
مشرقی پاکستان کی علیحدگی یا پاکستان ٹوٹنا، حماقت، سازش اور عبرت کے ملے جلے رشتوں کا نتیجہ ہے۔ جسے مغربی پاکستان کی حکمران نسل کے تفاخر اور گھمنڈ نے چنگاری دکھائی، مشرقی پاکستان میں قوم پرست بنگالی ٹولے نے، جس کی پشت پر ہندو اور کانگریسی قوت تک جاکھڑی تھی اس نے نفرت کا الاؤ بھڑکایا اور ہندوستان اس آگ پر مسلسل پیٹرول چھڑکتا رہا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مغربی پاکستان کے حاکم طبقے اور دانشور قوت نے مسئلے کا ادراک کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی بامعنی کوشش نہ کی۔ اسی دوران میں فوجی حکمرانی کے شوقین جرنیلوں نے جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں چھلانگ لگا کر معاملہ اور زیادہ خراب کر دیا۔
اس آگ نے اپنا رنگ دکھایا تو جنوری ۱۹۶۶ء میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکاتی مطالبہ پیش کرکے علیحدگی کے عمل کو راستہ دکھایا۔ مجیب اور ان کے سرپرست بھارتی خاموش نہیں بیٹھے، انہوں نے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے سفر پر کام جاری رکھا۔ ۱۹۶۷ء میں بھارتی صوبے تری پورہ کے قصبے اگرتلہ میں خفیہ اجلاس منعقد کیے۔ مجیب کے نامزد افراد سرحد پار کرکے تخریبی منصوبہ کاری میں شامل تھے۔ مجیب کی اس سازش کو آئی ایس آئی کے کرنل شمس العالم نے بے نقاب کیا، شمس العالم (جو خود بنگالی تھے) کی جان لینے کے لیے ایسٹ بنگال رجمنٹ کے رؤف الرحمان نے قاتلانہ حملہ کردیا۔ مگر شمس العالم نے کمال حکمت، بہادری اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ دسمبر ۱۹۶۷ء میں سازش کا منصوبہ پکڑ لیا۔ آئی ایس آئی کے بڑے کارناموں میں اس واقعہ کو شمار کیا جانا چاہیے، مگر ہماری تاریخ تو سمندری جوار بھاٹا کی طرح خواروزبوں ہوتی رہی ہے۔ بھلا کسے ہوش کہ کن کن جری لوگوں نے اس ریاست کے دفاع کے لیے کیا کیا کارنامے انجام دیے۔
بہرحال ۱۸ جنوری ۱۹۶۸ء کو اس سازش میں ۳۵؍افراد کے براہ راست ملوث ہونے کا مقدمہ تیار ہوا۔ ۹ مئی کو مجیب الرحمن کو مرکزی سرغنے کے طور پر گرفتار کیا گیا۔ حکومت نے روزِ روشن کی طرح عیاں سازش کی کڑیوں کو جوڑ کر سول قانون کے تحت، ایک خصوصی ٹریبونل میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹریبونل کے سربراہ (سابق چیف جسٹس آف پاکستان) جسٹس ایس اے رحمان تھے۔ جبکہ ٹریبونل کے دوسرے دو ممبران میں ایم آر خان اور مکسوم الحکیم شامل تھے۔ یہ دونوں فاضل جج بنگالی نژاد تھے۔
مقدمے کی جگہ ڈھاکا چھاؤنی میں مقرر کی گئی۔ ایک سو پیراگراف، ۲۲۷ گواہوں اور ۷ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ ٹریبونل کے سامنے اٹارنی جنرل ٹیم ایم خان اور پاکستان کے مایہ ناز قانون دان منظور قادر نے مقدمہ پیش کیا۔ ۱۹؍جون ۱۹۶۸ء کو مقدمے کی باقاعدہ کارروائی شروع ہوئی۔ مگر بُرا ہو اس سیاست کا، کہ سیاست دانوں کے قبیلے نے اس سارے عمل پر شک کا اظہار کیا۔ اخبارات نے مقدمے کی کارروائی کو اس طرح پیش کرنا شروع کیا جیسے کسی ہیرو کی داستان مہم جوئی ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے روز سے حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کار اور جنگ میں دو چیزیں سب سے زیادہ نظرانداز ہوتی آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ حسِ انصاف اور دوسری ریاست پاکستان۔ عجب بات ہے کہ اپوزیشن قافلہ بڑے سے بڑے غدار کی طرف داری میں بدترین عصبیت کے زہر میں ڈوب جاتا ہے۔ مجیب کے ’’اگرتلہ کیس‘‘ میں بھی ظلم یہی ہوا۔ ادھر جوں جوں ایک سچے مقدمے کی گرفت میں عوامی لیگی سازشوں کی گردن دبوچی جانے لگی، توں توں پاکستان میں ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور قتل کرو کا سونامی امڈ امڈ کر آنے لگا۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء سے فروری ۱۹۶۹ء تک عملاً پاکستان ایک دہکتے ہوئے احتجاج زدہ ملک کا منظر پیش کر رہا تھا۔ صدر ایوب خان نے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے گول میز کانفرنس طلب کی۔ مگر اس وقت مسلم لیگ کے سربراہ میاں ممتازمحمد خاں دولتانہ نے شرط عائد کردی کہ ’’ہم اس وقت تک اجلاس میں شرکت نہ کریں گے جب تک مجیب کو رہا نہیں کیا جاتا‘‘ اور مجیب نے شرط لگا دی کہ میں اس وقت اجلاس میں شریک نہ ہوں گا جب تک میرے خلاف مقدمہ واپس نہیں لیا جاتا۔
اسی دوران میں خصوصی ٹریبونل کے مقام سماعت پر عوامی لیگی کارکنوں نے اس طرح حملہ کیا کہ بڑی مشکل سے جسٹس ایس اے رحمان کو جان بچانا پڑی اور آخر کار ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء کو ٹریبونل توڑ دیا گیا۔
ازاں بعد ایوب خان بھی گھر چلے گئے۔ ۱۹۷۰ء کا پورا سال انتخابی مہم چلی۔ جس میں مجیب نے بدترین مہم چلائی۔ کسی بھی مدمقابل کو سیاسی عمل کا حصہ بننے کی اجازت نہ دی اور ۷ دسمبر ۱۹۷۰ء کو منعقد ہونے والے انتخاب کے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ جما کر بدترین دھاندلی کی۔ ایسی دھاندلی کہ ایم کیو ایم بھی اس کی حسرت ہی کرتی رہے۔
بات ہورہی تھی ’اگرتلہ سازش کیس‘ کی، جس کے بارے میں حکومت پوری قوت کے ساتھ اور قانونی سطح پر غداروں اور غداری کو کیفر کردار تک پہنچا سکتی تھی۔ مگر قانون کے پاؤں کاٹ دیے گئے۔ اس وقت مجیب کا ٹولہ اور اپوزیشن کے سیاسی پیر بھائی یہ کہتے تھے کہ اگرتلہ کا کیس جھوٹا ہے۔ مگر آج بنگلا دیش کی پارلیمنٹ میں اور وہاں چھپنے والی کتابوں میں برملا اعلان کیا جارہا ہے اور بڑے فخر کے ساتھ یہ کہا جارہا ہے کہ ’’ہاں، ہم نے وہ منصوبہ اگرتلہ میں بنایا تھا‘‘، ’’ہاں ہم نے ’’را‘‘ کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی تھی‘‘۔ یہ کیسے سیاست دان ہیں کہ جو جھوٹ اور عصبیت کو سیاست کی جان سمجھتے ہیں۔ اسی سرطان زدہ سیاست کاری نے ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کے دن تک ہمیں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی سیاست و صحافت، غداری کے مختلف کرداروں کو تحفظ دینے، راستہ فراہم کرنے اور ہیرو بنانے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دے رہی ہیں۔ بڑی حسرت سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اہل حل و عقد کے نزدیک غالباً پاکستان اور اس کا وجود سب سے آخری ترجیح کا مقام رکھتے ہیں۔ سرطان کے پھوڑے پر پردہ ڈالنے اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے اجتناب برتنے کا یہ رویہ تو شاید کوئی دشمن ہی برت سکتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی، ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply