
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اللہ بھلا کرے‘ ان کی مسلم لیگی رَگ پَھڑکی اور انہوں نے صلاح الدین قادر چودھری کی سزائے موت پر زباں کھولی‘ بنگلا دیش کی ریاستی دہشت گردی پر احتجاج کیا اور وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں یہ مسئلہ اٹھانے کی خواہش ظاہر کی۔ بنگلا دیش میں دار و رسن کی رسم دو ڈھائی سال قبل ڈالی گئی۔ سارے ہی مجرم وہ تھے جن پر پاکستان سے وفاداری کا الزام تھا‘ مگر پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومت نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی کو بہترین پالیسی سمجھا‘ لہٰذا قاتل حسینہ کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور یہ سلسلہ چل پڑا۔ زیادہ تر نے یہی سوچا کہ یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
مشرقی پاکستان ہمارا بازو تھا‘ اکثریتی آبادی والا صوبہ اور سیاسی حقوق کا طلبگار‘ مگر ۱۹۶۵ء میں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں ناکام بھارت نے یہاں نسلی و لسانی تعصبات اور منافرت کی آگ بھڑکائی‘ علیحدگی کے رجحانات کی آبیاری کی (جس طرح وہ ان دنوں بلوچستان کے بعض گمراہ عناصر پر سرمایہ کاری کر رہا ہے) اور مکتی باہنی تشکیل دے کر ڈھاکا، چٹاگانگ‘ کھلنا‘ کومیلا‘ جیسور اور دیگر شہر و دیہات میں پاکستان کے وفادار بنگالیوں‘ پولیس و انتظامیہ کے افسروں‘ اہلکاروں اور غیر بنگالی نہتے مرد و خواتین کو قتل و غارت گری‘ آبروریزی‘ آتش زنی اور تشدد کا نشانہ بنا کر نسل کشی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
مارچ ۱۹۷۱ء میں حالت یہ تھی کہ پاکستان کا پرچم سرعام جل رہا تھا‘ علیحدگی کے نعرے روزمرہ کا معمول تھے‘ جنسی تشدد نام نہاد حریت پسندوں کا محبوب مشغلہ تھا اور پاکستان کا نام لینا سنگین جرم۔ پاکستان گزشتہ بارہ تیرہ سال سے دہشت گردی کا شکار ہے مگر آج تک یہ شکایت سامنے نہیں آئی کہ کسی دہشت گرد نے واردات سے قبل خواتین کی آبروریزی کی ہو، مگر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے غنڈوں اور مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے یہ کارنامہ انجام دیا اور کبھی شیخ مجیب الرحمن‘ حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں نے شرمندگی محسوس نہیں کی۔
مشرقی پاکستان میں فوج نے کن حالات میں آپریشن کیا‘ اس کی ایک جھلک ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکا کی رپورٹ (مطبوعہ مئی ۱۹۷۱ء) میں ملتی ہے۔’’جن نامہ نگاروں نے ساحلی شہر چاٹگام کا دورہ کیا انہیں معلوم ہوا کہ یہاں باغیوں نے ہزاروں (جی ہاں ہزاروں) غیر بنگالیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔ ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ باغیوں نے چاٹگام پر قبضہ کے بعد غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔ ۱۱؍اپریل ۱۹۷۱ء کو فوج نے بھرپور کارروائی کے بعد قبضہ چھڑایا‘‘۔ امریکی اخبار ایوننگ سٹار نے ۱۲؍مئی ۱۹۷۱ء کو اپنے نمائندے مارٹ روزن بام کی رپورٹ شائع کی۔ ’’اصفہانی جیوٹ مل کے کلب میں ۱۸۰؍غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا‘ جنونی باغیوں نے قتل عام سے قبل لوٹ مار اور خواتین کی عصمت دری کی۔ مقامی باشندوں نے اخبار نویس کو بتایا کہ بستیوں اور بازاروں میں غیر بنگالیوں کا تعاقب کر کے مارا گیا۔ ۳۵۰ غیر بنگالی نوجوانوں کو زندہ جلا دیا گیا‘‘۔
دی سنڈے ٹائمز (لندن) کے مطابق ’’چاٹگام میں ملٹری اکیڈیمی کے کمانڈنگ کرنل کو شہید کر دیا گیا‘ اس کی حاملہ بیوی سے زیادتی کی گئی اور اس کا پیٹ چاک کر کے ماں کو بچے سمیت سڑک پر پھینک دیا گیا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک اعلیٰ افسر کو زندہ جلا دیا گیا‘ اس کے دو بیٹوں کے سر قلم کیے گئے‘ افسر کی بیوی کا آبروریزی کے بعد پیٹ چیر دیا گیا اور برہنہ جسم پر بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔ بہت سے غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں جن کے نازک اعضا میں بنگلا دیشی پرچم کی ڈنڈیاں گڑی تھیں‘‘ ایسی ہی رپورٹیں ۱۹۷۱ء میں نیویارک ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندوں میلکم براؤن اور پیٹر گل کے حوالے سے شائع ہوئیں مگر آج تک پروپیگنڈا‘ پاک فوج کے جذبہ شہادت و حب الوطنی سے سرشار فوجی جوانوں‘ افسروں اورا پنے وطن کی حفاظت کے لیے سربکف علی احسن مجاہد‘ مولانا غلام اعظم‘ ملّا عبدالقادر شہید اور صلاح الدین قادر شہید کے خلاف ہو رہا ہے‘ جن کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے وطن کے خلاف بھارتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترے اور عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے۔
مولوی فرید احمد‘ صلاح الدین قادر چوہدری کے والد فضل القادر چوہدری اور ان کے دیگر رفقاء کے علاوہ قاتل حسینہ کے دیگر کشتہ ستم محب وطن پاکستانیوں اور پھر بنگلا دیش کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے اسلام کے نام لیوا بنگالیوں کے جنگی جرائم کا کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں، حوالہ صرف ان پمفلٹوں‘ بیانات اور تشہیری مواد کا دیا جاتا ہے جو بھارت میں طبع ہوا اور عوامی لیگ و مکتی باہنی نے پاکستانی‘ فوج‘ رضاکاروں اوربغاوت و علیحدگی کے مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے اندرون و بیرون ملک وسیع پیمانے پر پھیلایا کہ معصوم‘ غیر مسلح اور سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو لاکھوں کی تعداد میں تہ تیغ کیا گیا‘ تین لاکھ خواتین سے زیادتی ہوئی اور دانشور‘ پروفیسر‘ فوجی تشدد کا نشانہ بنے۔ عوامی لیگ کے حامی اور پاکستان کے مخالف منصف مزاج دانشوروں کی کتابوں میں بھی اس پروپیگنڈے کو جھوٹ قرار دیا گیا ہے اور عوامی لیگ کی بنگلا دیش کے قیام سے پہلے اور بعد غنڈہ گردی اور بہیمانہ مظالم مکتی باہنی کی تخریب کاری و بھارت نوازی بے نقاب کی ہے۔ عبدالمنعم چودھری اور والیم شریف الحق کی کتابیں نوجوان نسل کو ضرور پڑھنی چاہئیں۔
پاکستان نے بنگلا دیش کو تسلیم کیا تو دونوں ممالک کے مابین ایک معاہدہ طے پایا کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کی بنا پر دونوں ممالک میں کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں ہو گی۔ پاکستان نے تمام بنگالی شہریوں‘ سول و فوجی افسروں‘ اہلکاروں کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی لندن کے راستے ڈھاکا روانہ کر دیا تھا، ورنہ ہمارے پاس وہ ترپ کا پتّا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کے علاوہ اس کے مخالف جانشینوں نے بھی اس معاہدے کا احترام کیا مگر بھارت کی گماشتہ اور پاکستان دشمنی میں اندھی حسینہ واجد نے اقتدار سنبھالتے ہی ڈھاکا کو پھانسی گھاٹ بنا دیا۔ ۱۹۷۱ء میں محب وطن بنگالیوں اور غیر بنگالیوں سے بہیمانہ سلوک کرنے والے مکتی باہنی کے غنڈے‘ زناکار اور ٹارگٹ کلر منصف بن بیٹھے اور انہوں نے چن چن کر ان لوگوں سے انتقام لیا جن کا پاکستان سے وفاداری کے سوا کوئی جرم ہے نہ عوامی لیگ سے اختلاف کے علاوہ کوئی قصور:
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
ہاں جرم وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطاکار سردار کھڑے ہیں
فیض احمد فیض نے کہا تھا ’’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘ حسینہ واجد خون کے دھبے صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن مجاہد کے علاوہ ۹۵ سالہ مولانا اعظم کے ناحق لہو سے دھو رہی ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے محبت اور وفاداری کا حق ادا کیا‘ دار کی خشک ٹہنی پر وارے جانے اور تاریک راہوں میں مارے جانے کا فیصلہ انہوں نے خود کیا۔ پھانسی کی سزا پانے سے قبل بھی اپنے ’’گناہ‘‘ سے توبہ انہوں نے نہیں کی، بلکہ دلیری اور جوانمردی سے پھانسی گھاٹ کا رُخ کیا۔ مگرکیا پاکستان کی حکومت‘ دفتر خارجہ‘ فوج‘ سیاسی جماعتوں‘ میڈیا‘ سول سوسائٹی اور بحیثیت مجموعی عوام کا کوئی فرض نہ تھا؟ کیا پاکستان سے وفاداری حسینہ واجد کی طرح ہمارے نزدیک بھی ناقابلِ معافی جرم ہے اور بنگلا دیش میں جو رسم چلی ہے، اُس پر ہم نے بھی اپنی مجرمانہ خاموشی سے مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔
چوہدری نثار علی خان کا شکریہ کہ جنہوں نے جرأت مندانہ بیان دیا، جس کے بعد دفتر خارجہ کو بھی قدرے حوصلہ ہوا اور بنگلا دیشی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا‘ مگر کیا یہ کافی ہے؟ ہم اجتماعی طور پر فاٹا کے دہشت گردوں‘ کراچی کے ٹارگٹ کلر اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور ریاست کے باغیوں کے خلاف برسرپیکار فوج‘ رینجر اور ایف سی کا کھل کر ساتھ دینے والے محب وطن پاکستانیوں کو کیا یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ ان پر کوئی برا وقت آیا تو کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۲۴ نومبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply