
پوری تاریخ میں عرب حکمرانوں نے اسلام دشمن طاقتوں سے اتحاد کرکے امت کے مفادات پر بارہا کاری ضرب لگائی ہے۔گذشتہ صدی کے آغاز میں مغرب کے ذریعہ مشرقِ وسطیٰ کی قومی ریاستوں میں تقسیم اور پھر عرب قبائلی سرداروں کو ان ریاستوں کی حکمرانی عطا کیے جانے کے عوض ان حکمرانوں نے امت کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ان کی برطانیہ کے ساتھ شراکت‘ فلسطین میں اسرائیل کے قیام میں ان کی مدد اور ۱۹۸۰ء میں اسلامی ایران کے خلاف مغرب کی پشت پناہی میں عراقی جارحیت میں ان کا بھرپور تعاون اور پھر اس کے بعد ۱۹۹۱ء میں عراق پر مغربی فوجی یلغار میں ان کا شامل ہونا یہ سب ایسے واقعات ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے امت کے خلاف غداری کے مرتکب ہونے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوری ہے۔ جب غنڈہ گرد صیہونی ٹولے مسلمانوں اور عیسائیوں کو فلسطین سے زبردستی باہر نکال رہے تھے تو ان عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا سوائے اس کے کہ چند شعلہ آور نعروں پر مبنی ایسے بیان داغے جو براہ راست لٹیروں کے فائدے میں جاتے تھے۔ مغرب کی تخلیق کردہ اردن اور سعودی عرب کی شہنشاہیتوں اور عرب شیوخ کی زیرحکومت خلیج فارس کے ساحل پر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو معرض وجود میں لانے کا مقصد ایک ہی تھا وہ یہ کہ مغربی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ ان عرب حکمرانوں کی تازہ ترین صدائے تشویش سنیوں کی زبوں حالی کے حوالے سے بلند ہورہی ہے اس لیے کہ ان کے خیال میں شیعوں کا عراق میں برسراقتدار آنا سنیوں کے لیے خطرات کا موجب ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایران کا پُرامن جوہری پروگرام اور تہران کا خطے میں ایک قوت کے طور پر ابھرنا ان کے لیے خطرناک ہے۔ یہ حکمراں اپنے اپنے دارالحکومت اور واشنگٹن کے مابین بکثرت آمدورفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اسلامی ایران کے خلاف ایک شیعہ مخالف محاذ قائم کیا جاسکے اور یوں شیعوںکو عراق میں برسراقتدار آنے سے روکا جاسکے‘ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ وہاں شیعہ اکثریت میں ہیں۔ جب گذشتہ جولائی اور اگست میں اسرائیل لبنان پر حملہ آور ہوا تو کم از کم تین عرب حکمرانوں نے یعنی دو عبداللہ (سعودی عرب اور اردون کے) اور مبارک نے حزب اللہ کی مذمت کی یہ الزام دیتے ہوئے کہ اس نے اسرائیل کو بلاضرورت مشتعل کیا جبکہ دوسرے یہ دل ہی دل میں امید لیے بیٹھے تھے کہ اس بہانے حزب اللہ کا مکمل طور سے خاتمہ ہوجائے گا۔ انہوں نے اسرائیل کی فوجی جارحیت کی زد میں آئے ہوئے لبنانی عوام کے آلام و مصائب کی قطعاً پروا نہیں کی۔ بحرینی دارالحکومت مناما میں خلیجی تعاون کونسل کی طرف سے گذشتہ ماہ کے اوائل میں منعقدہ اجلاس اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا ایک تازہ ترین اقدام تھا جہاں اس تنظیم کے رکن ممالک نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے لیے جوہری پروگرام کے حصول کی کوشش کریں گے اس لیے کہ بقول ان کے ایران کے جوہری پروگرام سے انہیں خطرہ لاحق ہوچکا ہے ایسی حالت میں کہ اب امریکا عراق میں کلی شکست کے دہانے پر ہے۔ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک (یعنی سعودی عربیہ‘ بحرین‘ کویت‘ اومان‘ قطر اور متحدہ عرب امارات) نے یہ بھی کہا کہ انہیں خطے میں تیزی سے ابھرتی ہوئی شیعہ قوت سے خوف اور تشویش لاحق ہے جس نے مبینہ طورسے عراق میں سنی مسلمانوں کے مفادات کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ ان کی یہ تشویش دل کو اس وقت مطمئن کرنے کے قابل ہوتی اگر یہ حقیقت موجود نہ ہوتی کہ ان ہی عرب حکمرانوں نے ۱۹۹۱ء میں امریکا کے اتحادی بن کر اسی عراق کی تباہی میں شریک ہونا پسند کیا جو ’’سنی‘‘ صدام حسین کے زیراقتدار تھا۔تقریباً تمام ہی عرب حکومتوں نے اپنے ایک بردار عرب ملک پر حملہ آور امریکیوں کے تعاون کے لیے اپنی اپنی فوجیں روانہ کیں۔ کچھ نے مثلاً سعودیوں نے تو اپنے ملک کا دروازہ امریکی فوجیوں کے لیے اس طرح کھول دیا کہ انہیں اسلام کے مرکز حجاز مقدس میں بھی گھس جانے میں کوئی باک نہ تھا اور اُس وقت انہیں عراق میں سنیوں کے آلام و مصائب کی ذرا پروا نہ ہوئی جو لاکھوں کی تعداد میں وہاں قتل کیے جارہے تھے۔ ستم رسیدہ فلسطینیوں کے ساتھ جو کہ تمام سنی ہیں اس وحشیانہ سلوک پر جو صہیونیوں نے ان کے ساتھ روا رکھی ہیں کبھی ان حکمرانوں کی تھوڑی سی بھی نیند حرام نہیں ہوئی۔ مغربی کنارہ اور غزہ عظیم قید خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں روزانہ فلسطینی بچوں اور خواتین کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے لیکن کسی کو ان عرب حکمرانوں کی جانب سے ان واقعات پر احتجاج کی کوئی سرگوشی بھی سنائی نہیں دیتی۔ ایک آدمی مجبور ہے کہ وہ سنی فلسطینیوں سے پورے استقلال کے ساتھ ایک صدمہ انگیز لاتعلقی اور عراقی سنیوں پر اچانک اظہار تشویش کا سبب دریافت کرے۔ انہوں نے کبھی اسرائیل کے دوسو سے زائد جوہری اسلحوں(بلکہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی) پر تو کبھی اظہار تشویش کی زحمت گوارا نہیں کی! ان کی سخت ترین تنقید صرف ایران کے لیے مخصوص ہے باوجود اس حقیقت کے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کی بارہا یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے خود ہی اس بازیگری کو آشکار کیا کہ گذشتہ اکتوبر جب امریکی وزیرِ خارجہ کونڈو لیزا رائس مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر تھیں تو انہوں نے ’’شیعہ طاقت‘‘ کے اُبھرنے اور ایران کے جوہری عزائم پر بڑا واویلا کیا جو واضح طور سے ریاض و قاہرہ کی تشویش میں اضافے کا باعث بنا۔ گویا کہ بہت ہی مناسب وقت پر دو عرب دارالحکومتوں سے خبردار کرنے والے بیانات جاری ہوئے۔ یہاں ایک عرب ماہرِ علوم سیاسیات کا بیان نقل کیا جاتا ہے: ’’ایران ایک مسئلہ ہے، عراق ایک مسئلہ ہے اور اس طرح کے متعدد مسائل ہیں‘‘۔ یہ بیان عبدالخالق عبداﷲ کا ہے جسے انہوں نے منانا میں ’’خلیج کی سلامتی‘‘ پر منعقد ہونے والے ڈائیلاگ کے بعد جاری کیا۔ علاوہ ازیں امارات یونیورسٹی، دبئی میں علم سیاسیات کے پروفیسر امریکا کی عراق میں ممکنہ شکست کے حوالے سے عرب دارالحکومتوں میں پائی جانے والی تشویش کا انکشاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مسئلہ واشنگٹن ہے۔ اس لمحہ واشنگٹن تذبذب اور عدم یقینیت کی کیفیت سے دوچار ہے‘‘۔ بحرینی وزیرِ خارجہ شیخ احمد بن محمد الخلیفہ تشدد کے عراق سے دوسرے ممالک تک پھیلنے کے امکان کو اور بھی متعین طریقے سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ AFP کی ۱۳ دسمبر کی رپورٹ سے واضح ہے: ’’صورتِ حال واضح طور سے پورے خطے کے لیے خطرناک ہے‘‘۔ وہ مزید فرماتے ہیں: ’’ایک طویل اور خونریز خانہ جنگی نیز نسلی اور فرقہ وارانہ خطوط پر ملک کی تقسیم کی بات ہو رہی ہے‘‘۔ ان حکمرانوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ خود اپنا جوہری پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں۔ یہ اعلان لائقِ مسرت ہوتا اگر یہ کسی بھیانک مقصد کے لیے شروع نہ کیا گیا ہوتا اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ اس کا آغاز امریکا کی شہ پر نہ ہوتا۔ یہ باتیں واضح کر رہی ہیں کہ جہاں امریکا نے اسلامی ایران کے خلاف شرانگیز مہم شروع کر رکھی ہے، وہیں وہ عرب ممالک کو جوہری پروگرام شروع کرنے پر تاکید کر رہا ہے۔ عرب میں سے بیشتر ممالک تو سائیکل کے پارٹس جوڑنے تک کے اہل نہیں ہیں کجا کہ وہ جوہری توانائی جیسی مہارت کی حامل جدید ترین ٹیکنالوجی کے درپے حصول ہوں۔ یہ پالیسیاں ان کے حقیقی آقا واشنگٹن کی جانب سے املا کرائی گئی ہیں۔ سب سے مضحکہ خیز دعوے سعودی عرب کی جانب سے سامنے آئے، جس نے عراق میں شیعوں سے جنگ کے لیے سنی تحریکِ بغاوت کو مضبوط کرنے کی دھمکی دی ہے۔ یہ لوگ امریکا اور اسلامی ایران کے مابین کسی رابطے کے بھی مخالف ہیں۔ اگرچہ اس بات کا عنقریب کوئی امکان نہیں ہے کہ تہران کسی ایسی امریکی جارحیت کی زد میں آئے جو ان کے لیے مسرت انگیز ہو لیکن سعودیوں کی یہ مخالفت اسلامی ریاست کے خلاف ان کی گہری نفرت کو آشکار کرتی ہے۔ عراق میں سنی تحریکِ بغاوت کو ہوا دینے کی سعودی دھمکی جوشِ غضب میں خود اپنے ہی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ بہرحال باغی عناصر سعودی حکومت کے بھی مخالف ہیں‘ علاوہ ازیں یہ امریکیوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گویا یہ حکمراں اپنے لیے اس میں بہت زیادہ خرابی نہیں سمجھ رہے ہیں کہ امریکا ایسی معتدل (یعنی امریکا کی مکمل فرمانبردار) حکومتوں کا اتحاد بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو شام اور ایران سے لڑ سکے اور اس طرح کے اتحاد کو امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل ہو گی۔
اسلام اور مسلمانوں سے غداری کا اس سے عظیم تر ثبوت ممکن نہیں ہے۔ عرب دارالحکومتوں میں یہ شور شرابے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ حکومتیں ایک شدید خوف و دہشت کی گرفت میں ہیں۔ یہ امریکا کو تاکید کر رہی ہیں کہ وہ عراق سے اپنی فوج واپس نہ بلائے اس لیے کہ یہ عمل خانہ جنگی پر منتج ہو گا۔ شاید یہ حکومتیں سمجھ نہیں رہی ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتی ہیں کہ خانہ جنگی جیسی صورتحال امریکی تسلط کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ ایک بار اگر یہ افواج نکل گئیں تو مختلف نسلوں اور فرقوں کے حامل عراقیوں کو اپنے مسائل ازخود شناخت کرنے اور حل کرنے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔ انہیں نہ سعودیوں کی ضرورت ہے اور نہ کسی اور بیرونی قوت کی کہ وہ انہیں بتائیں کہ وہ باہم مل کر کیسے رہیں۔ بہرحال ایک اندازے کے مطابق اس وقت عراق میں ساٹھ لاکھ شادی شدہ جوڑے ہیں اور ان میں کم از کم ایک چوتھائی تعداد ایسی ہے جو شیعہ سنی ازدواجی بندھن پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو عراقی تنگ نظر سعودیوں کے مقابلے میں زیادہ متحمل اور روادار ثابت ہوں گے۔ وہ اپنے مسائل ازخود شناخت کرنے اور حل کرنے کے پوری طرح اہل ہیں، سعودی اور دیگر عرب حکومتوں کے کسی شرانگیز مدد کے بغیر ہی۔ عراقی جس بات کے سب سے زیادہ خواہشمند ہیں، وہ یہ ہے کہ انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے۔ بیرونی دنیا اگر جلد اس نکتے کا ادراک کر کے اپنے رویے کو اس سے ہم آہنگ کر لیتی ہے تو یہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ ہر کوئی ان کے معاملے میں شریک ہو۔
(www.muslimedia.com)
Leave a Reply