
آپ توقعات کم رکھیں تو مایوس نہیں ہوں گے‘‘ بھارت کے ناجائز مطالبات کے جواب میں امریکی پالیسی سازوں کا یہ جواب ایک معمول ہے، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے نئی دہلی کے حالیہ دورے پر بھی بھارتی قیادت کو یہی مشورہ دیا گیا ہوگا، وزیراعظم نریندر مودی کے گرم جوش استقبال، گاندھی سمرتی کی خوشگوار مثالیں اور روشن مستقبل کے وعدوں کے باوجود امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے، بھارت کی ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ توقعات کو حقیقت پسند بنانے کی کئی وجوہا ت ہیں،قطع نظر اس بات کے کہ امریکی صدر یا وزیر خارجہ کیا کر سکتے ہیں، امریکا کی پاکستان کے لیے کوئی نئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہوگی، ۲۱؍اگست کو ٹرمپ نے پاکستان سے نمٹنے کے لیے نئی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ’’ہم زیادہ عرصے خاموش نہیں رہ سکتے،اس بیان پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے کان کھڑے ہوگئے، لیکن امریکا کی نئی جنوب ایشیائی پالیسی کے اعلان کے دو ماہ گزرنے کے باوجود عوامی سطح پر پاکستان کے خلاف کو ئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا، اگر زیر سمندر تبدیلی کا کوئی عمل جاری ہے تو وہ لہروں کے نیچے پوشیدہ ہے، اس پر حیرت نہیں کی جانی چاہیے، جب تک پاکستان کے پڑوس افغانستان میں امریکی فوجی موجود رہیں گے، پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ اور زمینی راستوں پر امریکا کا انحصار رہے گا، پاکستان کا طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر اثرورسوخ سب سے اہم ہے،مزید ۵۰۰۰ فوجی بھیجنے کے بعد افغانستان میں امریکا کا کردار کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گا، اکتوبر کے وسط میں ایک زبردست مظاہرہ دیکھنے میں آیا، جب ۱۲؍اکتوبر کو ایک امریکی خاتون اور ان کے کینیڈین شوہر کو ۳ بچوں سمیت پانچ سال بعد حقانیوں کی قید سے آزاد کرالیا گیا، خواہ یہ ایک مناسب وقت پر کی گئی فوجی کارروائی ہو یا خفیہ بات چیت کے بعد کیاگیا آپریشن، اس کارروائی سے امریکا کو پاکستان کے مددگار ہونے اور نقصان پہنچانے کی صلاحیت کی یقین دہانی کرادی گئی ہے،اس کے بعد ٹیلرسن نے پاکستانی حکومت اور فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کارروائی کو پاک امریکا مضبوط تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف عزم کے لیے اہم قرار دیا، امریکا اور بھارت چین کے حوالے سے پالیسی پر بھی متفق نہیں ہیں، اکتوبر کے آغاز میں ٹیلرسن نے چین اور بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات کے تناظر میں اہم تقریر کی، ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے چین کے ساتھ بھارت جیسے تعلقات نہیں ہوسکتے، چین ایک غیر جمہوری معاشرہ اور بھارت ایک جمہوریت ہے‘‘انہوں نے چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبے پر بھی شدید تنقید کی،انہوں نے اس منصوبے کے متبادل کے لیے فنڈز کے حوالے سے امریکا اور بھارت کی مشترکہ کوششوں کی پیشکش بھی کی، لیکن ٹیلرسن نے نہیں بتایا کہ اس طرح کے کسی منصوبے کے لیے فنڈز کہاں سے آسکتے ہیں، چین نے بیلٹ اور روڈ منصوبے کے ایک ٹکڑے کے لیے پاکستان کو ۴۶؍ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے، امریکی انتظامیہ نے خارجی امور کے حوالے سے ۲۸ فیصد بجٹ کٹوتی کا منصوبہ بنایا ہے اور ٹیلرسن اس منصوبے کی مکمل حمایت کررہے ہیں،بھارت کی جانب سے بھی دوسرے ملکوں میں سڑکوں اور ریلوے انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر اربوں خرچ کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ بھارت کو خود بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ بھارت چین کے کردار کو محدود کرنے کے لیے اتحادبنانے کے مشورے پر عمل کرنے سے مسلسل گریزاں رہا ہے،اس موسم گرما میں ڈوکلام میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد بھارت پالیسی بدل سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تودہلی کو یاد رکھناچاہیے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے برعکس جاسکتی ہے، مثال کے طور پر چین کے ساتھ گزشتہ ۲۵ برسوں کے بدترین تنازعے کے باوجود جاپانی وزیراعظم نے بھارت کے حق میں ایک بیان تک نہ دیا، امریکا اور بھارت، افغانستان اور ایران کے معاملے پر مختلف موقف رکھتے ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کی نظر میں افغانستان ایک امریکی پراجیکٹ ہے، وہ افغان معاملے میں بھارت کے ساتھ سودے بازی کرنا چاہتے ہیں، ۲۱؍اگست کی تقریر میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’بھارت امریکا سے تجارت کرکے اربوں ڈالر کماتا ہے، ہم افغانستان میں بھارت کی مزید مدد چاہتے ہیں‘‘ مگر بھارت کا اپنا ایجنڈا ہے، بھارت نے افغانستان کو ۳؍ارب ڈالر امداد اور سرمایہ کاری کی شکل میں فراہم کیے ہیں، اس میں زیادہ رقم افغانستان کو ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے منسلک کرنے پر خرچ ہوگی، چاہ بہار کی تعمیر کا بھارتی منصوبہ چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبے کے توڑ کے لیے سب سے اہم منصوبہ ہے، یہ منصوبہ پاکستان سے گزرے بغیر خشکی میں گھرے افغانستان تک روڈ، ریل اور سمندری راستے سے رسائی کو محفوظ بناتاہے،یہ بھارت، ایران اور افغانستان کے لیے ایک بہتر راستہ ثابت ہوگا، لیکن مشکل یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کی عالمی تجارتی سرگرمیوں کوروکنے کی پوری کوشش کررہی ہے، ۱۳؍اکتوبر کو صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ۲۰۱۵ء میں ہونے والے اہم جوہری معاہدے کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا، یہ معاہدہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہوا تھا، ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکی تاریخ کا بدترین یکطرفہ سمجھوتے قرار دیا اور ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان بھی کیا، اس اقدام سے ٹرمپ کے تہران پر معاشی دباؤ ڈالنے کی پالیسی کا اظہار بھی ہوگیا، جس کے بعد افغانستان اور ایران کے درمیان سڑکوں اور ریل منصوبوں پر بھارت کی جانب سے کی جانی والی ہرسرمایہ کاری کو امریکی مفاد کے خلاف تصور کیے جانے کاامکان ہے اور اس حوالے سے بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے، وزیر خارجہ ٹیلرسن کا دورہ غیر حقیقت پسندانہ خواہشات کے انتہا پر جانے کا آخری موقع ثابت نہیں ہوگا، موجودہ امریکی انتظامیہ کے دور میں ایسے مواقع ابھی اور بھی آئیں گے، صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت پر بھی یہی صورتحال پیش آسکتی ہے، اگر واشنگٹن میں گردش کرنے والی افواہیں درست ہیں تو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی ٹیلرسن کی جگہ لے سکتی ہیں، نکی پہلی بھارتی نژاد امریکی وزیر خارجہ ہوں گی، نکی ہیلی کے وزیر خارجہ بننے کی صورت میں بہت سے مبصرین امریکا بھارت تعلقات میں انقلابی تبدیلیوں کی پیش گوئی کریں گے، لیکن ان کی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوسکتی ہے، خاموشی کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا اچھی خبر ہوگی، دونوں ممالک گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان ایک دوسرے سے کافی قریب آگئے ہیں،اس دوران تین بھارتی وزیراعظم اور تین امریکی صدور نے اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کی، مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت میں بھی یہ تعلقات آگے بڑھتے رہے،ان تعلقات میں کئی نشیب وفراز بھی آئے اور بین الاقوامی تعلقات میں ایسا ہی ہوتا ہے، بھارت اور امریکا تعلقات میں گرم جوشی ہمیشہ برقرار رہی، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وائٹ ہاؤس میں کون بیٹھا ہے اور دہلی میں کس کی حکومت ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Despite Tillerson, U.S. won’t abandon Pakistan for India”. (“rand.org”. October 27, 2017)
Leave a Reply