
ایسوسی ایٹیڈ پریس نے بتایا ہے کہ واشنگٹن نے کیوبا میں عدم استحکام پھیلانے کے لیے ’’کیوبا ٹوئٹر‘‘ تخلیق کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ کیوبا کی کمیونسٹ حکومت کو زیادہ سے زیادہ مشکلات اور ذلت سے دوچار کیا جائے۔ کیوبا ٹوئٹر بھی دنیا بھر میں حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرکے حکمرانوں کی تبدیلی کے امریکی پروگرام کا حصہ ہے۔ جو حکومتیں امریکا کے اشاروں پر نہیں چلتیں، ان سے ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی کردار یو ایس ایجنسی فار انٹر نیشنل ڈیویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) ادا کرتی ہے۔
جولائی ۲۰۱۰ء میں امریکی افسر جو میک اسپیڈون کیوبا کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف سازش کو حتمی شکل دینے کی غرض سے بارسلونا گیا۔ جو میک اسپیڈون کے ماتحت کام کرنے والے ماہرین واشنگٹن، ڈینور، نکاراگوا اور کوسٹا ریکا سے آئے تھے۔ یہ ماہرین کیوبا کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلانا چاہتے تھے جس کے ذریعے حکومت کو کمزور کیا جاسکے۔ کوشش یہ تھی کہ کیوبا کے لاکھوں باشندوں کو امریکی حکومت کا پیغام اس طور پہنچے کہ کیوبا کی حکومت کو اس کا علم نہ ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے خفیہ بینک اکاؤنٹ اور دیگر ذرائع استعمال کیے گئے۔
کیوبا حکومت کے خلاف چلائے جانے والے پروگرام کے لیے فنڈ یو ایس ایڈ نے فراہم کیے۔ یہ ادارہ سی آئی اے سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ بہت سے معاملات میں یو ایس ایڈ نے سی آئی اے کے لیے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا ہے۔
دستاویزات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوبا میں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے منظم انداز سے ایک میسیجنگ سروس چلائی گئی جس کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ کیوبن باشندوں کو اپنی طرف اس طور متوجہ کرنا تھا کہ کسی کو خرابی کا ابتدا میں اندازہ ہی نہ ہوسکے۔ میوزک، تفریح اور طوفان وغیرہ کے بارے میں الرٹس کے ذریعے ابتدا ہوئی۔ کوشش کی گئی کہ لوگوں کو ہلکے پھلکے اپ ڈیٹس دیے جائیں تاکہ انہیں شک نہ ہو۔ پھر یہ ہوا کہ لوگوں کو اکسانے والے پیغامات بھی موصول ہونے لگے۔ ان پیغامات میں انہیں مختلف حیلوں سے حکومت کے خلاف ڈٹ جانے کی راہ سجھائی جاتی تھی۔ مقصود صرف یہ تھا کہ کیوبا کے باشندے اپنی حکومت سے بدگمان اور بد دل ہوکر سڑکوں پر نکل آئیں۔ ایک طرف تو معاشرے میں خرابی پیدا کرنا مقصود تھا اور دوسری طرف امریکا چاہتا تھا کہ سیاسی سطح پر بھی ایسی دھماچوکڑی مچے کہ حکومت کی چُولیں ہل کر رہ جائیں۔
ابتدائی مرحلے میں چالیس ہزار کیوبن باشندوں کو پیغامات بھیجنے والی سروس کا سبسکرائبر بنایا گیا۔ امریکی کنٹریکٹر زیادہ سے زیادہ کیوبن باشندوں کا پروفائل حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ ’’زن زنیو ٹوئٹر پروجیکٹ‘‘ کے ذریعے سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کی خاطر انہیں پیغامات بھیجے جاسکیں۔
کیوبن میڈیا نے زن زنیو ٹوئٹر پروجیکٹ کے خفیہ مقاصد کو تیزی سے بھانپ لیا اور عوام کو خبردار کرنا شروع کیا کہ وہ نیوز الرٹس کے نام پر حکومت کے خلاف بھیجے جانے والے پیغامات سے ہوشیار رہیں۔ کیوبن میڈیا نے عوام کو بتایا کہ ۱۹۶۱ء سے اب تک امریکا نے ان کے ملک کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور تب سے اب تک مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عائد کی جاتی رہی ہیں۔ کیوبا کی حکومت نے بھی زن زنیو پروجیکٹ کو غیر روایتی ہتھیاروں (سائبر وار فیئر) کے ذریعے حملوں کے سلسلے کی کڑی ہی سمجھا۔ امریکا نے سائبر ٹیکنالوجیز کی مدد سے وینزویلا اور یوکرین میں بھی خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیوبا کے خلاف مختلف اقدامات یو ایس ایڈ، نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی اور اکنامک سپورٹ فنڈ کے ذریعے کیے گئے ہیں۔ کیوبا کے خلاف سرگرم امریکی اداروں میں فریڈم ہاؤس، دی سینٹر فار اے فری کیوبا، دی انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اِن کیوبا، دی کیوبن ڈزیڈینس ٹاسک گروپ اور دی انٹر نیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔
سوشل میڈیا کی محقق ایوا گولنگلر نے بتایا ہے کہ یو ایس ایڈ اپنے تمام خفیہ پروگرام ’’آفس فار ٹرانزیشن انیشئیٹیو‘‘ (او ٹی آئی) کے ذریعے چلاتی ہے۔ او ٹی آئی کے ذریعے بڑے پیمانے پر فنڈ اس طور جاری کیے جاتے ہیں کہ کانگریس کی کوئی بھی کمیٹی یا ذیلی کمیٹی احتساب کا معاملہ اٹھا ہی نہیں سکتی۔
ایوا گولنگلر کہتی ہیں کہ روایتی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی روایتی جنگ کا بنیادی مقصد زمین پر قبضے کی جنگ ہے۔ غیر روایتی جنگ کا بنیادی مقصد عوام کو نفسیاتی طور پر نشانہ بنانا ہے۔ انہیں پروپیگنڈا کے ذریعے الجھاکر اپنی حکومت کے خلاف کھڑا کرنا اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔ اس صورت میں بہت سے مقاصد ہتھیار اٹھائے بغیر بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے عوام کو بڑی تعداد میں بدگمانی کا شکار کرکے حکومت سے بدظن کرنا سائبر وار فیئر کا حصہ ہے۔ امریکا نے جن معاشروں میں یہ ہتھیار آزمایا ہے، وہاں لوگ حکومت سے بدظن ہوئے ہیں اور کسی بھی مشکل گھڑی میں معاشرے کا بڑا حصہ حکومت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ لوگوں کو نفسیاتی طور پر مغلوب کرکے انہی میں سے بہت سوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ثقافتی سطح پر کئی پروگرام چلاکر حکومت کی جڑوں میں داخل ہونے اور انہیں کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کیوبا کے حکمران رال کاسٹرو نے خبردار کیا ہے کہ امریکا ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کا مقصد معاشرے میں صرف بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کئی بار امریکا سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ کیوبا کے خلاف خفیہ نوعیت کے پیغامات اور دیگر ہتھکنڈے استعمال کرنا ترک کردے۔ وہ عوام کو بتاچکے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے نئے نوآبادیاتی نظام کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ میں ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء میں پرینسا لیٹینا نے لکھا ہے کہ کیوبا میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کی امریکی کوششوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ کیوبن نوجوانوں کو خاص طور پر ذہن میں رکھا جارہا ہے۔ اب انہیں انقلاب کے خلاف تیار کرنے کے لیے کئی پروگرام چلائے جارہے ہیں۔
کیوبا میں مرضی کی تبدیلیاں لانے کی امریکی کوششوں سے کیوبا کی حکومت ایسوسی ایٹیڈ پریس کی رپورٹ کے شائع ہونے سے قبل بھی آگاہ تھی۔ کیوبن وزارت خارجہ میں امریکی امور کی ڈائریکٹر جوزفینا وائڈل کا کہنا ہے کہ اس امر کے کئی شواہد ملے ہیں کہ امریکا نے کیوبا میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے کے کسی بھی پروگرام کو ترک نہیں کیا ہے بلکہ اس حوالے سے کوششیں دن بہ دن توانا ہوتی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہر سال لاکھوں ڈالر کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور کسی بھی ملک میں خرابی پیدا کرنے سے واضح طور پر گریز کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کا منشور بھی یہی کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کے خلاف کوئی خفیہ پروگرام نہ چلایا جائے، کسی بھی معاشرے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔
(“Social media & the destabilization of Cuba”… “globalresearch.ca”. April 5, 2014)
Leave a Reply