشی حیثیت کا فرق کم کیا جائے۔ اضافی مصیبت یہ ہے کہ عالمی معیشت سُست روی کا شکار ہوگئی ہے۔
عوامی سطح کے احتجاج کی کوئی ایک مشترکہ وجہ تلاش کرنا مشکل ہے مگر ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ احتجاج کی لہر اس بات کی مظہر نہیں کہ دنیا بھر میں جمہوریت کی طرف مارچ رک گیا ہے۔
بات جمہوریت کی ہو تو تمام تجزیوں میں انتخابات کو بنیادی قدر کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ جمہوری اقدار اپنی اصل میں معاشرتی جذبات ہیں۔ جمہوری اقدار کی بنیاد یہ ہے کہ سب کو احترام ملے اور معاشی و معاشرتی حیثیت مساوی ہو۔ یورپ نے کئی صدیوں تک بادشاہوں کی غلامی میں جینے کے بعد بیسویں صدی کی آمد تک بادشاہت سے نجات پاکر حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کی اور اب پورے یورپ میں جمہوریت بھرپور انداز سے پھل پھول رہی ہے۔
الیگزز ڈی ٹاکوِلے نے کہا تھا کہ ہر معاشرے کا حتمی مقدر تو جمہوریت ہی ہے۔ بادشاہت اور اشرافیہ کے راج کے بعد جب اقتدار عوام کی طرف آتا ہے تو پھر کہیں اور نہیں جاتا۔ یعنی کسی نہ کسی شکل میں جمہوریت ہی پھلتی پھولتی رہتی ہے۔ یورپ میں اشرافیہ نے جمہوریت کی راہ روکنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ مقصود صرف یہ تھا کہ عوام کا راج قائم نہ ہو پائے، مگر اِسے روکا نہ جاسکا۔ معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کے ایڈیٹر والٹر بیگہوٹ نے لکھا تھا کہ جمہوریت کی خاطر جو کچھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے گھاٹے کا سَودا نہیں کیونکہ جب جمہوریت ظہور پذیر ہوتی ہے تب زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھلتی ہے اور انسان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھنگ سے جینے کا موقع ملتا ہے۔ الیگزز ڈی ٹاکوِلے نے لکھا تھا کہ عوام غربت، غلامی اور مطلق العنانیت بھی برداشت کرلیتے ہیں مگر یہ بات کسی بھی طور برداشت نہیں کرتے کہ انہیں مساوی نہ سمجھا جائے۔ عوام کے اِس رجحان کا آج مغرب میں اشرافیہ کے خلاف کیے جانے والے شدید احتجاج سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پسماندہ ممالک میں اٹھنے والی احتجاجی لہر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ہر حال میں مساوات چاہتے ہیں۔ وہ معاشی اعتبار سے تھوڑی بہت گراوٹ تو برداشت کرلیتے ہیں مگر یہ بات اُن سے کسی طور برداشت نہیں ہوتی کہ انہیں برابر کا درجہ نہ دیا جائے۔
نو آبادیاتی دور کے گزر جانے کے بعد دنیا بھر میں پسماندہ معاشرے اس امر کے شاہد ہیں کہ طبقاتی فرق رہا ہے۔ حکمران طبقہ الگ تھلگ رہا ہے۔ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اس پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوتا۔ یہی حال معاشی طبقات کا بھی ہے۔ مڈل کلاس اور مراعات سے محروم طبقے کے درمیان فرق بھی نمایاں رہا ہے۔ جن کے پاس دولت ہے وہ آج بھی قتل کرنے کے بعد قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ اگر پوری دیانت سے جائزہ لیا جائے تو مغرب میں بھی یہی ہوا ہے۔ نیو یارک، لندن اور پیرس میں غیر معمولی مراعات کے حامل افراد یا طبقے نے ریاست کے وسائل پر قبضہ کیا اور معیشت کے تمام اشاریوں کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچایا۔
نو آبادیاتی دور سے گزر کر جدید دور کو گلے لگانے والے پسماندہ معاشروں کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس کے قائدین عوام کی توقعات پر پورے اترنے کے حوالے سے کچھ کرنے کے بجائے صرف ذاتی خواہشات کے غلام ہوکر رہ گئے۔ لبنان کے مستعفی وزیر اعظم سعد حریری نے سیشلز میں ایک ماڈل پر ایک کروڑ ۶۰ لاکھ ڈالر لٹادیے۔ یہ صرف ایک کیس ہے۔ اور پتا نہیں کیا کیا ہوا ہوگا۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ٹھیک ہے مگر یہ تلخ حقیقت بھی تو سب کے سامنے ہے کہ بھارت میں ایک خاندان کم و بیش تین عشروں تک اقتدار کے ایوانوں پر متصرف رہا۔ اس خاندان میں چند ہی شخصیات تھیں اور ان کے گرد بھی چند افراد تھے۔ صرف اُنہیں کچھ مل پایا۔ ملک کے کروڑوں افراد مجموعی طور پر محرومی کی حالت ہی میں زندگی بسر کرتے رہے۔ اس سوال پر غور ہی کیا جاتا رہا کہ ہر اعتبار سے محرومی اور پستی جھیل کر بھی کروڑوں افراد نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی، گھروں سے نکل کر سڑکوں پر کیوں نہیں آئے؟
۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب ٹیلی کمیونی کیشن کی ٹیکنالوجیز نے غیر معمولی ترقی کی اور عوام کو بہت کچھ جاننے اور کہنے کا موقع ملا تب جابر حکمرانوں کے دل کی بھڑاس نکالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اس کا بہت واضح مظہر ہے۔ لاطینی امریکا، افریقا اور ایشیا میں عوامی سطح پر احتجاج کی لہر نے یہ نکتہ اظہر من الشمس کردیا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت میں ۲۰۱۱ء میں حکمراں طبقے کی کرپشن اور عیاشیوں کے خلاف مظاہروں سے یہ ثابت ہوگیا کہ جمہوری مزاج کے حوالے سے انقلابی نوعیت کی تبدیلی آیا چاہتی ہے۔ اس احتجاجی لہر نے نریندر مودی کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ دوسری طرف برازیل میں بس کے کرایوں میں اضافے کے خلاف احتجاج پھوٹ پڑا تو جیئر بولسونارو کے اقتدار کا امکان روشن ہوا۔
عوامی سطح پر ابھرنے والی احتجاجی لہر بہت سے امکانات کی نقیب ثابت ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے دیانت دار قیادت ناگزیر ہے۔ عوامی احتجاج کی لہر کے بے نتیجہ نہ رہنے کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ انیسویں صدی کے یورپ میں اشرافیہ اور استحصالی طبقے کے خلاف احتجاج کی لہر اٹھی تو بائیں بازو کی جماعتوں نے عوام کو منظم کیا، مگر یہ پوری تحریک ہائی جیک کرلی گئی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کرلیا۔
جمہوریت کے لیے سب سے بڑا چیلنج شخصی سطح پر طاقت یقینی بنانے کا ہے۔ لوگ معاشی اور معاشرتی سطح پر طاقتور ہونا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کو یہ سب کچھ یقینی بناکر دکھانا ہے۔ یہ سوچنا کسی بھی اعتبار سے دانش کی علامت نہیں کہ جمہوریت زوال پذیر ہے۔ اگر جمہوریت سے مراد مساوات کے لیے تحریک چلانا ہے اور زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا ہے تو دنیا بھر میں جمہوریت کے لیے بھرپور تحریک چل رہی ہے۔ اس حوالے سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Democracy is on the march worldwide, not in retreat”. (“bloomberg.com”. Nov.5, 2019)
Leave a Reply