اینڈرز بہرنگ بریوک نے ناروے میں ٹرک بم دھماکہ کیا اور اس کے بعد فائرنگ کرکے مجموعی طور پر ۹۵ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں اکثریت اسکول کے لڑکوں کی تھی۔ اس سنگین واردات نے یورپ میں اس نکتے پر بحث کو جنم دیا ہے کہ مسلم اور عیسائی دہشت گردوں کے معاملے میں لوگ دہرے معیار کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔
اینڈرز بہرنگ بریوک نے خود کو صلیبی جنگ کا سپاہی اور کلچرل عیسائی قرار دیا۔ بہت سے لوگ اس بات سے شدید خوفزدہ ہیں کہ بریوک کو عیسائی دہشت گرد کہا جارہا ہے۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ اگر بریوک کو عیسائی دہشت گرد نہ لکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم نوجوان جب دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں تو انہیں مسلم یا اسلامی دہشت گرد کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
یورپ میں میڈیا بظاہر بریوک کی جانب سے عیسائیت کی تعریف و توضیح اور اسے (بریوک کو) بیان کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی اصلاحات سے بے نیاز ہے مگر امریکا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اس امر پر گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے کہ بریوک کو کیا کہا جائے۔ فوکس نیوز کے اینکر بل اوریلی نے بریوک کو عیسائی دہشت گرد قرار دینے کی شدید مخالفت کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بل اوریلی اور چند دیگر اینکرز اس بات کے لیے تیار نہیں کہ مسلم دہشت گردوں کو بھی وہی ٹریٹمنٹ دی جائے جو بریوک کو دی گئی۔
یوٹویا جزیرے پر مسکراتے چہرے کے ساتھ ۸۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والے بریوک نے خود کو ۱۰۰ فیصد عیسائی قرار دیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو عیسائی مذہبی ہونے کے حوالے سے قرار نہیں دیا بلکہ ’’عیسائی یورپ‘‘ کے تناظر میں ایسا کہا ہے۔
انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے ۱۵۰۰ صفحات کے منشور میں بریوک نے لکھا ہے ’’جہاں سے خدا سے میرے ربط کا تعلق ہے، میں کوئی کٹر مذہبی قسم کا عیسائی نہیں ہوں۔ میں بنیاد طور پر منطق کا آدمی ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ یورپ میں صرف عیسائیوں کا کلچر رائج رہے۔‘‘
بریوک نے جس وڈیو میں کلچرل مارکسسٹس عناصر کو یورپ میں کئی ثقافتیں پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے، اس میں بہت سے عیسائی مذہبی علامات بالخصوص صلیب کے ساتھ میدان جنگ میں سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔
اگر کوئی پوری ایمانداری اور توجہ کے ساتھ یورپ کے موجودہ مزاج کا جائزہ لے تو اسے یہ اندازہ قائم کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ یورپ کا مزاج مجموعی طور پر غیرمذہبی یا سیکولر ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں دیکھیے تو بریوک کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ وہ کٹر عیسائی نہیں۔ شمالی یورپ میں مذہب کی بات کو مرکزیت سے محروم ہوئے عشرے گزر چکے ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو چرچ جانے سے باریش جہادیوں نے روک رکھا ہے!
لندن میں قائم معاشرے اور مذہب سے متعلق تھنک ٹینک ’’تھیوز‘‘ کی ڈائریکٹر الزابیتھ ہنٹر کا کہنا ہے کہ شمالی یورپ کے بیشتر مکین (بشمول انگریز) کٹر عیسائی نہیں اور باقاعدگی سے چرچ بھی نہیں جاتے۔ الزابیتھ ہنٹر کا استدلال ہے کہ بریوک کو عیسائی دہشت گرد قرار دینا درست نہیں کیونکہ اس نے جو واردات کی ہے اس کی پشت پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا کوئی ایسا کردار نہیں جو خود حملہ آور نے بیان کیا ہو۔
اگر عیسائیت کے دور اول کی تعلیمات، زندگی بسر کرنے کے ڈھنگ اور اطوار کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ جو کچھ بریوک نے کیا اس کا عیسائیت کی بنیادی تعلیمات سے کوئی تعلق نہ تھا۔
ترک اخبار ’’حریت‘‘ میں ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ بریوک نے جو کچھ پیش کیا وہ عیسائیت کی اسلام مخالف تعبیر تھی۔ عیسائی رائٹرز کی یہ بات درست ہے کہ بریوک نے جو کچھ کیا اس کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر افسوس کہ ہم ایک زمانے سے اس نکتے پر زور دیتے آرہے ہیں کہ القاعدہ جیسے گروپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے اسلامی تعلیمات کا عکس نہیں بلکہ ان کے شدت پسند فکر کا مظہر ہے۔
دی ڈیلی شو کے میزبان جان اسٹیوارٹ کا کہنا تھا کہ مغرب کے جن مصنفین نے بریوک کو عیسائی دہشت گرد قرار دیے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا وہ کسی مسلم کے ہاتھوں دہشت گردی کے ارتکاب پر دہرا معیار اپناتے ہیں اور اسے اسلامی دہشت گرد قرار دینے سے نہیں چوکتے۔
گیٹ ریلیجن کے نام سے قائم ایک بلاگ میں مولی زیگلر نے اس نکتے پر بحث کی ہے کہ اخلاقی طور پر اسلامی اور عیسائی دہشت گرد کی اصطلاح مساوی نہیں۔ بریوک نے ناروے میں جو کچھ کیا اس کی یورپ میں سبھی مذمت کر رہے ہیں جبکہ سبز ہلال والے ممالک میں القاعدہ اور ایسے ہی دوسرے گروپوں کی کھل کر مذمت نہیں کی جاتی۔
مولی کا یہ بھی استدلال ہے کہ بریوک نے جو بھی کیا، تنہا کیا۔ اس کی پشت پر کوئی تنظیم نہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں میں اس نوعیت کے اقدامات کی کھل کر مذمت کرنے کا رواج دکھائی نہیں دیا۔ مولی زیگلر کا یہ بھی کہنا ہے کہ میڈیا کو دہشت گردی کی برانڈنگ میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
عیسائی علما کا دعویٰ ہے کہ عیسائیت نے اپنے بہترین دور میں دنیا کو بہت کچھ دیا۔ غلامی اور دیگر بہت سی قبیح رسوم کا خاتمہ عیسائیت کی بدولت ممکن ہوسکا۔ عیسائیت کے تعلیمات نے بنیادی حقوق کی پاسبانی کی راہ ہموار کی۔ عیسائیت کی تعلیمات میں کسی بھی انسان کے لیے عزت نفس کا بھرپور سامان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے معاشرے سے احترام دلانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
(بشکریہ: ’’کرسچین سائنس مانیٹر‘‘۔ ۲؍اگست ۲۰۱۱)
Leave a Reply