امریکی ساتواں بحری بیڑا بنگلہ دیش کو آزاد ہونے سے روکنے کے لیے ۱۹۷۱ء میں بحر بنگال کی طرف دوڑا، اب پھر وہ بحربنگال کی طرف چین اور بھارت کو گھیرنے کے لیے پہنچ رہا ہے۔ یہ دونوں عالمی قوت بننا چاہتے ہیں۔
بھارت کے “Times Now” نے محتاط خبر دی ہے کہ امریکی اور بنگلہ دیشی حکومتوں کے درمیان امریکی بحریہ کو بنگلہ دیش کے علاقائی سمندر میں تعینات کرنے کے لیے خفیہ مذاکرات چل رہے ہیں۔
غیر واضح طور پر دیکھی جانے والی چین امریکا سرد جنگ نے خلیج بنگال میں بنگلہ دیش کو اس آگ میں دھوکے سے جھونک دیا ہے۔ ساتویں بحری بیڑے کی آمد کی خبروں کی بنگلہ دیش اور امریکا دونوں کے سرکاری عہدیداروں نے فوری تردید کی ہے۔ ’’ہالیڈے‘‘ کی اطلاع کے مطابق بنگال کے علاقائی سمندر کے قریب ساتویں بیڑے کی تعیناتی کو پہلے ہی زبردست ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔
’’ہالیڈے‘‘ کو یہ خبر بھی ملی ہے کہ دونوں ملکوں کے سرکاری اہلکاروں کے درمیان اس سلسلے میں مذاکرات بھی ہو چکے ہیں، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش میں یہ مذاکرات ہوئے، اگرچہ یہ معاملہ ایجنڈے پر موجود نہ تھا۔
معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بات چیت ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو شروع ہوئی جب دونوں ممالک کی سلامتی کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ امریکا کی طرف سے ان مذاکرات میں سیاسی اور فوجی اُمور کے نائب سیکرٹری اینڈریو جے شاپیرو (Andrew J. Shapiro) شریک تھے۔ اس کے علاوہ ایشیا میں امریکا کی نئی تزویراتی حکمت عملی کا مطالعہ بھی اس اطلاع کی تصدیق کرتا نظر آرہا ہے۔
خلیجِ بنگال میں امریکی فوجی موجودگی اس بات کی ضمانت ہو گی کہ وہ چین کے سمندری ساحل اور خلیج فارس میں تیزی سے مداخلت کرسکے، اس وجہ سے وہ بنگلہ دیش کے ساتھ فوجی تعاون میں اضافہ کو اولیت دے رہا ہے۔
اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ایشیا کے بحرالکاہلی علاقہ میں اس کی مضبوط فوجی موجودگی ہو کیونکہ وہ افغانستان اور عراق سے بھی نکل رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ چین اور بھارت کو حد سے بڑھنے سے روکے جبکہ دونوں عالمی طاقت کے دعوے دار بن رہے ہیں۔
تیسرا یہ کہ اپنے علاقائی دوستوں کے لیے تجارتی راستہ صاف رہے، ان میں جاپان، کوریا، سنگاپور اور تائیوان شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’آنے والے سالوں میں بنگلہ دیش اور سنگاپور میں امریکا کی مضبوط فوجی موجودگی متوقع ہے‘‘۔
یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ مئی میں سنگاپور کے ساتھ تزویراتی شراکت کے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں۔ ۲۰۱۳ء کی بہار تک امریکی جنگی جہاز USS Freedom (LCS-1) سنگاپور کے سمندر میں ابتدائی طور پر دس ماہ کے لیے تعینات رہے گا۔
“Times Now” میں یہ خبر بھی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ امریکی اور سنگاپوری وزرائے دفاع کے اعلان کے مطابق سنگاپور نے اصولی طور پر ۴؍ امریکی جنگی جہازوں کو باری باری سنگاپوری سمندر میں تعیناتی کی امریکی درخواست قبول کرلی ہے۔
قوی اشارہ ہے کہ وہ ایسا ہی اقرار بنگلہ دیش سے لینا چاہتا ہے، ہلیری کے ۵؍مئی کو ڈھاکا کے دورے میں اس معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں کہ اس سلسلہ میں مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔ ہلیری کے ڈھاکا کے دورے سے قبل امریکی کانگریس کی رپورٹ میں بنگلہ دیش کے ساتھ شراکت پر زور دیا گیا تھا۔ جبکہ اعلیٰ تحقیقاتی ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ سنگاپور نے امریکا کے ساتھ تزویراتی شراکت کا اعزاز حاصل کر لیا ہے اور فوجی امداد وصول کر رہا ہے۔
امریکا کا افغانستان چھوڑنے کے بعد پچھلی غلطیوں سے سبق لینے کا ارادہ معلوم ہوتا ہے، اپریل ۱۹۷۵ء کو ویت نام سے بدنظمی اور افراتفری میں اُس کا نکلنا بہت بے عزتی کا باعث بنا پھر اس کی وجہ سے امریکا خطہ سے ایک عرصہ دور رہا، اس غیر حاضری کی وجہ سے ۱۹۸۰ء کے آخر میں سوویت یونین کے بعد بنیاد پرست اسلامیوں کو افغانستان پر قبضے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ ہی نئی امریکی تزویراتی پالیسی مشروط اقدامات کے ذریعہ یہ ضمانت حاصل کرنا چاہتی ہے کہ بغیر بیٹریوں (Unfettered) والی آزاد اور کھلی معیشت اور ایشیا اور عالمی سمندروں تک رسائی حاصل ہو جو فضائی اور Cyber سے پاک ہو۔ اور پھر پرامن طریقوں سے تنازعات کا حل نکالنے کے لیے قوت کا زبردست اظہار کیا جائے۔
جیسا کہ بھارت اور چین دونوں عالمی برتری کے لیے کوشاں ہیں، امریکا چاہتا ہے کہ اپنی تزویراتی حکمت عملی سے آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، انڈونیشیا، سنگاپور، ملائیشیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار، نیوزی لینڈ، ویتنام اور منگولیا کو باندھ لے۔ ایک لحاظ سے یہ حکمت عملی چین کی “String of Pearl” حکمت عملی کی نقل ہے جس کے تحت چین پاکستان، بنگلہ دیش، برما اور سری لنکا میں بندرگاہوں کی سہولتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔
خلیج بنگال میں موجودگی سے مشرق وسطیٰ میں سرعت کے ساتھ فوجی مداخلت آسان ہو جائے گی۔ یہ طاقت عراق سے نکل جانے سے کمزور پڑ گئی ہے۔
وسطی کمان ۵۰ جہازوں کے ساتھ خلیج فارس پہنچ چکی ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ وسطی اور بحرالکاہل کمان مل کر کارروائی کر سکیں گے جیسے اگست ۱۹۹۰ء میں کویت میں عراق کی مداخلت پر ساتویں بیڑے نے کیا تھا، اس کے کمانڈر نے کویت کو آزادی دلانے کی اضافی ذمہ داری اپنے اوپر لی تھی۔
خلیج فارس سے بحرالکاہل ایشیا میں کارروائی کرنا زیادہ وقت اور سرمایہ صَرف کرنا ہے، خلیج بنگال بہتر متبادل ہے۔ (سستا اور تیز) جو جنوبی چینی سمندروں اور خلیج فارس میں دونوں طرف یکساں مؤثر ہے۔
(“Dhaka Gets Sucked into Sino-US Rivalry”… “Weekly Holiday” Bangladesh. June 8th, 2012)
Leave a Reply