
۵۔ سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے!
سیکولر لوگ اکثر یہ راگ الاپتے بلکہ اس راگ کے ذریعہ اہل مذہب پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو، سیکولر ازم کا مطلب ریاست اور مذہب میں جدائی ہے اور بس۔ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈا (دین) نہیں ہوتا اور یہ خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے، اس دعوے کا مقصد یہ ثابت کرنا بلکہ دھوکا دینا ہوتا ہے کہ:
۱) چونکہ سیکولر ریاست ایک پوزیٹو (Positive، حقیقت جیسی کہ وہ ہے) ریاست ہوتی ہے نہ کہ نارمیٹو (Normative، حقیقت جیسی کہ اسے ہونا چاہیے)۔
۲) اسی لیے سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی۔
۳) بلکہ تمام تصورات خیر کے فروغ کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔
۴) لہٰذا ریاست کو پوزیٹو (سیکولر یعنی غیر جانبدارانہ) بنیاد پر قائم ہونا چاہیے نہ کہ مذہبی بنیاد پر، کیونکہ مذہب خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتا ہے اور اپنے مخصوص تصورِ خیر سے متصادم تمام تصورات کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کرتا۔ سیکولر ریاست کی اس غیر جانبداریت کے دعوے کو سیکولر لوگ ایک عرصے سے دھرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے جواب میں عام طور پر اہل مذہب یہ کہتے ہیں کہ ’ریاست کو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں بلکہ جانبدار ہونا چاہیے‘ یا یہ کہ ’اسلامی ریاست سیکولر ریاست کی طرح غیر جانبدار نہیں بلکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتی ہے اور یہ اچھی بات ہے وغیرہ‘۔ مگر اس قسم کے تمام جوابات یہ فرض کر لیتے ہیں گویا سیکولر ریاست واقعی ’ہر خیر‘ کے معاملے میں ’غیرجانبدار‘ (Neutral) ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے عین برعکس ہے، ایک سیکولر ریاست نہ صرف یہ کہ ’اپنا مخصوص اخلاقی ایجنڈا‘ رکھتی ہے اور اس مخصوص تصور خیر کی طرف جانبدار ہوتی ہے بلکہ ’دیگر تمام تصوراتِ خیر کو جانچنے کے لیے ایک انتہائی ڈاگمیٹک اخلاقی پیمانہ‘ بھی رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر یہ ان دیگر تصورات کی بیخ کنی کرتی چلی جاتی ہے، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ ساری واردات وہ ’پوزیٹو ازم، معروضیت اور غیر جانبداریت‘ کے پردوں میں ہی کر جاتی ہے اور مذہبی حضرات ان پردوں کو چاک کر کے سیکولر لوگوں کا گھنائونا چہرہ سامنے لانے کے بجائے ان کی پچ پر ہی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ بظاہر معصوم دکھائی دینے والے اس دعوے میں کئی خطرناک وارداتیں چھپی ہوئی ہیں، یہاں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیکولر لوگوں کا یہ دعویٰ کہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈا (ٹھیک اور غلط کا تصور و پیمانہ) نہیں ہوتا، اپنی ذات میں متناقِض (self-contradictory) دعویٰ ہے۔ درحقیقت یہ دعویٰ اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اسے رد کرنے کے لیے کسی پیچیدہ دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ ان عقل مندوں سے کوئی پوچھے کہ کیا بذاتِ خود یہ تصور کہ ‘مذہب کو ریاست سے الگ ہونا‘ ’’چاہیے‘‘ (لفظ چاہیے پر فوکس رہے) ایک اخلاقی چوائس اور ترجیح کا معاملہ نہیں؟ پھر یہ کہنا کہ ’مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود رکھنا‘ ’’چاہیے‘‘ (لفظ چاہیے پر توجہ رہے) ٹھیک اور غلط کی ایک مخصوص چوائس نہیں؟ ظاہر ہے تمام لادینی نظریے اس اخلاقی ترجیح کے بھی قائل نہیں، مثلاً مارکسزم اپنی اصل شکل میں اس انفرادی مذہبی آزادی دینے کا بھی روا نہیں، تو یہ انفرادی مذہبی آزادی کا حق ایک اخلاقی ترجیح ہی ہوئی نا؟ پھر یہ تصور کہ ’اجتماعی نظم زندگی مذہب کے سوا کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہونا‘ ’’چاہیے‘‘ صحیح اور غلط کا ایک مخصوص تصور نہیں؟ زیادہ سے زیادہ کوئی یہی کہہ سکتا ہے ناکہ یہ تصور اسے بوجوہ بھلا معلوم ہوتا ہے، مگر کیا اس کا انکار کر سکتا ہے کہ یہ ایک اخلاقی ترجیح کا معاملہ ہی ہے؟ کیا ہیومن رائٹس سے نکلنے والے تصورِ خیر کو دیگر تمام تصوراتِ خیر پر ’’فوقیت دینا‘‘ ایک اخلاقی ترجیح نہیں؟ پھر کیا دنیا کے تمام تصوراتِ خیر کو ہیومن رائٹس کی کسوٹی پر ’’جانچنا‘‘ اور اس ہی کسوٹی پر پرکھ کر ان کے ’’ٹھیک یا غلط ہونے کا فیصلہ صادر کرنا‘‘ بذاتِ خود خیر و سکر کا ایک پیمانہ وضع کر لینا نہیں ہے؟ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے دعوے وہی شخص کر سکتا ہے جسے سیکولرازم کے ڈسکورس کے بارے میں کوئی خبر ہی نہ ہو۔
اب ذرا آگے بڑھ کر مزید باریکی سے ان کے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب سیکولر لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھ کر ایسے قانونی نظام پر ریاست کی تشکیل کی جانی چاہیے جو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہو کر تمام تصوراتِ خیر کو پنپنے کے مواقع فراہم کرے، تو ایسا قانونی نظام ان کے خیال میں ہیومن رائٹس فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ مگر ہیومن رائٹس کے مطابق اصل تصور خیر ’فرد کی آزادی‘ (یعنی ’حق کی خیر پر فوقیت ہونا‘) ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق دنیا کا ہر وہ تصور خیر جو ’فرد کی اس صلاحیت کہ وہ جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اسے حاصل کر سکے، پر قدغن لگاتا ہے وہ غیر اخلاقی، غیر عقلی و غیر فطری تصور ہے اور اسی لیے اس کی بذریعہ قوت سرکوبی کرنا لازم ہے۔ معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس پر ایمان لانا غیر جانبداری کا رویہ اختیار کرنا نہیں بلکہ بذاتِ خود خیر کے ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور (فرد کی آزادی کے حصول) پر ایمانا لانا ہے اور ہیومن رائٹس پر مبنی سیکولر (جمہوری دستوری) ریاست لازماً اسی تصورِ خیر کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوتی ہے (اور یہی اس کا ‘دین‘ ہوتا ہے)۔ لہٰذا اسے ’پوزیٹو ازم اور غیر جانبداریت‘ سے تعبیر کرنا دھوکا دہی کے سوا اور کچھ نہیں۔
چنانچہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب اور سیکولر طبقے کا یہ دعویٰ کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہے اور اسی لیے Tolerant ہوتی ہے (اس کی قلعی بھی ہم آگے کھولے دیتے ہیں) ایک جھوٹا دعویٰ ہے، کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں۔ درحقیقت اس دنیا میں غیر جانبداریت (Neutralism) بمعنی ’عدم رائے‘ (No position) کا کوئی وجود نہیں، بلکہ غیر جانبداری کے دعوے کا اصل مطلب ہوتا ہے، کسی اصول کے مطابق رائے دینا یا فیصلہ کرنا، (غیر جانبداریت، معروضیت، پوزیٹو ازم، عقلیت، فطرت وغیرہ جیسے الفاظ محض اپنے مخصوص مفروضہ مقاصد و نظریات کو چالاکی کے ساتھ فروغ دینے اور مدمقابل کے لیے قابل قبول بنانے کا ایک مناظرانہ طریقہ کار ہے اور بس)۔ جو لوگ ان معنی میں غیر جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں، گویا وہ تمام اصولوں سے ماورا کہیں خلا میں معلق ہو کر اپنی رائے دے رہے ہیں، فی الحقیقت وہ مہمل تصورات کا شکار ہیں، کیونکہ اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہو جائے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’’فلاں مسئلے میں آپ مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کریں، محض بے وقوفی کی بات ہے، کیا اسلام سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار؟ کیا کفر بذاتِ خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں؟ ائمہ علم الکلام نے معتزلہ کے ’المنزلۃ بین المنزلتین‘ (ایمان و کفر کے مابین ایک امکانی غیر جانبدار پوزیشن) کے عقیدے کی بیخ کنی اسی گمراہی سے امت کو بچانے کے لیے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا: ’’پس اے رسول! اگر وہ قبول نہ کریں آپ کے ارشاد کو تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیروکار ہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے‘‘۔ مزید فرمایا: ’’اس شخص کی اطاعت نہ کر، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے‘‘ نیز ’’جو کوئی رحمٰن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم اس کے اوپر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اس کا دوست بن جاتا ہے‘‘۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ۔ اپریل ۲۰۱۴ء)
MARVELLOUS FANTASTIK NN ZABERDAST COLUMN. FAROOQI SAHAB ZINDA BAD AAP NE HUM LOGON KO ZUBAN DE DI THANKS A LOT