۶۔ سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی!
درج بالا بحث کے بعد یہ غلط فہمی خود بخود صاف ہو جانی چاہیے کیونکہ اپنے دائرۂ عمل میں سیکولر ریاست صرف انہی تصوراتِ خیر اور حقوق کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر (ہیومن رائٹس یعنی انسانوں کی آزادی) سے متصادم نہ ہوں اور ایسے تمام تصورات خیر جو حقوقِ انسانی سے متصادم ہوں ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی (Suppress) کرتی ہے۔ ان حقائق کو چند آسان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ فرض کریں ہندو اپنی مذہبی روایات کی بنیاد پر ’ستی کرنے‘ یا معاشرے کو اپنے مخصوص ’ذات پات کے نظم‘ پر تشکیل دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت دے گی؟ ہر گز نہیں، کیوں؟ اسی لیے ناکہ ’ہیومن رائٹس قانون انہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمالِ ترجیحات بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں‘۔ تو کیا سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت نہ دے کر بلکہ بذریعہ جبر، قوت و قانون انہیں بند کرکے ہندو تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی؟ اتنا ہی نہیں ذات پات کے نظام کی تشکیل منہدم کرکے سیکولر ریاست ہندو انفرادیت کے فروغ کا راستہ بند کر دیتی ہے اور اس طرح ہندو انفرادیت کی بھی بیخ کنی کر دیتی ہے کیونکہ ہندوئوں کے خیال میں ذات پات کے معاشرتی نظم کے بغیر وہ انفرادیت جو ان کے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ ہے کبھی دریافت نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست حقوقِ انسانی کے نام پر ہندو رسوم ہی نہیں بلکہ ہندو عقائد کو معمل بنا کر ان کی بھی بیخ کنی کر ڈالتی ہے۔ اسی طرح فرض کریں ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہتی یا مسلمان لڑکا بدکاری کرنا یا کسی لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، ظاہر ہے اس معاملے میں اسلامی معاشرہ اور ریاست ہر گز اس کی اجازت نہیں دے گی۔ مگر چونکہ حقوقِ انسانی قانون ان افعال کو انسانوں کا حق قرار دیتا ہے، لہٰذا اس ریاست میں افراد کو ان کی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلمان اجتماعیت اس لڑکی اور لڑکے پر اپنا تصورِخیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی، تو لبرل ریاست ان کے خلاف کارروائی کرکے ان کی سرکوبی کر دے گی۔ اب دیکھیے مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے معاشرتی نظم کی بقا، جس اجتماعی ڈھانچے میں مضمر ہے، اسے تحفظ فراہم کیا جائے مگر سیکولر ریاست عین اس کے برعکس قانون بناتی ہے۔ کیا اس کے نتیجے میں اسلامی معاشرت اور نتیجتاً اسلامی انفرادیت انتشار اور تحلیل کا شکار نہیں ہو جائے گی؟
یہاں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہیومن رائٹس، ہیومن (خود کو قائم بالذات سمجھنے والی یعنی خدا کی باغی انفرادیت) کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ ’مسلم (ہندو یا عیسائی) انفرادیت کے حقوق‘۔ دیکھیے مسلم مرد کی مرد سے شادی ’ہیومن کا حق‘ تو ہے مگر ’مسلمان کا حق نہیں‘، سوال یہ ہے کہ جب ان دو قسم کی انفرادیتوں کے حقوق میں مخاصمت ہوگی تو کیا سیکولر ریاست کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتی ہے یا نہیں؟ نیز کس کو کس پر ترجیح دیتی ہے؟ درحقیقت اسی سوال کے جواب میں سیکولر ریاست کی ’جانبداریت‘ کی ساری واردات چھپی ہوئی ہے۔ تو جب یہ ریاست ’ہیومن رائٹس‘ (ایک مخصوص تصور انفرادیت و خیر) کو دیگر تصورات خیر پر فوقیت دیتی ہے، نیز اسی پیمانے پر انہیں جانچتی ہے تو کیا یہ بذاتِ خود ایک مخصوص تصورِخیر کی طرف جانبداریت کا رویہ نہیں؟ پس خوب یاد رہے کہ اپنے مخصوص خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی انتہائی راسخ العقیدہ (Dogmatic) اور Intolerant ہوتی ہے اور اپنے اس مخصوص تصورِخیر سے متصادم کسی نظریے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتی۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز (Rawls) کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں کا انکار کریں، ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی دبائو کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے کروڑوں ریڈ انڈین اور دیگر اقوام کا قتل عام روا رکھا (جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں ریڈ انڈین بھینسے اور بھیڑیے ہیں) اور آج بھی مجاہدین کو قتل کیا جارہا ہے۔
۷۔ سیکولر ریاست تمام تصوراتِ خیر کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے
اب تک کی بحث کے بعد اس نکتے پر زیادہ تفصیلی گفتگو کی ضرورت تو نہیں البتہ چند ایک مزید پہلوئوں سے بھی اس دعوے کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ افراد کی ذاتی زندگیوں میں وہی اقدار، کیفیات، صلاحیتیں و اعمال پھلتے پھولتے ہیں جن کے اظہار کے اجتماعی زندگی میں مواقع موجود ہوں، جنہیں اجتماعی زندگی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، نیز جن کے حصول و عدم حصول پر اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی کا انحصار ہو۔ ایسی اقدار جو اجتماعی زندگی میں لایعنی و مہمل تصور کی جاتی ہوں، یہ سمجھنا کہ لوگوں کی انفرادی زندگی میں پھلتی پھولتی رہیں گی، ایک غیر عقلی بات ہے۔ جس ذاتی زندگی کا اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، آہستہ آہستہ مہمل بن کر اپنی موت آپ ہی مر جایا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہمارا اجتماعی سیکولر نظام فرد کو علمِ دین کے حصول کے لیے کسی درجے میں بھی مجبور نہیں کر رہا تو دینی علوم کا حصول افراد کی نجی زندگیوں میں غیر متعلقہ ہوتا جارہا ہے، مگر سائنسی علوم ہر کسی کا مطمحِ نظر بن رہے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید اجتماعی زندگی اسی علم کے اِرد گرد تعمیر کی گئی ہے۔
اب ذاتی اور اجتماعی زندگی کے اس باہمی تعلق کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کریں کہ سیکولر ڈسکورس کا ایک اہم تقاضا آخرت کی اقداری حیثیت کا انکار کر دینا بلکہ اسے لایعنی و مہمل قرار دینا بھی ہے۔ چنانچہ سیکولر ڈسکورس کہتا ہے کہ معاشرتی و ریاستی صف بندی میں یہ سوال کہ ’افراد اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یا جہنم میں‘ ایک لایعنی و مہمل سوال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مسئلہ کہ آیا ’افراد کو معاشرے میں زیادہ نیکیاں اور کم گناہ کمانے کے مواقع میسر ہیں‘ ایک بے کار سوال ہے، کیونکہ جونہی ’نیکی اور بدی کے مواقع‘ کا سوال اٹھایا جائے گا، مذہب فوراً ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی میدان میں آجاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس ریاست کے نزدیک خود ’نیکی و بدی‘ ہی لایعنی تصورات ہیں۔ اب ظاہر ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے آخرت کی اقداری حیثیت بنیادی نوعیت کی ہے۔ یعنی یہاں معاشرتی و ریاستی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو جنت میں جانے کے مواقع زیادہ فراہم ہوں گے یا جہنم میں؟ مگر مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ ’مرنے کے بعد جنت و جہنم میں جانا‘ اجتماعی نظم کی تشکیل میں بے کار و بے معنی سوال ہے، جبکہ اسلام میں سب سے اہم اور پہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائے گا۔ اب دیکھیے مذہب اجتماعی نظم کے قیام کے لیے جس شے کی اقداری حیثیت و فوقیت کو کلیدی سمجھتا ہے، سیکولر ڈسکورس اسے لایعنی قرار دے کر نکال باہر کر دینا چاہتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ سیکولر اجتماعی نظم بھی قائم ہو جائے مگر لوگوں کی زندگیوں میں آخرت بطور قدر بھی پنپتی رہے؟ صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ایسا امکان سوچ سکتا ہے۔ جس خاندان کے کسی اجتماعی عمل اور فیصلے میں تقویٰ و پرہیز گاری سرے سے متعلقہ سمجھے ہی نہ جارہے ہوں آخر وہاں بچے کیوں کر تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہیں گے؟ اسے کہتے ہیں کہ People seek what the system rewards یعنی ’’افراد اس شے کی تگ و دو کرتے ہیں، جسے نظام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘‘۔ یہ محض نظریاتی باتیں نہیں، بلکہ دنیا میں جہاں بھی سیکولر جمہوری اقدار (آزادی، مساوات اور ترقی) کا فروغ ہوا، ان معاشروں کے افراد کی زندگیوں میں فکر آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال بے کار ہوتا چلا گیا اور لذت پرستانہ فکر معاش فکر معاد پر غالب آگیا۔درحقیقت افراد کی نجی زندگی میں وہی اقدار پنپتی ہیں جو اجتماعی زندگی میں قابل قدر سمجھی جارہی ہوتی ہیں۔ جن ذاتی اقدار کا اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، آخر فرد کیوں کر انہیں اختیار کرتا چلا جائے گا؟ لہٰذا یہ کہنا کہ سیکولر نظم ’ہر تصورِخیر‘ کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے، ایک سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں سیکولر ریاست جس نظامِ زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے، وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہے، جس کے نتیجے میں سوائے انسانوں کے تمام اجتماعیتیں لازماً تحلیل ہو جاتی ہیں اور دیگر تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرۂ کار کم سے کم تر ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے۔
۸۔ سیکولر ریاست پرامن مذہبی بقائے باہمی ممکن بناتی ہے!
اس ضمن میں سیکولر لوگ بڑے طمطراق سے یہ بھی کہتے ہیں کہ سیکولر ریاست مذہبی اختلافات (مثلاً شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی) کو ختم کر کے ان کے پرامن بقائے باہمی کو ممکن بناتی ہے اور ہمارے چند دینی لوگ بھی اس جھانسے کا شکار ہو کر اسے سیکولر ریاست کی کوئی ’خوبی‘ اور اہل مذہب پر اس کا کوئی ’احسان‘ تصور کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست مذہبی نزاعات کا یہ حل مذہب کی اجتماعی و ذاتی اقداری حیثیت کو ’قائم و دائم‘ رکھتے ہوئے ’اس کے اندر‘ ہی طے کر دیتی ہے یا مذہب کو ’لایعنی و مہمل‘ بنا کر حل کرتی ہے؟ اگر یہ حل وہ مذہب کی اقداری حیثیت کو لایعنی، غیر ضروری و مہمل بنا کر کرتی ہے، جیسا کہ امر واقعہ ہے، تو اس میں اہل مذہب کے لیے خوش کن بات کیا ہے؟ ظاہر ہے اس دنیا میں کوئی بھی انسان بے کار و لایعنی شے کے لیے نہیں لڑتا، چنانچہ سیکولر ریاست کے قیام و بقا کے نتیجے میں مذہبی ترجیحات کی اقداری حیثیت چائے و کافی کی ترجیح سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔ کیا اسلام کو ’دین‘ سمجھنے والوں کے لیے یہ قابل قدر بات ہے یا تشویش کا مقام؟ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست کا جو فعل و خصوصیت اہل مذہب کے لیے انتہائی قابل مذمت ہونا چاہیے، چند سادہ لوح لوگ اسے اس کی خوبی فرض کر لیتے ہیں۔
اسی طرح جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’سیکولر‘ ریاست حصول مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں کرتی، تو فی الحقیقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب اس نظم میں مہمل و لایعنی قرار دیا گیا ہے کیونکہ نظام اس ہی شے کے حصول کے لیے جبر کرتا ہے، جسے وہ قابلِ قدر سمجھتا اور بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر ریاست فرد پر سائنسی (بشمول فزیکل و سوشل سائنسی) علوم کے حصول کے لیے بھرپور جبر کرتی ہے کہ اس کے بغیر وہ اس نظام میں کامیاب نہیں ہوسکتا، جبکہ مذہب اس کے نزدیک محض کھیل تماشا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے سادہ لوح مذہبی لوگ سیکولر نظام کی فراہم کردہ چند غیر متعلقہ مذہبی آزادیوں سے یہ دھوکا کھا جاتے ہیں، گویا یہ نظام مذہب کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سیکولر ریاست ہر مذہب کے چند انفرادی شعائر کی ادائیگی کا حق اس لیے نہیں دیتی کہ یہ انہیں ’قابل قدر یا اہم‘ سمجھتی ہیں بلکہ اس لیے دیتی ہے کہ یہ انہیں ’مہمل، لایعنی اور غیر متعلقہ‘ سمجھتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے یہاں چند ایسے مفکرین (مثلاً وحید الدین خان صاحب) بھی پیدا ہو گئے ہیں جن کے خیال میں اسلام پھیلتا ہی سیکولر نظام میں ہے، گویا زہر ہی ان کے نزدیک تریاق ہے۔ ایسے لوگ یا تو مذہب کو محض چند رسوم عبادت تک محدود سمجھتے ہیں یا پھر یہ سیکولر لوگوں کے دعوائے غیر جانبداریت سے انتہائی حد تک متاثر ہیں اور اسی وجہ سے اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ چونکہ اسلام حق ہے، لہٰذا جونہی اسے یہ ’نیوٹرل‘ موقع ہاتھ آئے گا، یہ اپنا لوہا منوا لے گا۔ لیکن اس قسم کے استدلال کو ان حضرات کی سادہ لوحی پر تو محمول کیا جاسکتا ہے مگر علمی دنیا میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولر ریاست کے غیر جانبداریت کے اس جھوٹے دعوے سے متاثر ہو کر تمام مذہبی گروہ اور طبقے اس کے ہاتھوں میں خوشی خوشی اپنی جڑیں کٹوا لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یعنی بریلوی،دیوبندی، سلفی، شیعہ سب ایک ایسی انفرادیت (ہیومن) اور اجتماعیت (سول سوسائٹی) کے غلبے کو قبول کر لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جو ان سب کی نفی اور بیخ کنی کر دیتی ہے، مگر یہ سادہ لوح اسے اپنے ساتھ ’برابری، مساوات، عدل و انصاف‘ کا معاملہ اور ’اپنی بقا کا غماز‘ سمجھتے رہتے ہیں۔
اس مقام پر سیکولر لوگ تو کجا خود مذہبی لوگ ہی یہ استدلال پیش کرنے لگتے ہیں کہ کیونکہ یہ تمام مذہبی گروہ آپسی نزاعی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کا باہمی رویہ ٹھیک نہیں، لہٰذا خود ان گروہوں کے حق میں یہ بہتر ہے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے پاس رہنے کے بجائے کسی غیر جانبدار قوت کے پاس رہیں۔ سوچیے کس قدر عجیب ہے یہ استدلال، کیا آپسی ناگوار رویوں کو بنیاد بنا کر کسی ایسے تیسرے فریق کو گھر کا مالک بن بیٹھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے جو ہم سب کا استحقاقِ ملکیت غصب کر کے گھر پر ایسا قانون مسلط کردے، جو ہم سب ہی کے خلاف ہو اور ہم سب کی بیخ کنی کردے؟ مستحکم سیکولر ریاستی نظام میں تو مسلم، عیسائی، ہندو ہونا ہی لایعنی مہمل اور غیر متعلقہ شے بن جاتی ہے چہ جائیکہ ان ذیلی شناختوں کی بقا کا تصور کیا جاسکے۔
☼☼☼
Leave a Reply