
۱۔ کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا جب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہو جاتے اسلام کو اجتماعی نظم سے باہر رکھو۔
۲۔ ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں، مگر ہم لڑتے تو نہیں نا، مولوی تو لڑتے ہیں ایک دوسرے کو کافر و گمراہ کہتے ہیں۔
۳۔ عقل پر مبنی نظام مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتا۔
۴۔ عقلی نظام تبدیل ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ اختلافات رفع کرنے کا بہتر فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
۵۔ سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے۔
۶۔ چونکہ سیکولر ریاست کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا، لہٰذا یہ کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی۔
۷۔ سیکولر ریاست تمام مذاہب کا فروغ ممکن بناتی ہے۔
۸۔ سیکولر ریاست مذہبی اختلافات کا خاتمہ کرکے پرامن بقائے باہمی ممکن بناتی ہے۔
۹۔ سیکولر ریاست فرد کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی۔
۱۰۔ لبرل سیکولر ریاست غیر استعماری اور پُرامن ہوتی ہے۔
یہ اور اسی قبیل کے چند مزید نکات ہمارے دیسی سیکولر حضرات مذہبی طبقے کے خلاف بطور ’علمی دلیل‘ پیش کر کے رعب جماتے ہیں۔ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے دعوے یا تو سیکولرازم سے جہالت کا غماز ہوتے ہیں اور یا پھر جانتے بوجھتے کذب بیانی، پہلی صورت میں ان کی حیثیت علمی دلائل نہیں بلکہ ’مغالطہ انگیزیوں‘ کی ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں فریب کاری کی۔ البتہ ہمارے یہاں کے دیسی سیکولر لوگوں کی علمی کم مائیگی کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں مغالطہ انگیزیوں پر محمول کرنا قرین قیاس ہے، کیونکہ یہ تو ’مقلدین محض‘ ہیں، ان بے چاروں کو تو اتنی بھی خبر نہیں کہ سیکولرازم کی بڑائی ثابت کرنے والے جن دعوئوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، آج خود مغربی اہل علم کے ہاں ان کی کوئی مسلمہ علمی و عقلی توجیہ باقی نہیں رہی۔ اس سلسلۂ مضمون میں ہم چند ایسی ہی غلط العام مغالطہ انگیزیوں کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔ دھیان رہے ان میں سے اکثر و بیشتر عذر، ایسے ہیں جو ہمارے دیسی سیکولر لوگ مذہب کو اجتماعی زندگی سے برطرف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر ہم یہ دکھائیں گے کہ وہ تمام عذر جو یہ لوگ مذہب سے برأت کے لیے استعمال کرتے ہیں خود ان کے اپنے تراشیدہ عقلی نظریات میں بدرجہ اتم بلکہ زیادہ بھیانک صورت میں موجود ہیں، لہٰذا دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ لوگ فوراً سے قبل اپنے ان تراشیدہ نظریات سے بھی توبہ کرلیں۔ وما توفیقی الا باللہ
۱۔ کون سا اسلام جناب؟
ایک زمانہ تھا جب دنیا میں لبرل طبقے تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر سمجھے جاتے تھے، مگر نجانے ہمارے یہاں کے لبرل طبقے فکری طور پر اس قدر بانجھ کیوں ہوگئے ہیں کہ آج تک ہر اسلامی شق، اصلاح یا ترمیم کے خلاف پچاس سال پرانی ایک ہی دلیل پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں: ’کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا جب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہو جاتے اسلام کو ایک طرف کرو، اور اجتماعی نظام عقل کی روشنی میں طے کیا جائے گا نہ کہ مذہب کی، مگر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف کوئی ایسی شے نہیں جس کا ظہور آج پہلی دفعہ ہو گیا ہے۔ یہ تو قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک چلتا رہا ہے، تو اگر ان تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمان تیرہ سو سال تک حکومتیں چلاتے رہے ہیں تو آج یہ یکایک کیوں ناممکن نظر آنے لگا ہے؟ ان داعیانِ عقل و فکر کا مفروضہ یہ ہے کہ جس امر اور اصول میں اختلاف ہو، اجتماعی زندگی میں ناصرف یہ کہ وہ قابل عمل نہیں، بلکہ اس سے باہر رکھنا بھی ضروری ہے، جب تک کہ متعلقہ ماہرینِ علم کا اس پر اجماع نہ ہو جائے۔ درحقیقت یہ علمی دلیل نہیں بلکہ دین پر عمل نہ کرنے کا بہانہ ہے کیونکہ اگر یہ اصولِ زندگی کے ہر پہلو اور شعبے پر لاگو کر دیا جائے تو یقین مانیے زندگی کا وجود صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔ مثلاً اسی منطق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ:
٭ چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ زرعی و مالیاتی پالیسی کس طرح بنائی جانی چاہیے، لہٰذا اسٹیٹ بینک، پلاننگ کمیشن، ایف بی آر اور فنانس منسٹری وغیرہ کو اس وقت تک تالا لگا دیا جائے جب تک تمام ماہرینِ معاشیات کا اجماع نہ ہو جائے۔
٭ چونکہ ماہرین معاشیات کا غربت کی تعریف، اس کے اسباب و وجوہات اور اس کا سدباب کرنے کے طریقوں کے بارے میں اختلاف ہے، لہٰذا ساری دنیا میں غربت مٹانے والے پروگرام فی الفور بند کر دیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہو جائے۔
٭ چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ملکیت کا کون سا نظام (نجی یا پبلک) اجتماعی ترقی کا ضامن ہے لہٰذا دنیا میں ملکیتوں کے تمام نظام معطل کر دیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہو جائے۔
٭ چونکہ ماہرین طب (ایلوپیتھ، ہومیو پیتھ، حکمت) کا بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے درست طریقہ کار کے بارے میں اختلاف ہے، لہٰذا تمام ماہرین طب کو فی الفور علاج سے روک دیا جائے، جب تک کہ اس پر اجماع نہ ہو جائے۔
٭ چونکہ ماہرین سیاسیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ریاست کی تعمیر و تشکیل کے لیے کون سا نظام ریاست (آمریت، جمہوریت اور اگر جمہوریت، تو اس کی کون سی شکل) درست ہے، لہٰذا دنیا میں ریاست کاری کے عمل کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ اجماع نہ ہو جائے۔
٭ چونکہ ماہرینِ قانون کا آئین کی بہت سی بنیادی شقوں کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا آئین کو ایک طرف کر دیا جائے۔
یہ فہرست درحقیقت نہ ختم ہونے والی کڑی ہے۔ ذرا تصور تو کیجیے یہ تمام امور کس قدر اہم شعبہ جات زندگی سے متعلق ہیں۔ انسانی زندگی و صحت کی قدر و قیمت سے کون انکاری ہو سکتا ہے اور ان اطبا کی آئے دن کی فاش علمی غلطیوں سے لوگ اپنی زندگی و مال و دولت سے محروم ہو رہے ہیں، اسی طرح غربت کا خاتمہ، نظامِ ملکیت کی بنیاد، ریاستی زری و مالیاتی پالیسی کا انتظام و انصرام اور سب سے بڑھ کر خود نظمِ ریاست کی بنیاد میں سے کون سا امر غیر ضروری ہے؟ اب سوچیے کہ اگر ان شعبہ جات و علوم کے یہ ’بنیادی اختلافات‘ ہمیں دنیا بھر میں ان کی معاشرتی و ریاستی اور ادارتی صف بندی (Institutionalization) سے نہیں روک رہے، تو دینی طبقے کے اختلافات کیوں ہمیں اس عمل سے روکتے ہیں؟ اصل بات نیت کی ہے اور سچ ہے کہ جب ایک عمل کرنے کے لیے انسان کی نیت نہ ہو تو اسے بہانہ بھی دلیل نظر آتا ہے۔
۲۔ مولوی تو لڑتے ہیں، ہم نہیں لڑتے
اس مقام پر سیکولر لوگ تمام مذاہب (یا تمام مذہبی گروہوں) کو ’ایک گروہ‘ بنا کر پینترا بدل کر بڑی چالاکی سے اہل مذہب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں مگر ہم تم لوگوں کی طرح ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے اور نہ ہی لڑتے ہیں،۔ گویا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عقلی نظام ہائے زندگی کے اختلافات کے نتیجے میں اس طرح جنگ و جدل کی کیفیت برپا نہیں ہوتی، جس طرح مذہبی اختلافات سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر امر واقعی ایسا ہی ہے تو ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سب عقل پرست (درحقیقت مذہب مخالفین) ’فروغ آزادی کا ہی نعرہ لگاتے ہیں‘ (جس طرح اہل مذہب ’فروغ عبدیت‘ کا نعرہ لگاتے ہیں) تو یہ نہ صرف آپس میں بلکہ دوسروں سے بھی جنگ و جدل کی کیفیت میں کیوں مبتلا رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ تھمنے کا نام کیوں نہیں لے رہا؟ مثلاً لبرلز نے فرقہ مارکسزم کے بانی مارکس کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ انہی لبرلز نے نطشے کو یہودی اور پاگل کیوں کہا تھا (جب اس نے ان کی یہ پول کھولی تھی کہ تم عقل کے نام پر نئی قسم کی امپیرئیل ازم کو فروغ دے رہے ہو؟) لینن اور مائو نے روس اور چین میں لبرلز اور قوم پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ جرمنی کے نسل پرستوں نے ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ پھر ان دونوں نے نسل پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ آج تک ان آپسی جنگوں میں جو کروڑوں انسان قتل کر دیے گئے، ان نظریات کے فروغ کے لیے جن قوموں کی نسل کشی کر دی گئی (مثلاً ریڈ انڈین اور ابورجینز) وہ کس کھاتے میں گئے؟ آج بھی یہ تمام فرقے ایک دوسرے کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں؟ کیا یہ سب ایک دوسرے کو ’اپنا بھائی‘ سمجھ کر ایک دوسرے کی خیرخواہی کے لیے کوشاں ہیں؟ تو پھر یہ کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہم نہ تو آپس میں کسی کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی لڑتے ہیں، نیز مذہب کی تاریخ خونی تاریخ ہے؟
پھر کوئی ان سے پوچھے کہ اچھا یہ تو بتائو کہ ’آزادی‘ کا جو نعرہ تم بلند کر رہے ہو کیا اس کے فروغ کا کوئی ’ایک اجماعی طریقہ‘ ہے تمہارے پاس؟ چنانچہ معاملہ یہ ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ ’آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے‘ تو اس امر میں ہر کسی کا ’اپنا اپنا فرقہ‘ ہے۔ مثلاً انارکزم، لبرٹیرنزم، لبرل اِزم، ڈیموکریٹک سوشل ازم، کمیونزم، نیشنل ازم، نسل پرستی، فیمینزم، پوسٹ ماڈرنزم وغیرہم، ہر ایک کی فروغ آزادی کی اپنی ایک تشریح ہے اور ان میں یہ طے کرنے کا کوئی اصول موجود نہیں کہ ’آزادی کی درست تشریح‘ کون سی ہے۔ تو جب ان لوگوں میں اس امر میں کوئی اجماع ہی نہیں (اور نہ ہی ہوسکتا ہے) کہ ’آزادی کس طرح حاصل ہوتی ہے‘ اور جب حصول آزادی کا درست طریقہ ہی ان کے درمیان نزاعی امر ہے تو پھر کس بنیاد پر یہ لوگ ریاست کو کسی ’ایک طریقے‘ کا پابند بنانے کی بات کرتے ہیں؟ اگر مذہبی اختلافات ریاست کو کسی ایک طریقے کا پابند بنانے میں مانع ہیں تو یہ اختلافات کیوں نہیں؟ (یہاں علم معاشیات و سیاسیات کی درج بالا مثالیں پھر عود آتی ہیں کہ ان سب کا مقصد بھی فروغ آزادی ہی ہے)۔
اس مقام پر سیکولر لوگ بڑی ہوشیاری سے اہل مذہب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’ہم ہر ملک کی عوام کو حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے لیے جو بھی طرز حکومت اختیار کرنا چاہیں کرلیں، لیکن اگر یہ بات واقعی درست ہے تو پھر یہ سب آج تک ایک دوسرے کی ریاستوں میں نقب زنی کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟ کبھی کمیونزم کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ تو کبھی انسانی حقوق و جمہوریت کے دفاع کے نام پر تم لوگ دنیا بھر میں استعمارانہ دھماچوکڑی کیوں مچا رکھتے ہو؟ آخر پوری دنیا کی معیشت و ذرائع پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے عالمی نگران ایجنسیوں کا دائرہ کیوں بڑھاتے جارہے ہو؟ عالمگیریت کے نام پر قومی ریاستوں کو کمزور کرنے کا سلسلہ کیوں چلا رکھا ہے تم نے؟
۳۔ عقل پر مبنی اجتماعی نظم متشدد نہیں ہوتا
جب ان باتوں کا جواب نہیں بنتا تو عقل پرست و سیکولر لوگ ایک نئے قسم کا دائو پیچ کھیلتے ہیں اور وہ یہ کہ ’مذہبی عقیدہ چونکہ معین، غیر متبدل و آفاقی ہونے کا مدعی ہوتا ہے، لہٰذا یہ اپنے ماننے والوں میں ڈاگمیٹک (متشدد) رویے کو فروغ دیتا ہے جو بالآخر نزاع و جنگ و جدل کی کیفیت اختیار کر جاتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اجتماعی نظم مذہبی عقیدے کے بجائے عقل پر استوار کریں کیونکہ عقلی نظریات مذہب کی طرح متشدد نہیں ہوتے، اگر واقعی اسی بنیاد پر یہ لوگ مذہب کو رد کرتے ہیں تو لازم ہے کہ فوراً سے قبل عقلی تراشیدہ نظریات (بشمول غالب لبرل سیکولرازم) کو بھی رَد کر دیں کیونکہ عقلی نظریات بھی انتہائی متشدد اور کنزرویٹو ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کی نیلم پری کے پرستار اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ’پوری انسانیت‘ کو ’اس مقدس خیر و سچ‘ سے بہر اور کرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کا چیمپین روس ہو یا انسانی حقوق کا داعی امریکا، ہر ایک ’انسانیت کی بھلائی‘ کے نام پر (In the name of people) اپنے نظریات کے فروغ کے لیے لازماً ’علم جہاد‘ بلند کرتا ہے۔ ان عقلی تراشیدہ نظریات کی تین سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ عقل کے نام پر جتنے انسانوں کا قتل عام کیا گیا، جس منظم طریقے سے پوری پوری اقوام کی نسل کشی کر دی گئی، جس استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لے کر پورے پورے براعظم ہڑپ کرلیے گئے، جس طرح خود اپنی تراشیدہ اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ مل کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آخر یہ تشدد پسندی نہیں تو اور کیا ہے؟
پھر یہ ڈاکمیٹزم کوئی اتفاقی امر یا کسی انسانی اخلاقی کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ اس کی خالص علمی بنیادیں موجود ہیں۔ درحقیقت عقل کا نعرہ لگانے والا خود کو ’عقل کے جبر‘ کا شکار پاتا ہے۔ ’عقل کے ہر مخصوص تصور‘ پر یقین رکھنے کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس مخصوص تصور پر ’یقین نہیں رکھتے‘ خود بخود ’غیر عقلی‘ (Irrational) ٹھہرتے ہیں۔ یعنی وہ ’دائرۂ عقل سے باہر‘ اور عقل کے دشمن قرار پاتے ہیں اور چونکہ اس فریم ورک میں ’انسانیت‘ (Civilization) ’فروغ عقلیت کے مخصوص تصور‘ کا ہم معنی ہوتا ہے، لہٰذا ’عقل کے دشمن‘ ’انسانیت کے دشمن‘ قرار پاتے ہیں (چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عقل کے نام لیوا انتہائی متشدد اور کنزرویٹو ہوتے ہیں، اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں)۔ مثلاً جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبرل سیکولروں کے نزدیک وہ غیر عقلی، جاہل اور وحشی لوگ ہیں، اسی طرح جو لوگ مادّی طبقاتی کشمکش کے قائل نہیں اشتراکی سیکولروں کے نزدیک وہ عقل کے دشمن ہیں وغیرہ۔ ہر ’عقلی نظریہ‘ ایک مخصوص انفرادی و اجتماعی رویے کو فروغ دیتا ہے اور دنیا کا کوئی نظریہ ’عقلی‘ (Civilized) اور غیر عقلی (Barbaric) رویے کو کبھی مساوی اقداری حیثیت نہیں دیتا۔ ’عقل‘ تقاضا کرتی ہے کہ ’غیر عقلی‘ کو مغلوب کرکے چھوڑا جائے کیونکہ وہ تو ہے ہی غیر عقلی، اس کے غالب وجود کا کیا مطلب، ایسا غالب وجود تو ’عقل اور انسانیت‘ کے لیے خطرہ ہے، لہٰذا ’تحفظِ عقل‘ کے لیے ’غیر عقلی‘ کی مغلوبت ناگزیر ہے۔ جب تک ’غیر‘ (the others) کا غالب وجود باقی ہے ’عقل‘ کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس کی چیمپین یورپی اقوام نے ریڈ انڈینز کا قتل عام اسی بنیاد پر روا رکھا کہ (جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں) یہ انسان نہیں بھینسے اور بھیڑیے ہیں۔ اسی طرح آج امریکا مجاہدین اور ان کے ساتھیوں کو غیر انسان سمجھ کر مارتا ہے۔
یہ دلیل دیتے وقت عقل پرست پسِ پردہ یہ جھانسا دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا دنیا میں عقل کا کوئی ایک ہی تصور ہے جس پر ساری دنیا ایمان رکھتی ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر کوئی اختلاف نہیں ہوگا، ظاہر بات ہے یہ تو صرف ایک سفید جھوٹ ہے، کیونکہ اس دنیا میں عقل کے اتنے ہی تصورات ممکن ہیں جتنی انسانی عقلیں موجود ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئی آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصورِ عقلیت کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے، لہٰذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازماً کشاکش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئی حل ممکن نہیں۔ گویا یہاں ’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘ (جہاد تو روزِ قیامت تک جاری رہے گا) والی کیفیت برپا رہتی ہے۔
۴۔ عقل پر مبنی نظام رفع اختلاف کا بہتر انتظام ہے
اس ضمن میں عقل پرست اور سیکولر لوگ ایک دوسری قسم کی توجیہ بھی پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ ’چونکہ عقلی تراشیدہ نظامِ تجربات کی روشنی میں متبدل ہوتے ہیں، لہٰذا یہ رفع نزاع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ مگر یہ محض لفاظی ہے کیونکہ اگر امر واقعی ایسا ہی ہے تو تین سو سال میں ان کے آپسی اختلافات کیوں رفع نہ ہو گئے؟ کیا یہ سیکولر لوگ دو سو سال قبل ’دریافت ہونے والے‘ ہیومن رائٹس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں؟ دستبردار ہونا تو درکنار ان ہیومن رائٹس کے حوالے سے ان کی ڈاگمیٹزم کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ اگرچہ آج ان کے اکابرین فلاسفہ خود مانتے ہیں کہ ہیومن رائٹس اور جمہوریت وغیرہ کسی شے کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کرنا ممکن نہیں، البتہ یہ ہمیں جمالیاتی طور پر اچھے لگتے ہیں، لہٰذا یہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ مثلاً مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی چارلس ٹیلر (Charles Taylor) کہتا ہے کہ آزادی، مساوات و ترقی کا فروغ ہماری لبرل معاشرت کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ لہٰذا ان کا فروغ ہماری شناخت کے ہم معنی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان اقدار سے میرا لگائو ایسا ہی ہے جیسے کلاسیکی موسیقی، آرٹ، ادب اور رقص سے لگائو ہے۔ یہ لگائو ہی ٹیلر کو ٹیلر بناتے ہیں اور ان اقدار سے غداری اپنی تاریخ اور تہذیب سے غداری ہے۔ رارٹی (Rorty) کہتا ہے کہ اگرچہ میں آزادی کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ نہیں دے سکتا، البتہ یہ مجھے جمالیاتی سطح پر اچھی لگتی ہے۔ تو جناب ’اصول‘ (مابعد الطبیعاتی ایمان) تو آپ کے یہاں بھی نہیں بدلتے تو پھر فوقیت کی وجۂ جواز کیا رہی؟
پھر معاملہ اتنا ہی نہیں جتنا اوپر بیان کیا گیا، بلکہ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اہل اسلام کے پاس کوئی ’ایسی بنیاد‘ (قرآن و سنت) تو موجود ہے جس کے آگے وہ سب سرنگوں ہونے کے لیے تیار ہیں، جس کی بات ثابت و متحقق ہو جانے کے بعد اس کے آگے کوئی لب کشائی کی اور ’اپنی رائے دینے‘ کی جرأت بھی نہیں کرتا (یہی وجہ ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ قطعی الدلات ہونے کی بنا پر متفق علیہ ہے جبکہ دوسرا حصہ مجتہد فیہ امور پر مبنی ہونے کی وجہ سے اختلافات کا دائرہ رہا ہے)۔ اس کے مقابلے میں ان عقل پرستوں کے پاس تو ’سرے سے رفع نزاع کی کوئی بنیاد ہے ہی نہیں‘ ہم پھر کہے دیتے ہیں ’سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں‘۔ یہاں عقلی لم ٹٹول ہے اور بس، اور چونکہ عقلی تصورات بے شمار ہیں نیز ان میں تمیز و ترجیح کا پیمانہ ناممکن ہے، لہٰذا یہاں ’تمام تر‘ اختلافات ابدی ہیں کہ یہاں کچھ بھی قطعی طور پر طے کرنا ممکن نہیں۔ ’وقت اور مطلب‘ پڑنے پر یہ لوگ خود اپنی ہی گھڑی ہوئی ہر بات اور اصول کو اپنے ہی پیروں تلے روند کر آگے بڑھ جانے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے کہ آج ’ان کی عقل میں ارتقا ہو گیا‘۔ اور چونکہ یہ اپنے نفس کے سوا کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتے (اور نفس بھی وہ جو شہوت و غضب سے مغلوب ہے) لہٰذا یہ خود کو ہر اخلاقی خلاف ورزی کے لیے معاف کر دینے میں حق بجانب سمجھتے ہیں (رارٹی کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم نے ریڈ انڈینز کا قتل عام کیا، لیکن چونکہ ہم خودمختار ہیں اور کسی کو جوابدہ نہیں، لہٰذا یہ ہمارا حق ہے کہ خود کو معاف کر دیں)۔
درحقیقت ہر نظامِ زندگی میں اپنے داخلی اختلافات کو سمونے اور حل کرنے کی ایک حد تک لچک اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اسلامی تاریخ اس کا بیّن منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں بے شمار کلامی، فقہی، و صوفی گروہ و سلسلے اپنے اپنے طرز پر کام کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، خلافتِ اسلامیہ میں ذمی بھی اسلام کے عطا کردہ حقوق کے تحت موج سے زندگی گزارتے رہے ہیں (یہی وجہ ہے کہ اندلس میں خلافتِ اسلامی کے سقوط کے بعد ذمیوں نے پوری دنیا چھوڑ کر خلافتِ عثمانیہ کے زیر سایہ رہنے کو ترجیح دی)۔ یقینا اسلام کی قائم کردہ ایمپائر میں بھرپور رحمت اور وسیع الظرفی موجود ہے، لیکن اسلام اس وسیع الظرفی کو کسی خارجی پیمانے (مثلاً ہیومن رائٹس) پر نہیں قرآن و سنت پر تول کر پرکھتا ہے۔ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ ’پھر یہ اسلامی گروہ آپس میں لڑتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں؟‘ تو اس کا جواب ’فی الحال ایک پختہ (Mature) اسلامی خلافت (ایسی ریاست جو رسول اللہؐ کی سیاسی نیابت سرانجام دے) کا وجود نہ ہونا ہے، جب ریاستی نظم نہ ہو تو انفرادیت و معاشرت دونوں انتشار کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ خلیفہ کو انہی معنی میں ظل اللہ کہا جاتا ہے کہ وہ تمام دینی کام کو سمو دیتا ہے، نیز انتشار پھیلانے والی قوتوں کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اگر آج لبرل سیکولر سرمایہ دارانہ ریاست لبرل معاشرتی و معاشی تنظیم (سول سوسائٹی و مارکیٹ) کی پشت پناہی اور ریگولریشن سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ زمین بوس ہو جائے، مثلاً اگر یہ ڈاکٹری، وکالت، تعلیم، بینکوں، کمپنیوں وغیرہ پر نظر نہ رکھے تو آپ دیکھ لیں گے کہ کس طرح ڈاکٹر، وکیل، اسکول کالج و یونیورسٹیاں نیز مالیاتی ادارے عوام کا مال لوٹتے ہیں، نیز کس طرح یہ کرپشن کا شکار اور باہمی طور پر دست و گریبان ہوتے ہیں (ان کے نظارے تو آئے دن ہم اس قدر سخت ریگولیشن کے باوجود بھی دیکھتے رہتے ہیں) پس جب پختہ اسلامی خلافت قائم ہو جائے گی تو یہ چھوٹے چھوٹے گروہ خود بخود ڈسپلن اور سیدھے ہو جائیں گے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
]مضمون نگار ’’نسٹ اسکول آف سوشل سائنسز‘‘ کے شعبۂ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں[
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ۔ اپریل ۲۰۱۴ء)
گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست