
فروری ۲۰۱۷ء کے دوران رومانیہ میں عوام نے بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو رول بیک کرنے سے متعلق حکومتی کوششوں کے خلاف شدید مزاحمت کرکے عالمی برادری کی توجہ خوب حاصل کی۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں لبرل اِزم خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں رومانیہ کے عوام کا کرپشن کے خلاف یوں اٹھ کھڑا ہونا اور سڑکوں پر آجانا اُمید کی شمع روشن رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اِس وقت بہت سے معاشروں کو جس مسئلے سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں، وہ کرپشن ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ رومانیہ کے عوام نے کیا، وہ محض جمہوریت پسندی کا مظہر ہے یا پھر رومانیہ کے معاشرے میں دوسرے بہت سے سیاسی مسائل بھی سنگین شکل اختیار کر رہے ہیں؟ اور یہ کہ جو کچھ رومانیہ میں ہوا ہے، وہ بلقان کے خطے اور مجموعی طور پر پوری یورپی یونین کے لیے کیا سبق رکھتا ہے؟
رومانیہ کے معاشرے اور بالخصوص سیاسی نظام میں کرپشن ایک بنیادی مسئلے کے طور پر رہا ہے۔ رومانیہ اور بلغاریہ کو ۲۰۰۷ء میں یورپی یونین کا رکن بنایا گیا۔ تب سے اب تک یورپی یونین کرپشن کے حوالے سے دونوں معاشروں کی غیر معمولی نگرانی کر رہی ہے۔ یہ نگرانی اس کمیشن کی ذمہ داری ہے جو خطے میں غیر معمولی سیاسی و معاشی اصلاحات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ کوآپریشن اینڈ ویری فکیشن میکینزم کے تحت کی جانے والی یہ نگرانی قانون کی بالا دستی اور انصاف یقینی بنانے کے لیے ہے۔ کوآپریشن اینڈ ویری فکیشن میکینزم کے قیام کو دس سال گزر چکے ہیں۔ اور اس کمیشن نے حال ہی میں تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کرپشن کے خلاف رومانیہ کے معاشرے کی جدوجہد کو خوب سراہا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر قانون کا ڈھانچا درست نہ کیا گیا تو معاملات خطرناک شکل بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ انتباہ پیش گوئی کا درجہ رکھتا ہے۔ رومانیہ کا حکومتی ڈھانچا اب تک یورپی یونین کے مغربی حصے کے معیار کو چُھو نہیں سکا ہے۔ کرپشن بھی ہے اور نااہلی بھی۔ جدید دور کے تمام تقاضوں کو نبھانے میں رومانیہ کا حکمراں طبقہ اب تک پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ ۳۱ جنوری کو محض ایک ماہ قبل قائم ہونے والی حکومت نے پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کے ایک مجموعے کو ایمرجنسی کے نفاذ کے ذریعے ایک طرف ہٹانے کی کوشش کی۔
حکمراں طبقہ چاہتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد میں قوانین کو زیادہ عمل دخل کا موقع نہ دیا جائے۔ وہ ڈھیلے ڈھالے قوانین چاہتا ہے۔ حکمراں طبقہ چاہتا ہے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال پر زیادہ سوال نہ اٹھایا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو لازمی طور پر جرم کا درجہ نہ دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اُس نے کوشش کی ہے کہ ۴۴ ہزار یورو تک کی خورد برد کو قانون کے دائرے میں نہ لایا جائے۔ یہ سب کچھ رومانیہ کے عوام کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر انہوں نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کی تو بگاڑ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ ملک بھر میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کی طرف سے قوانین کو غیر موثر بنانے کی کوشش کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کسی بھی سطح کی کرپشن کو برداشت کرنے کا رویہ ترک کیا جائے اور جو کوئی بھی کرپشن میں مبتلا پایا جائے، اُسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ شدید سردی کے باوجود رومانیہ کے عوام نے پندرہ دن تک شدید احتجاج کیا۔ ایک موقع پر مظاہرے کے شرکاء کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی۔ یہ مظاہرے پچیس سال کے دوران ملک میں کیے جانے والے مظاہروں میں سے سب سے نمایاں تھے۔
اگر نئے قوانین نافذ ہوگئے تو بہت سے سرکاری افسران کے علاوہ حکمراں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ان عہدیداروں کو فائدہ پہنچے گا، جنہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ یعنی بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ رومانیہ میں لائے جانے والے نئے قوانین دراصل چند افراد کو بچانے کے لیے ہیں۔ ان میں پارٹی چیف لیویو دریگنی بھی شامل ہیں۔ وہ دھوکا دہی کے ایک کیس میں ملوث پائے جانے کے باعث ہی وزیراعظم کا منصب نہ پاسکے۔ حکومت نے اپنے عزائم کو پوشیدہ رکھنے اور عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ چند حالیہ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے کر حکومت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے بدنیتی پر مبنی نہیں مگر عوام یہ راگ سننے پر آمادہ نہ ہوئے۔
نئے قوانین کے خلاف مزاحمت ختم کرنے سے متعلق حکومت کی تمام کوششیں لاحاصل رہیں اور عوام جیت گئے۔ انہیں عالمی برادری کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل رہی۔ حکومت کو متنازع ایگزیکٹو آرڈر واپس لینا پڑا اور بعد میں پارلیمان میں اس آرڈر کو متعدد ترامیم کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے بعد بھی عوام کا احتجاج مکمل طور پر ختم نہ ہوا۔ چند ایک مظاہرین یہ مطالبہ کرتے رہے کہ حکومت یا تو استعفیٰ دے یا پھر اس بات کی ضمانت فراہم کرے کہ وہ آئندہ اس نوعیت کے قانون بنانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
رومانیہ کے عوام کا شکوک و شبہات میں مبتلا ہونا بالکل درست ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب بہتر حکمرانی اور کرپشن سے پاک سرکاری معاملات کو یقینی بنانے کی راہ میں کوئی دیوار برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مگر خیر سیاسی بحران کو بہت دیر تک ٹالنا ممکن نہ ہوگا۔ یورپی یونین اور بالخصوص بلقان کے خطے میں جو سیاسی معاملات ہیں، وہ رومانیہ پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ جمہوریت کے لیے مشکلات دوسرے بہت سے ممالک کی طرح رومانیہ کے لیے بھی کم نہیں۔ رومانیہ کے عوام کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کا ہے۔
رومانیہ میں جو کچھ ہوا، وہ جمہوریت کا مستقبل سنوارنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ چند ایک معاملات پر خاص توجہ دینا پڑے گی۔ آئیے، ان کا جائزہ لیں۔
نوجوانوں کا مسئلہ
روایتی سیاست کے میدان سے نوجوان نکلتے جارہے ہیں۔ رومانیہ کے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے بیشتر نے کرپشن کے بارے میں سفر، مطالعے یا بیرون ملک کام کرنے سے سیکھا تھا۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء کے عام انتخابات میں جن ووٹروں نے حصہ لیا، اُن میں صرف ۱۳؍فیصد ۳۴ سال سے کم عمر کے تھے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت سیاسی نظام کی خامیوں سے بد دل ہے۔ وہ حزبِ اختلاف کے رویے سے بھی پریشان اور نالاں ہے۔ مگر سوال صرف رومانیہ کا نہیں ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں بھی یہی ہوا ہے۔ سیاسی نظام کو چلانے اور درست رکھنے میں نوجوانوں کا کردار گھٹتا جارہا ہے۔ یہ تاثر بھی پنپتا جارہا ہے کہ پالیسی یا پارٹی فیصلوں میں کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ میڈیا ہر معاملے کو سنسنی خیز انداز سے پیش کرکے معاملات کو کچھ کا کچھ کردیتا ہے۔ یہ خیال بھی جڑ پکڑ رہا ہے کہ نظام کی بنیادی خامیوں کو اب محض انتخابات کی مدد سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک اور خاص طور پر بلقان کے خطے میں نوجوان نظام کی درستی کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ سیاست دانوں پر بھروسا کم ہوتا جارہا ہے۔ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو یقین ہے کہ سیاست دان ان کا بھلا نہیں کریں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے اب کیا کیا جائے۔ سیاست دانوں پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد ایک ایسے سیاسی بحران کو پروان چڑھا رہا ہے، جو اگر کھل کر برپا ہوا تو کسی کے کنٹرول میں نہ رہے گا۔
نمائندگی سے ہٹ کر بلند کی جانے والی آواز
رومانیہ کے نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے۔ وہ اپنے مسائل اور شکوے کھل کر بیان کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ معاملات اگر درست ہوں گے تو صرف ان کے احتجاج سے۔ جب تک نوجوان میدان میں نہیں آتے تب تک کچھ بھی نہیں ہوتا۔ رومانیہ کے نوجوان بنیادی طور پر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے غیر معمولی خواندگی کے حامل ہیں۔ ان میں بنیادی سہولتوں کے حوالے سے شعور پایا جاتا ہے۔ حالیہ مظاہرے دراصل ۲۰۱۳ء میں شروع کیے جانے والے مظاہروں کی سیریز کا حصہ سمجھے جانے چاہئیں۔ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح رومانیہ کے نوجوانوں کو بھی ووٹنگ میں حصہ لینے کی تحریک دینے والے معاملات کم ہی دکھائی دیتے ہیں مگر خیر وہ اپنی آواز حکومتی حلقوں تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اپنی بات کھل کر بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا موڈ خاصا جارحانہ ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا بھر میں علم و حکمت سے مزیّن معاشرے تشکیل پا رہے ہیں، تعلیم کا معیار بلند ہو رہا ہے اور معلومات تک رسائی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال نوجوانوں کو حقوق کے حوالے سے زیادہ توانائی کے ساتھ آواز اٹھانے کی تحریک دے رہی ہے۔ وہ عدالتوں میں درخواستیں دائر کر رہے ہیں، بائیکاٹ کے ذریعے احتجاج کر رہے ہیں، مظاہرے کر رہے ہیں، کسی ایک نکتے پر تحریک چلا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کو خرابیوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ جدوجہد کی تحریک مل رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے۔ وہ اپنی بات محض سنانا نہیں چاہتے بلکہ مسائل کا حل بھی چاہتے ہیں۔
دنیا بھر میں نوجوان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ بعض معاملات میں بالکل درست ہے۔ مثلاً حکومتوں کو جواب دہ ہونا پڑے گا مگر دوسری طرف جمہوری اداروں کی پوزیشن ڈانوا ڈول ہوتی جارہی ہے۔ اگر نوجوان سڑکوں پر آکر مظاہرے ہی کرتے رہے تو پھر معاملات درست کرنے کی راہ کیسے ہموار ہوگی؟ عوام کے منتخب نمائندوں کی پوزیشن تو کمزور ہوتی جائے گی۔ رومانیہ، پولینڈ، کروشیا، بوسنیا ہرزیگووینا، مونٹی نیگرو اور دیگر ممالک میں چند برسوں کے دوران سسٹم کی خرابیوں کے حوالے سے عوام کا اشتعال بڑھا ہے۔ نوجوان اس حوالے سے بہت جوش اور غصے میں ہیں۔ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اپنی بات منوانے کے لیے سیل فون، سوشل میڈیا اور بلاواسطہ جمہوریت کافی ہیں۔ وہ فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے بات پھیلاتے ہیں۔ سوشل میڈیا سائٹس پر اپنا پیغام اَپ لوڈ کرتے ہیں اور سڑکوں پر آکر بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ روایتی نمائندہ جمہوری اداروں کو چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے بات منوانے کی روش کسی بھی اعتبار سے مستحسن نہیں۔
نمائندہ جمہوریت بمقابلہ کلِک جمہوریت
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہزار خرابیوں کے باوجود اب بھی جمہوریت ہی بہترین طرزِ حکومت ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نئی نسل کا جمہوری اَقدار پر سے ایمان اٹھتا جارہا ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں فوری نتائج چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ نظام راتوں رات درست ہوجائے۔ یہ ممکن نہیں۔ برسوں کا بگاڑ چند ماہ میں کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ جمہوریت میں نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے مگر سب کچھ مرحلہ وار ہوتا ہے۔ بہت صبر کرنا پڑتا ہے۔ اگر راتوں رات بہت کچھ درست کرنے کی کوشش کی جائے تو خرابیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہیں۔ جمہوریت کو پسندیدہ بنانے والی صفت یہی اصلاح کی طاقت ہے۔ اگر منتخب نمائندوں پر بھروسا نہ کیا جائے، اجتماعی آواز پر بھروسا کیے بغیر احتجاج کیا جائے اور اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کی جائے، گہری جڑیں رکھنے والے جمہوری اداروں کو بروئے کار لائے بغیر معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جائے اور عوام جنہیں مینڈیٹ دیں، اُن کی ہر بات کو مسترد کرکے پرتشدد مظاہروں کے ذریعے اپنی بات بیان کی جائے تو جمہوریت کے لیے شدید بحران پیدا ہوتا ہے۔ حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر واپس لیا مگر مظاہرین سڑکوں ہی پر رہے کیونکہ اُنہیں حکومت کی کمٹمنٹ پر زیادہ بھروسا نہیں۔ صدر کلاز لوہانز نے اب ایک ریفرنڈم کی تجویز پیش کی ہے، جو اس بات کو یقینی بنانے سے متعلق ہو کہ حکمراں طبقہ قانون کی بالادستی کو تسلیم کرے اور انصاف کی راہ ہموار کرتا چلے۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھی ایسی ہی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ریفرنڈم کا فیشن سا چل پڑا ہے۔ میڈیا کے محاذ پر سب کچھ چمک دمک کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بلاواسطہ جمہوریت ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لوگ اپنے نمائندوں کو ایوانوں میں بھیجتے ہیں مگر وہ کچھ بھی ایسا نہیں کرتے جو ان کے بنیادی مسائل عمدگی سے حل کرسکتا ہو۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر رکھی جاسکتی ہے کہ جمہوری ادارے پورے نظام کو درست کرنے اور اپنی اصلاح پر مائل ہوں گے؟
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ رومانیہ کی حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، اور اس حوالے سے نوجوانوں کا سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا، اپنی بات منوانے کی کوشش کرنا بالکل درست تھا مگر یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ یہ سب کچھ نمائندہ جمہوریت کے لیے بحران سے کم نہیں۔ نمائندہ اداروں سے ہٹ کر کچھ کہنا ایک خاص حد تک تو درست ہے لیکن اگر سڑکوں ہی کو پارلیمنٹ کا درجہ دے کر بات کی جائے تو معاملات درست ہونے کے بجائے مزید بگڑیں گے۔ نمائندہ اداروں کی موجودگی میں سڑکوں پر بات منوانے کی کوشش مشکلات کو دوچند کرتی ہے۔ بلقان کے خطے میں جمہوریت کی ناکامی ایک مسئلہ ہے مگر اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جمہوریت ہی کو داؤ پر لگا دینا کسی طور درست نہیں۔ یورپی یونین نے جمہوریت کا بحران ختم کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، اور اس کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ پولینڈ اور دیگر ممالک میں جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے۔ اگر نمائندہ اداروں کو نظر انداز کرکے معاملات بلاواسطہ طور پر طے کرنے کی کوشش کی جائے گی تو خرابی بڑھے گی۔ جمہوریت کو بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے بنیادی سیاسی حقائق کو سامنے رکھنا اور ان کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینا لازم ہے۔ عوام اور بالخصوص نوجوان اگر روایتی جمہوری اداروں سے نالاں ہیں اور انہیں نظر انداز کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو حکمراں طبقے کو ان اداروں کی خامیوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ عوام ہر معاملے میں غلط نہیں ہوسکتے۔ اگر جمہوری اداروں کی خرابیوں کو دور نہ کیا گیا، تو سیاسی بحران جنم لیتے رہیں گے۔ ایسے میں معاملات درست تو کیا ہونے ہیں، مزید خرابی سے دوچار ہوں گے اور لوگ مظاہروں اور احتجاج کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Romanian protests: Democratic progress or a ride on a rocking horse?”. (“epc.eu”. Feb.27,2017)
Leave a Reply