یہ ہفتہ پاکستان سے مزید بری خبریں لایا ہے جیسا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے واشنگٹن کے انتباہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ مشرف نے پاکستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور اسلامی شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو اپنے اس اِقدام کے لیے جواز بنایا۔ بہرحال حقیقی وجہ ان کا یہ خوف معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ جس کو انھوں نے اس وقت معطل کر رکھا ہے، ان کے دوبارہ وردی میں صدر منتخب ہونے کے عمل کو غیرآئینی قرار دینے کے درپے ہے۔
اب آئین کو ہی معطل کر دیا گیا ہے۔ اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے سوال سے قطعٔ نظر بہرحال پرویز مشرف کی ناکامی محض پاکستان جیسی نحیف و کمزور ریاست کے وجود کو مزید خطرے سے دوچار کر دے گی۔ ایک مفہوم میں یہ بحث کہ آیا پرویز مشرف باقی رہ سکیں گے، ایک قدرے بنیادی سوال سے صرفِ نظر کرتی ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ خود پاکستان کے ساتھ پسِ پردہ کیا مسئلہ ہے؟ جنرل کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ کوئی نئے نہیں ہیں۔ بیشتر پاکستانی حکومتیں خواہ وہ جمہوری ہوں یا فوجی، اپنی پوری مدت میں قانونی جواز کے بحران سے دوچار رہی ہیں اور ہمیشہ ہی برطرفی کی حد پر لڑکھڑاتی رہی ہیں۔ یہ سمجھنا کہ ایسا کیوں ہے پاکستانیوں اور امریکیوں دونوں ہی کے لیے اہم اس لیے کہ یہ کلیدی ملک اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا تاآنکہ اس کے نظام میں پنہاں گہری خرابیوں کی جانب کسی طور توجہ نہ دی جائے۔ پاکستان کے مسائل برسوں پرانے ہیں بلکہ ۱۹۴۷ء میں اس کے قیام سے بھی پہلے کے ہیں۔ برصغیر میں ایک مسلم ملک کے قیام کا خیال یا نظریہ انیسویں صدی میں پیدا ہوا جب اس علاقے میں برطانیہ داخل ہوا۔ نئے حکمراں جنہوں نے اس مغل سلطنت کی جگہ لے لی جو اپنے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی، اپنے ساتھ عوامی نمائندگی کے لبرل نظریہ کو لے کر آئے۔ انھیں جلد ہی مقامی مقبولیت حاصل ہو گئی اور جنوبی ایشیا کے لوگ ۱۸۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں لندن سے خودمختاری کی درخواست کرنے لگے۔ مسلم اشراف کا ایک طبقہ جو سلطنتِ مغلیہ کے زیرِ سایہ ایک بڑی ہندو آبادی پر حکمرانی کر چکا تھا، نمائندہ حکومت کے قیام کے حوالے سے بہرحال خوف زدہ تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں ممتاز دانشور سرسید احمد خان کی قیادت میں اس گروہ نے خبردار کیا کہ تکثیری معاشرہ کی صورت میں حالات پلٹا کھائیں گے اور مقامی مسلمان مستقل طور پر پسماندگی سے دوچار ہو جائیں گے۔ برطانوی حکمرانوں نے ان دلائل کو اپنے لیے بہتر جانا، اس لیے کہ یہ تقسیم اور فتح کی ان کی حکمتِ عملی کے عین مطابق تھے اور ایک چھوٹے سے اپوزیشن گروپ کی سامراجی حکومت کے مفاد میں حوصلہ افزائی کی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں لندن اس بات کے لیے بادلِ نخواستہ تیار ہوا کہ وہ محدود اختیارات کے ساتھ مقامی حکومت کی شکلیں ترتیب دے۔ لیکن برطانیہ نے مسلمانوں کے خوف کو جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب کے قیام کے لیے جواز بنایا جن میں مسلمانوں کو صرف مسلمان اُمیدواروں کو ووٹ دینے کی اجازت ہو اور ہندوئوں کو صرف ہندو اُمیدواروں کو۔ اس نے ملک میں مذہبی تفرقہ انگیزی کو مزید ابتر صورتِ حال سے دوچار کر دیا اور اس نے بنیادی طور سے ایک غیر لبرل نظریہ کو تقویت بخشی کہ مذہب تنہا عوامی حکومت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد معاملات بہت خراب ہو گئے جب برطانیہ نے راج کے اندر ووٹنگ کے حقوق کا دائرہ وسیع کر دیا۔ انڈین نیشنل کانگریس جو کہ اس وقت بالادستی کا حامل اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی تنظیم تھی، نے مقامی مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشترکہ ہدف بنانے کی کوشش کی۔ مثلاً برطانیہ کے اس فیصلے کی مذمت جو اس نے سلطنتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے حوالے سے کیا تھا۔ اس اقدام کی وجہ سے جہاں کچھ مسلمان کانگریس میں شامل ہوئے، وہیں دوسرے بہت سارے مسلمانوں نے کانگریس سے الگ تھلگ ہی رہنا پسند کیا اور نئی تشکیل شدہ پارٹی مسلم لیگ کی طرف مائل ہو گئے جس کی قیادت محمد علی جناح کر رہے تھے۔ جناح صاحب ذاتی طور سے سیکولر تھے اور ان کی شخصیت عوام کے لیے انتہائی پُرکشش تھی۔ یہ برطانیہ کے تربیت یافتہ قانون داں تھے اور بے لچک شخصیت کے حامل تھے۔ جناح صاحب کی قیادت میں اور برطانیہ کی مدد سے مسلم لیگ نے خوب ترقی کی۔ برطانیہ کی نظرِ کرم کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے دوران کانگریس کی بیشتر اعلیٰ شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا مگر مسلم لیگ کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔ کانگریسی رہنمائوں کے برعکس جناح صاحب نے پارٹی کے اندر جمہوریت کو کبھی فروغ نہیں دیا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ جناح صاحب کا ایسا مزاج تھا ہی نہیں کہ وہ کسی مقابلے میں شرکت کے لیے آمادہ ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس جب موہن داس کرم چند گاندھی کی قیادت میں حقیقتاً وسیع البنیاد تنظیم بن رہی تھی تاکہ ہندوستان کے تمام طبقات کی نمائندگی کرے تو مسلم لیگ اس وقت صرف جناح صاحب کے آہنی ارادے سے بڑی مضبوطی کے ساتھ مربوط رہی۔ کانگریس نے متعدد اقتصادی و معاشرتی موضوعات پر اندرونی بحث و مکالمہ کی پُرجوش طریقے سے حوصلہ افزائی کی۔ اس سارے عمل میں کانگریس کے رہنمائوں اور کارکنان نے استدلال، گفتگو اور مفاہمت کی خو اپنے اندر پیدا کر لی جو ایک صحت مند جمہوریت کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور یہ تمام علامات کا مشاہدہ بھارت میں آج بھی اسی طرح کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں کے نہ تو رہنما اور نہ ہی شہری اتنے خوش قسمت ثابت ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد اس کمی کا بڑا ہی ڈرامائی اثر ظاہر ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تو اس وقت بہت تھوڑے لیگی ارکان تھے جنہیں جمہوری حکومت سے آشنائی تھی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ جن مٹھی بھر مسلمانوں کو حکمرانی کا تجربہ تھا تو وہ اس طرح تھا کہ انھوں نے انڈین سول سروس میں ملازمت کر کے برطانوی راج کی خدمت کی تھی اور یہ افسران جمہوری سیاست کی سخت کوشی والی فطرت کو انتہائی ناپسند کرتے تھے۔ یہ معذوری ان کے لیے فوری طور سے مسئلہ بنی۔ اگرچہ نوزائیدہ پاکستان میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، فرقہ واریت، علاقائیت اور طبقاتی امتیاز جیسے اور بھی مسائل تھے۔ گو کہ برطانوی راج کے اندر اسلام کا واسطہ بطور قومی جذبہ کافی موثر ثابت ہوتا تھا لیکن پاکستان جیسی سرزمین جہاں مختلف قسم کے غیرمعمولی اختلافات موجود تھے، سے سامراج کا انخلا انتظامی لحاظ سے حقیقتاً ان کی کوئی مدد نہ کر سکا۔ جیسا کہ پہلے سے اندازہ تھا کہ پاکستان کے بیورو کریٹس اور سیاست داں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے ناکارہ ثابت ہوں گے۔ ان کو صرف آئین وضع کرنے میں ۹ سال لگ گئے۔ انھوں نے بعض بہت ہی اہم ذمہ داریوں سے اپنی توجہ ہٹائے رکھی مثلاً تقسیم کے نتیجے میں جو کروڑوں پناہ گزینوں کا سیلاب آیا تھا، اس کی امداد سے غفلت برتی اور یوں بہت ہی تلخ قسم کے تنازعات کو ہوا دی۔ ۱۹۴۸ء میں اپنی وفات سے قبل جناح صاحب نے پاکستانیوں کو تاکید کی کہ حکومتی معاملات میں مذہب سے اپنی وابستگی کو نظرانداز کر دیں لیکن آئین تشکیل دینے والوں نے ان کی ہدایت کو نظرانداز کر دیا۔ پاکستان کو ایک سخت قسم کی اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جس کا ڈھانچہ ملک میں موجود چھ اہم نسلی گروہ اور ۹ لسانی گروہ سے ہرگز میل نہیں کھاتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئین فوراً ہی غیرموثر اور غیرمقبول ہو گیا اور ۱۹۵۸ء میں جب فوج نے اقتدار ہاتھ میں لیا تو آئین کو معطل کر دیا۔ یہ چار فوجی بغاوتوں میں پہلی بغاوت تھی۔ ہندوستانی فوج کے بالکل برعکس پاکستانی فوج نے ابتدا ہی سے سویلین کنٹرول میں رہنے سے انکار کر دیا اور طبقۂ اشرافیہ سے مربوط سول سروسز کے پیدا کردہ مزاج سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی فوج آگے کے ۴۹ برسوں میں ۳۲ سال تک حکومت کرتی رہی اور کسی متبادل صحتمند جمہوریت کی نشوونما میں موثر طور سے سدِراہ بنی رہی۔ فوجی حکومت کے بعد آنے والی کوئی بھی عوامی حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستان کی فوج ہندوستان کی فوج سے آخر اتنی مختلف کیوں ہے؟ جبکہ دونوں فوجیں ایک ہی برطانوی فوجی روایت سے پھوٹی ہیں۔ اس فرق کی مختلف توضیحات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے شروع ہی سے امن و امان کے قیام کے لیے اور سیاسی شورش کو دبانے کے لیے مسلح افواج پر بہت زیادہ انحصار کیا اور ان کو استعمال کیا۔ مثلاً سندھی اور ہندوستان سے آئے پناہ گزیں مہاجروں کے مابین ہونے والے تصادم کو کچلنے کے لیے (تجزیہ نگار نے معلوم نہیں یہ مثال کیوں پیش کی جبکہ حقیقت میں ابتدائی دنوں میں ایسے کسی تصادم کا وجود نہیں ہے۔ م ف س) ان تجربات نے پاکستان کے فوجی افسران پر اپنا گہرا اثر چھوڑا اور وہ ابتدائی برسوں میں امن و امان کی بحالی کے لیے بکثرت مداخلت کرتے رہے۔ ان کو بہت جلد یہ یقین ہو گیا کہ وہی تنہا ملک کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں اور انھیں ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ جمہوری رہنمائوں کو برطرف کر دیں اگر وہ امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے برطرفی کو ناگزیر سمجھیں۔ فرق کی دوسری وجہ کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی ریاست جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر راجہ ہندو تھا، بھارت اور پاکستان دونوں کے مابین وجۂ تنازعہ بن گئی اور دونوں ہی نے اس پر اپنا دعویٰ جمایا۔ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلے پر دو جنگیں لڑیں، ایک ۱۹۶۵ء میں دوسری ۱۹۹۹ء میں۔ اس تنازعہ کے ساتھ پاکستان نے بہت کامیابی سے کھیلا۔ اپنے سے عظیم تر اور بالاتر فوجی قوت کا حوالہ دے کر پاکستانی فوج نے اپنے لیے ہمیشہ کثیر دفاعی بجٹ مختص کرانے میں کامیاب ہوتی رہی جس کی وجہ سے فوج کی قوت و توانائی میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تیسرے فرق کا تعلق سرد جنگ سے ہے۔ بھارت نے آزادی کے بعد غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست نے جنوبی ایشیا میں سوویت یونین کے نفوذ سے متعلق خوف کو بڑی مہارت سے استعمال کیا تاکہ واشنگٹن سے اس کے تعلقات خوب مضبوط ہو سکیں۔
۱۹۵۴ء میں امریکا و پاکستان نے ایک دفاعی معاہدہ پر دستخط کیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر امریکی امداد حاصل ہوئی اور پاکستان کی فوج مزید مراعات یافتہ ہو گئی۔ اس کے برعکس ہمسایہ ملک بھارت میں فوج کو ابتدا ہی سے مختصر سہولیات پر رکھا گیا۔ حتیٰ کہ آزادی سے قبل جواہر لعل نہرو (جنہیں آئندہ بھارت کا پہلا وزیراعظم ہونا تھا) نے فوجی افسران کے لیے کمانڈ کے پورے سلسلے کی مطلق تعمیل کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کی ایک مثال جنگِ عظیم دوم سے دی جاسکتی ہے۔ مثلاً انھوں نے سامراجی فوج کے مقامی ارکان کا فوج سے فرار کی حمایت کی لیکن بعد میں دوبارہ اپنی فوج میں لینے سے اس دلیل کی بنا پر انکار کر دیا کہ انھوں نے فوج سے اپنے مقدس حلفِ وفاداری کو توڑا تھا لہٰذا وہ اعتماد کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ آزادی کے بعد کانگریس نہرو کی قیادت میں تقریباً پورے ملک میں مقبول ہو گئی اور اس نے فوراً ہی جمہوری آئین کا مسودہ تیار کر لیا۔ پھر اس نے لگے ہاتھ ملک میں عام انتخابات بھی کرائے۔ نتیجتاً ہندوستان کی سویلین حکومت جلد ہی ایک قانونی معیار پر پوری اتر گئی جبکہ پاکستانی حکومت ایسے کسی قانونی جواز سے ہمیشہ محروم رہی۔ اس طرح کی پیش رفت نے ہندوستانی فوج کو واضح اور متعین طور سے ماتحتی کی پوزیشن میں رکھا۔ ۱۹۵۹ء میں جب بھارتی فوج نے اپنی حدِ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے ملک کے شمال مشرق میں باغی گروہوں کے خلاف بہت زیادہ قوت کا استعمال کیا تو نہرو اور ان کی کابینہ نے فوراً مداخلت کی اور انھیں احکام کا پابند رہنے پر مجبور کیا نیز کمانڈروں کی سرزنش کی اور انھیں اپنی کارروائی کے طریقوں کو معتدل بنانے پر مجبور کیا۔ چنانچہ فوج پر مضبوط عوامی کنٹرول کی روایت نے بھارت کی سیاسی زندگی میں گہری جڑیں پکڑ لیں۔ جبکہ پاکستان میں اس دوران غیرعوامی حکومتوں، کمزور اداروں اور جارحانہ عزائم کے حامل فوجی افسران نے فوجی بالادستی کی راہ پر ملک کو دھکیلنے کی سازش کی۔ جبکہ فوج نے بارہا سفاک قوت اور جبر کے ذریعہ نظم و ضبط مسلط کرنے کی کوشش کی لہٰذا اسے قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں شاید ہی کبھی کامیابی ملی۔ چنانچہ پاکستان آج بھی وسیع پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کے مسئلے سے دوچار ہے اور اپنے ایک بڑے علاقے پر حکومتی گرفت قائم کرنے سے عاجز ہے۔ یہ ملک شدید قسم کے تعلیمی اور معاشرتی عدم توازن کا شکار ہے۔ جمہوری ادارے مسائل کو حکومتی ایجنڈے میں شامل کرانے سے قاصر معلوم ہوتے ہیں۔ اس المناک روایت کے پیشِ نظر مشرف کی کرسیٔ اقتدار پر اپنے آپ کو برقرار رکھنے کی کوشش ڈوبتے جہاز پر کرسیوں کی ازسرِ نو درستی معلوم ہوتی ہے۔ ملک کو ایسے طویل المیعاد اقدامات کی سخت ضرورت ہے جو حقیقی جمہوریت کے قیام میں معاون ہوں یعنی قانون پر مبنی حکومت اور ایک ایسی فوج جو بیرکوں تک محدود رہنے کی افادیت سے آشنا ہو۔ اعلیٰ ترین ترجیحات میں فوج کے اخراجات میں کمی، حکومتی معاملات میں فوجی عدم مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کی ضمانت شامل ہونی چاہیے۔ اس طرح کی تبدیلیوں کے بغیر آپ پاکستان سے صرف اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی تاریخ کو آئندہ کئی برسوں تک دہراتا رہے گا۔
نوٹ: گنگولی سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور انڈیانا یونیورسٹی میں امریکی و عالمی سکیورٹی شعبہ میں ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ: ۱۹ نومبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply