
تیل کی دولت سے مالامال ، خادم الحرمین کے منصب پر فائز سعودی شاہی خاندان گزشتہ چند سالوں سے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم اورتعمیری کردارکے ساتھ سامنے آیا ہے ۔خطے میں ہونے والے ان اہم سیاسی واقعات میں عراق میں امریکی مداخلت اور سعودیہ کی اس حملے کی حمایت، جس کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کے دیر پا حل کے لئے بنیادوں کی فراہمی قرار دیا گیا اور اپریل ۲۰۰۷ء میں منعقدہ ریاض سربراہی کانفرنس ہیں۔ یہ کانفرنس شاہ عبداللہ کی کوششوں کے نتیجہ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا مقصد عرب اسرائیل امن معاہدے کو دوبارہ رو بہ عمل لانا تھا۔اسی طرح افغان حکومت طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات،پاکستانی حکمرانوں اور قائدین حزب اختلاف کے درمیان ڈیل ،اور اس جیسے دیگر اہم خارجی مسائل میں سعودی حکومت کا کردار کسی سے پنہاں نہیں۔
خارجی معاملات میں تعمیری کردار کے ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں نے ملک کے اندرونی معاملات میں بھی اہم پیش رفت کی۔۱۹۳۲ میں سعودی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی شاہی خاندان عرب ریاست کو ثقافتی طور پر متحد ریاست کے طور پر دیکھتا ہے۔جہاں کی کثیر آبادی بنیاد پرست ذہنیت کی حامل ہے۔اس کے برعکس عرب جزیرہ میں بسنے والے بعض قبائل اور فرقے عرب شاہوں کی ہم آہنگی کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی انفرادی ثقافت برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔سعودی عرب میں ثقافتی ہم آہنگی کے حوالے سے شاہی حکومت میں دو طرح کی افکار پائی جاتی ہیں ۔ایک طرف وہ لوگ ہیں جو طاقت کے ذریعہ حکومتی نظریات اور شریعت کو تمام جزیرہ پر لاگو کرنے کے حامی ہیں ،جبکہ اس کے برعکس دوسری سوچ کے حامل شاہی خاندان کے افراد تمام مکاتب فکر کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے انہیں بھی اپنے نظریات کے ساتھ جائز مقام دینے کے حامی ہیں۔
شاہ عبد اللہ جو شاہ فہد کی رحلت کے بعد ۲۰۰۵ء میں بادشاہ کے عہدے پر فائز ہوئے، اسی دوسرے مکتب فکر کے حامل افراد میں سے معلوم ہوتے ہیں۔ شاہ عبد اللہ ،شاہ فیصل کی مانند اپنے ملک میں موجود ثقافتی اورمذہبی تضادات کو تسلیم کرتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ مشرق میں آباد عشر کے شیعہ قبائل ،جنوب مغرب میں آباد عاسر قبائل، نجران اور جیزان کے اسماعیلی قبائل اور حجاز کے سنی قبائل سعودی حکومت کے مذہبی ،سیاسی اور ثقافتی نظریات سے تضاد رکھتے ہیں اور بحیثیت انسان ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی اس ریاست میں اپنے نظریات کے ساتھ جائز مقام کے حامل ہوں۔
اگر سعودی عرب کے ماضی پر نگاہ کی جائے تو شاہ فیصل کے قتل کے پس پردہ محرکات میں جدیدت سے وابستگی کو بھی ایک اہم عامل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔شاہ فیصل کے قتل کے بعد طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات و ثقافت کو لاگو کرنے والا گروہ حکومت پر قابض ہوا جس کو مذہبی شدت پسند علما ء کی پشت پناہی حاصل رہی ۔ شاہ عبداللہ کو بھی شاہ فیصل کی مانند سیاسی اصلاحات کے لئے ۲۲ ہزار نفوس پر مشتمل شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے مختلف نوعیت کی رکاوٹیں درپیش ہیں ۔شاہ عبداللہ ایک ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہیں جہاںکئی قسم کے عوامل ان کے فیصلوں پر اثر اندازہوتے ہیں ۔جن میں شاہی ممبران کی پشت پناہی کے حامل سلفی علماء کے فتاویٰ اور احکامات پیش پیش ہیں۔
۲۰۰۱ء میںشروع ہونے والی سعودی عرب کے پیشہ ور تعلیم یافتہ افراد کی اصلاحی تحریک بھی اسی صورتحال کی نذر ہوئی۔ ان افراد کا مطالبہ تھا کہ ملک میں بنیادی انسانی اور شہری حقوق کو بحال کیا جائے،حکومت کا احتساب ہونا چاہیے، بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں،ریاستی وسائل کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے،مجلس اعلی برائے قانون سازی کا قیام عمل میں لایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومتی اختیارات کے حامل مذہبی اداروں کو قانون کا پابند بنایا جائے۔
شاہی حکومت کا ان مطالبات کے خلاف ردعمل بہت عجیب تھا۔شاہ عبد اللہ اصلاحی تحریک کے افراد سے ۲۲ جنوری ۲۰۰۳ء کو اپنے ریاض کے شاہی محل میں ملے جبکہ وہ ولی عہد تھے۔۱۶ مارچ ۲۰۰۴ء کو وزیر داخلہ شہزادہ نائف نے اس تحریک کے گیارہ سرکردہ افراد کو گرفتار کروا دیا۔ ان میں سے تین افراد ۲۰۰۵ء تک جیل میں رہے جنہیں شاہ عبد اللہ نے بادشاہ بننے کے بعد رہا کیا۔ شاہ عبد اللہ کی بادشاہت کے دوسرے سال یعنی۲۰۰۷ء کے ابتدا میں ایک موقع پرجبکہ شاہی کابینہ کی تشکیل کا مسئلہ زیر بحث تھا، یہ توقع کی جارہی تھی کہ شاہ عبداللہ وسیع تر قومی مفاد میں ایک ایسی کابینہ تشکیل دیں گے جو سعودیہ کے تمام تر طبقات کی نمائندگی کرتی ہو۔ شُنید تو یہاں تک تھی کہ شاید شاہ عبداللہ شیعہ قبائل میں سے بھی کسی فرد کو کابینہ میں لے لیں۔ تاہم مارچ ۲۰۰۷ء میں شاہ عبداللہ کے اس بیان سے کہ ابھی تبدیلی کا وقت نہیں آیا، اصلاحی حلقوں کی تمام تر امیدوں پر پانی پھر گیا۔ وقت کی نزاکت کا یہ معاملہ فقط کابینہ کی تشکیل تک ہی محدود نہیں۔ سعودی عدلیہ ۱۹۸۳ء سے شیخ صالح الھیدان کی سر کردگی میں سلفی علما کے زیر اثر ہے ۔عدلیہ کے ۷۰۰ جج اسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور وزیر انصاف اس فرقہ کے اہم ترین ارکان میں سے ایک ہیں۔تمام تر عدالتی فیصلے قرآن و سنت کی اس تشریح کے مطابق کیے جاتے ہیں جو اس مسلک کے اسلاف نے بیان کئے ہیں۔یاد رہے کہ سلفی فرقہ اٹھارویں صدی عیسوی کے ایک معروف فقیہ محمدبن عبدالوہاب کی تشریحِ دین کو ہی حقیقی اسلام تصور کرتا ہے اور انہی کے نام کی نسبت سے ان کے مقتدی ’’وہابی‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
سلفی علماء نہ صرف عدلیہ پر مکمل تصرف رکھتے ہیں بلکہ سینئر علما کی کونسل،دارالافتاء،وزارتِ مذہبی امور، اوقاف اور کمیٹی برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی ان کے اثرات سے مبرا نہیں۔ اسی طرح مُطَوَّع (مذہبی پولیس) تعلیمی ادارے، اکثر یونیورسٹیاں، نصاب، وزارت حج و عمرہ،کسی حد تک وزارت خزانہ،وزارت ابلاغیات ،اور فوج بھی ان علما کی تبلیغات کے بالواسطہ یا بلاواسطہ زیر اثر ہے۔
شاہ عبد اللہ نے جزیرہ عرب میں آباد مختلف اقوام اور قبائل کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی موافقت کے مظاہرہ کے لئے ۲۰۰۳ء میں ایک قومی مذاکرے کا انعقاد کیا جس میں سلفی، شیعہ، اسماعیلی اور صوفی علما کو بند کمرہ مباحثے کی دعوت دی گئی۔ سلفی اسٹیبلشمنٹ نے اس قومی مذاکرے کو تسلیم نہ کیا، جس کے باعث عام زندگی میں اس مذاکرے کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کئے جا سکے۔سعودی عدالت میں آج بھی کوئی شیعہ گواہی نہیں دے سکتا،شیعہ قصاب کا پیشہ اختیار نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا کاٹا ہوا گوشت حلال تصور نہیں کیا جاتا۔نہ ہی کسی سنی سے نکاح کر سکتا ہے جبکہ معاشرے میں ان پابندیوں اور نفرتوں کی حدیں اس سے بھی زیادہ گہرائی کی حامل ہیں۔
بنیادی انسانی اور شہری حقوق کا حصول اور وسائل کی منصفانہ تقسیم، تیل سے مالا مال شیعہ آبادیوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ تاحال سعودی شیعہ قبائل بات چیت کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔
اگرچہ سعودی حکومت کے لئے حقوق کے مطالبے سے متعلق یہ خطرہ تاحال نظریاتی نوعیت کا ہے۔ تاہم ایرانی انقلاب، لبنان میں حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف کامیابیاں اور عراق میں جمہوریت کے لئے علما کا کردار عرب نوجوانوں کے لیے ایک ترغیب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے اجداد کی مانند دبے رہنے کی پالیسی کے برعکس احمدی نژاد اور حسن نصراللہ کی بے باک اور نڈر قیادت کو آئیڈیالائز کرتے ہیں۔ جو ان عرب قائدین کی آوازوں میں وہ قوت و طاقت ہے جس کے بل بوتے پر وہ عرب نوجوانوں کو بلاتمیز فرقہ ومسلک متحرک کر سکیں۔ آل سعود کے بعض سرکردگان بوجوہ شیعت کو خطہ کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سعودیہ کے شیعہ علما اسلام کی سلفی تشریح کو نہ صرف خطہ بلکہ تمام مسلم ممالک اور دنیا کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں۔وہ دنیا کو یہ بتاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ دنیا میں ہونے والی تمام تر پرتشدد کاروائیوں کا منبع اور محور سلفی تعلیمات ہیں۔
ان تمام اندرونی و بیرونی خطرات کے باوصف شاہ عبداللہ کی خارجہ پالیسی واقعتا لائق تحسین ہے۔جس کا مظاہر ہ شاہ فیصل کے دور سے لے کر آج تک نہیں دیکھا گیا۔ حقیقتاً شاہ عبد اللہ نے عالمی سطح پر اپنی پہچان ایک متناسب رہنما کے طور پر کرائی ہے۔ خادم الحرمین خطے میں اپنے کردار کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔شاہ عبداللہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تیل کی دولت اور خادم الحرمین کا منصب کسی بھی صورت ریاست میں پائیدار امن کا ضامن نہیں۔وہ اس حقیقت کا بھی ادراک رکھتے ہیں کہ جب تک ملکی مسائل کو احسن طریقہ سے حل نہ کیا جائے، اس وقت تک سعودیہ کی خارجہ پالیسی کو عالمی سطح پر جائز مقام نہیں دلایا جا سکتا۔
{}{}{}
Leave a Reply