دہلی کے پبلک اسکول میں موبائل فون کے کیمرہ سے ایک طالب علم اور طالبہ کی فحش‘ غیرفطری جنسی حرکات کی تصویروں کو تیسرے طالب علم کے ذریعہ کھینچنے اور انہیں ملٹی میڈیا سسٹم کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھیجنے اور اس فلم کو بیچنے کے معاملہ میں بازی ڈاٹ کام کے انتظامی افسر اعلیٰ اونیش بجاج کی گرفتاری اور رہائی کے قضیہ میں بہت سے پہلو ہیں‘ جن پر سماج کے ہر شخص کو اپنی بساط کے مطابق انفرادی و اجتماعی طور پر غور کرنا ہے اور ایک لائحہ عمل بنا کر عمل کرنا ہے۔ ورنہ یہ وہ ناسور اور کینسر ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے اور پھیل رہا ہے۔ اس کا ثبوت اس قضیہ کے بعد پے در پے اس طرح کے واقعات کی مسلسل اندور‘ چنئی‘ الٰہ آباد سے خبریں آنے سے ہوتا ہے اور ہر آدمی جو اس دھندہ سے تھوڑا بہت واقف ہے جانتا ہے کہ یہ چند واقعات اس غلاظت اور سڑاند کے پہاڑ اور سمندر کے قرہ اور مشت خاک کے برابر نہیں ہے جس پیمانہ پر اور جس تیزی سے یہ گندگی ہمارے سماج میں پھیل رہی ہے۔ مگر بدقسمتی سے تاریخ کے تسلسل کے طور پر یہ قدر مشترک تمام مثالوں میں ہے کہ اس گندگی میں سماج کا وہی طبقہ پیش پیش ہے جس کے پاس سماج میں پیسہ‘ عزت اور تعلیم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثریت کی کمائی غیرقانونی ہے۔ قرآن میں یہ بتایا ہے کہ ہر زمانہ میں یہی طبقہ تمام برائیوں میں آگے رہتا ہے جسے وہ طبقہ ’’مسرفین‘‘ کا نام دیتا ہے۔ ہندی کے مشہور کالم نگار انل چمڑیا نے اس طبقہ کے تعلق سے بجا طور پر لکھا ’’یہ سماج کا وہ طبقہ ہے جس کا سماجی قدروں‘ سماجی اداروں کے ذریعہ طے کردہ اصول و ضوابط سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہیں وہ سرے سے گردانتے ہی نہیں۔ یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کہ یہ طبقہ کن وسائل کی بنیاد پر کھرا ہے۔ یہ پیداواری طبقہ نہیں ہے۔ اس کی بنیاد غیرقانونی کمائی ہوتی ہے اس لیے عام آدمی اور اس کی تہذیب سے اس کا دور دور تک کوئی ناطہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں یہ جان لینے کی بھی ضرورت ہے کہ ہندوستانی سماج میں جو ناجائز رشتہ یا فحش تہذیب کا چلن دیکھا جاتا ہے اس کے کردار کون ہیں؟ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے پس منظر میں وہی لوگ ہیں جو ناجائز طریقہ سے لوٹنے والے اور قانون کا مذاق اڑانے والے ہیں۔ جیسے جیسے یہ طبقہ مضبوط ہوا ہے سماج میں بدتہذیبی بڑھی ہے۔
دراصل یہ طبقہ تکنیکی ترقی کو اپنی چاکری اور عیاشی کے لیے استعمال کرتا ہے اس لیے سوال صرف تکنیک کے غلط استعمال کا نہیں ہے‘ تکنیک کو اپنے اقتدار اور تہذیب کے تابع کرنے کا ہے۔ اس طرح کے واقعات ایک کے بعد ایک اس لیے سامنے آتے ہیں کیونکہ اس (تکنیک) پر تسلط رکھنے والے طبقہ پر گفتگو کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔ (انل چمڑیا‘ راشٹریہ سہارا‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۴ء)
دوسرا پہلو اس قضیہ میں بہت اہم یہ ہے کہ شیطان کے موثر ترین حربوں میں جنسی بے راہ روی کی تمام شکلیں شامل ہیں۔ ہبوط آدمؑ سے بھی پہلے اس نے آدم و حوا کے ستر عریاں کروائے تھے۔ اور تب سے آج تک مختلف شکلوں میں یہ اس کا اور اس کے پیروکاروں کا موثر ترین ہتھیار رہا ہے اور رہے گا۔ قرآنی اصول ہے‘ اے لوگو! شیطان کی پیروی نہ کرو۔ اگر تم شیطان کی پیروی کرو گے تو وہ تمہیں فحش اور منکرات کا حکم دے گا‘‘۔ بازی ڈاٹ کام ایک امریکی کمپنی کی شاخ ہے۔ اس کا انتظامی افسر اعلیٰ ہندوستانی امریکی ہے۔ دہلی پولیس کے ذریعہ ہندوستان میں قوانین کے تحت اس کو گرفتار کیا گیا۔ مگر اس وقت دنیا میں شیطانی تہذیب کے سب سے مضبوط مرکز بش انتظامیہ نے ایک معمولی افسر کی رہائی کے لیے اپنی ساری طاقت جھونک دی۔ اس کی ضمانت کی عرضی کی پہلی سماعت کے روز امریکی سفارت کار کورٹ میں موجود تھا۔ بعد میں وہ مسلسل عدالتی کارروائی کے دوران موجود رہا۔ ٹائمز آف انڈیا (۲۲ دسمبر ۲۰۰۴ء) کے صفحہ اوّل کی خبر کے مطابق امریکا کا محکمہ خارجہ کولن پاول اور مشیر برائے تحفظ کونڈو لیزا رائس سب نے اس افسر کی رہائی کے کیس میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔ جس کا اقرار محکمہ خارجہ کے ترجمان رچرڈ بائوچر نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ یہ حالات ہمارے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ اعلیٰ ترین حلقوں میں اس پر تشویش ہے۔ بائوچر نے اس سے منع کیا کہ مجھے پتا نہیں کہ کونڈو لیزا رائس نے بھی اس میں دلچسپی دکھائی یا فون کر کے احوال معلوم کیے (ٹائمز آف انڈیا۔ ۲۲ دسمبر ۲۰۰۴ء)۔ صفحہ اوّل کی پہلی خبر بازی ڈاٹ کام۔ کیونکہ اس شیطانی ایجنڈہ کی تکمیل کر رہا تھا اس لیے اس کے سرپرست اس کی مدد کو آئے۔ جسے ہم شیطانی تہذیب کا ایجنڈاہ کہتے ہیں اسے وہ ’’امریکن طریقۂ زندگی‘‘ کہتے ہیں اور نئے عالمی نظام ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے ذریعہ اس کو مکروہ تہذیب و تفریح کے خوشنما لبادوں میں چھپایا گیا ہے۔ امریکا کے زیرِ اثر تمام ممالک کے حالات دیکھیں تو اندازہ ہو گا۔ مقابلہ حسن‘ فلمیں‘ گانے‘ بیوٹی پارلر کو ہی فروغ دیا جارہا ہے۔ یہی ترقی کی راہ بتائی جارہی ہے۔
اس وقت پوری انسانی برادری کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ وہ ایڈز‘ زنا‘ عورتوں کے خلاف دست درازی‘ ہم جنسی وغیرہ کی لعنتوں سے کیسے چھٹکارا پائے؟ اگر انسانیت واقعی ان لعنتوں سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے تو اسے ان لعنتوں کی سرپرستی کرنے والی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ ورنہ خدا جانے یہ شیطان انسانی شرافت کو کن کن پستیوں میں لے جا کر رسوا کرے گا۔ کل پچھتانے سے کچھ نہیں ہو گا۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply