ایسا کوئی بھی دعویٰ کہ ہم فی زمانہ ایک اور طرح کے فاشزم (ڈیجیٹل فاشزم) سے نبرد آزما ہیں بہت جلد یہ کہتے ہوئے نظر انداز اور مسترد کردیا جائے گا کہ اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ پیش کیا جارہا ہے۔
حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دنیا بھر میں ایسے بڑے کاروباری ادارے موجود ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر محض یہ راگ الاپتے ہوئے کماتے ہیں کہ فرد کی حیثیت سے بالخصوص اور جمہوری معاشرہ ہونے کے ناطے بالعموم ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں بڑے پیمانے پر مواد اور مصنوعی ذہانت کی مرہون منت ہیں اور یہ کہ ان کے بغیر ہمارے لیے ڈھنگ سے جینا آسان نہ ہوگا۔
اس وقت ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جمہوریت، جیسی کہ ہمارے سامنے ہے، معلومات کے سیلاب اور مصنوعی ذہانت کے سامنے اپنی بقاء یقینی بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس وقت سوچ طرزِ فکر و عمل پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے والے مختلف طریقے مستعمل اور نتیجہ خیز ہیں۔
ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، آج کی خفیہ ایجنسیوں اور بگ ڈیٹا کمپنیوں کے پاس ہمارے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات ہیں جو ماضی میں مطلق العنان حکومتوں کو درکار ہوا کرتی تھیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ان معلومات کو کسی نہ کسی مرحلے میں ہمارے خلاف بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔
ڈیجیٹل معاشروں کی خصوصیات
میں نے ڈیجیٹل فاشزم کی بات کی ہے۔ میرے اس دعوے کو اگر کوئی شک کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے آج کے ڈیجیٹل معاشروں کی درج ذیل خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
… بڑے پیمانے پر نگرانی
… انسانوں پر غیر اخلاقی نوعیت کے تجربات
… سوشل انجینئرنگ
… عوام کو ایک سانچے میں ڈھالنے کا عمل
… پروپیگنڈا اور سینسر شپ
… ’’فلاحی‘‘ آمریت
… غیر معمولی حد تک متوقع پولیسنگ
… لوگوں کی الگ الگ قدر و قیمت کا تعین
… صورتِ حال کے مطابق انسانی حقوق کا بدلتا تصور
… ’’قتل بر بنائے رحم‘‘
ہم نے ڈیجیٹل معاشروں کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہ سب کی سب ماضی کے مطلق العنان حکمرانوں کے خوابوں کے سوا کچھ نہ تھیں۔ وہ ایسی ہی ’’آئیڈیل‘‘ صورتِ حال کو اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے عمدگی سے بروئے کار لاتے تھے۔
طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب جبر اور تلخی سے کام لینے کے بجائے نرمی اور مٹھاس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم نئی، ڈیجیٹل مطلق العنانیت سے دوچار ہیں۔
جمہوریت خطرے میں
ماضی میں چند ممالک کے مخصوص حالات مطلق العنان حکمرانی کی راہ ہموار کیا کرتے تھے۔ فی زمانہ ڈیجیٹل انقلاب کے ہاتھوں وہ حالات پوری دنیا پر محیط ہیں۔ اگر ہم جمہوریت، انسانی حقوق اور انسان کے بحیثیت انسان احترام کو بچانا چاہتے ہیں تو ایمرجنسی آپریشن لازم ہے۔ ڈیجیٹل فاشزم کے لیے جواز پیدا کرنے کی غرض سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی، سائبر حملوں کی دھمکیوں اور ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی مدد سے غیر معمولی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں شہری آزادیوں پر قدغن لگ رہی ہے۔ عوام کے اختیارات میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں خصوصی قوانین وضع کیے گئے۔ جن کا بنیادی مقصد نگرانی تھا تاہم ان قوانین کی مدد سے لوگوں کے حقوق کو محدود کردیا گیا ہے۔ ان کی بہت سی آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں۔ آج امریکا میں سیکیورٹی اور نگرانی کے نام پر نافذ کیے گئے قوانین کی مدد سے عوام کو بہت سے معاملات میں غیر معمولی حد بندی کا سامنا ہے۔ اور معاملہ امریکا تک محدود نہیں رہا۔ آج دنیا بھر میں اربوں انسانوں کی شدید نگرانی کا نظام رو بہ عمل ہے۔
بیشتر افراد کو اب تک یہ اندازہ ہی نہیں کہ یہ سب کچھ کس حد تک پھیلا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں ان کی زندگی پر اس کے کتنے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کمپیوٹرز، اسمارٹ فونز، اسمارٹ ٹی وی اور اسمارٹ کارز کو ہیک کرنے کے لیے خفیہ اداروں کو اربوں ڈالر کے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں۔ دنیا بھر سے روزانہ لاکھوں گیگا بائٹس کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے۔ جمہوری حکومتیں بھی یہ سب کچھ کر رہی ہیں اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیا جاسکے۔ ڈیجیٹل ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی پسند و ناپسند پر اثر انداز ہوا جارہا ہے۔ اب ہم ’’فلاحی‘‘ آمریت کے لیے محض ایک آلے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ریاستی مشینری اور بڑے کاروباری ادارے مل کر طے کرتے ہیں کہ ہمارے کے لیے اچھا اور برا کیا ہے۔
شہریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے، ان کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے اور اس ڈیٹا کے تجزیے کی بنیاد پر طے کیا جارہا ہے کہ معاشرے اور معیشت کو کیا رخ اور رنگ دینا ہے۔ ہر شخص کا ایک مکمل پروفائل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگوں کے مزاج اور عادات کی بنیاد پر طے کیا جارہا ہے کہ انہیں کیا کھانا پینا چاہیے، کیا پہننا چاہیے، کیا پڑھنا چاہیے، کس طور اپنا فارغ وقت گزارنا چاہیے اور زندگی کے بارے میں ان کی مجموعی سوچ کیا ہونی چاہیے۔ ہر پروفائل میں ہزاروں خصوصی نکات شامل کیے جاسکتے ہیں۔
استحصالی رویہ
کمپیوٹرز اور اسمارٹ فونز ہیکنگ کے ذریعے ہمارا جو ڈیٹا لیا جارہا ہے اس کے تجزیے کی بنیاد پر ہماری شخصیت کی تشکیل نو کا مرحلہ شروع کیا جاچکا ہے۔ ہمارے ورچوئل سیلف پر مختلف تجربات کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں کیا سوچنا چاہیے، ہماری طرزِ عمل کیا ہونی چاہیے اور ہمیں کیسے ماحول میں زندگی بسر کرنی چاہیے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ big nudging یا neuro-marketing کہلانے والی تکنیک کے ذریعے ہمارا ذاتی مواد کسٹمائزڈ انفارمیشن کی تیاری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ کسی بھی معاملے میں ہمارے ارتکاز، جذبات، خیالات، فیصلوں اور طرزِ عمل کو اس حد تک طے کردیا جائے کہ ہمارا اپنے ہی وجود پر اختیار برائے نام رہ جائے۔
ایک طرف تو صارف کی حیثیت سے کسی بھی شخص کی پسند و ناپسند پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف ووٹرز کی حیثیت سے پائی جانے والی سوچ پر بھی اثرات مرتب کیے جارہے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد انتخابات میں ووٹرز کی مجموعی رائے پر اثر انداز ہوکر مقتدر قوتوں کی پسند کے انتخابی نتائج حاصل کرنا ہے۔
عوام کی نگرانی کا نظام اگر غلط ہاتھوں میں چلا جائے اور معاشرے کی عمومی فلاح کا مقصد پس پشت ڈال کر صرف مذموم مقاصد کو ذہن نشین رکھا جائے تو معاشرے پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اعلانیہ یا ڈھکی چھپی مطلق العنان حکمرانی والی ریاست میں یہ ڈیٹا شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ان کی سوچ کو خطرناک حد تک تبدیل کرنے کے لیے آزادانہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں ان کی سوچ کو بدلنے میں بھی نگرانی کا یہ نظام اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسے میں جمہوری حقوق کے باضابطہ استعمال سے قبل ہی شہریوں پر متعدد پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، انہیں بہت سی باتوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
برطانوی خفیہ ادارہ Karma Police کے زیر عنوان ایک پروگرام چلاتا ہے جو دراصل یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کس طرف جارہا ہے۔ اس پروگرام کا تجربہ اس وقت چین میں بھی کیا جارہا ہے۔ یہ پروگرام ایک مکمل مطلق العنان معاشرے یا پولیس اسٹیٹ کی تشکیل کے لیے بھی عمدگی سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
Karma Police کے تحت the Citizen Score یہ طے کرے گا کہ اشیاء و خدمات اور بنیادی سہولتوں تک عوام کی رسائی کی سطح کیا ہے۔ عوام کو ان کے مجموعی رویے کی بنیاد پر انعام یا سزا ملے گی۔ حکومت پر تنقید سے متعلق خبریں، تجزیے اور مضامین پڑھنے یا غلط سماجی تعلقات کی بنیاد پر آپ کو منفی مارکس ملیں گے۔
ڈیجیٹل مطلق العنانیت کا سدِ باب
معاشرے کو مکمل ڈیجیٹل مطلق العنانیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں چند باتیں یقینی بنانا ہوں گی۔ مثلاً
٭ طاقتور سائبر انفرا اسٹرکچر کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کے لیے ایک جامع جمہوری فریم ورک
٭ نظم و ضبط سے متعلق ٹیمیں بناکر مختلف النوع پس منظر کا علمی انداز سے معیاری استعمال
٭ شفافیت، انسانی حقوق اور انسانی احترام یقینی بنانے سے متعلق اخلاقی اصولوں کا جامع اور کارگر بنیادی ڈھانچا
٭ سائبر سکیورٹی (عدم ارتکاز کے ذریعے)
٭ معلومات کی سطح پر حق خود ارادیت (پرسنل ڈیٹا اسٹور کی مدد سے)
اگر ہم فوری طور پر متوجہ نہ ہوئے تو ڈیجیٹل انقلاب کی مدد سے عالمگیر سطح پر فاشزم کو پنپنے اور ہماری زندگیاں کنٹرول کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اس معاملے میں ہم جس قدر تاخیر کے مرتکب ہوں گے، معاملات کو درست کرنا ہمارے لیے اسی قدر دشوار ہو جائے گا۔ یومیہ بنیادی ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے۔ جدید ترین طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی پسند و ناپسند اور مختلف امور میں ان کی رائے کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری طرزِ فکر و عمل پر اثر انداز ہونے کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں اس کا مدار اس بات پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔
ٹیکنالوجیکل مطلق العنانیت بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کے عوام کو سوچنا ہوگا اور اپنی سوچ کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی پسند و ناپسند کا سانچا تیار کرنا ہوگا۔
یاد رکھیے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تمام جغرافیائی سرحدوں کو عملاً ختم کردیا ہے۔ اب پوری دنیا کو کسی ایک مقام پر بیٹھ کر بھی کنٹرول کرنے کا مرحلہ آچکا ہے۔ مطلق العنانیت کے لیے یہ ماحول انتہائی سازگار ہے۔
پریشان کن عالمی واقعات
دنیا بھر میں رونما ہونے والے متعدد واقعات انتہائی پریشان کن ہیں۔ حالیہ جرمن انتخاب میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کا ابھرنا انتہائی حیرت انگیز امر تھا۔ ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی گئی۔
اسپین، ہنگری، پولینڈ اور ترکی بہت حد تک مطلق العنانیت کی راہ پر گامزن ہیں۔ فرانس، برطانیہ، امریکا، جاپان، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ اور نیدر لینڈز (ہالینڈ) پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کے چند سیاست دانوں نے انسانی حقوق پر سوال کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو کے حقوق اور اختیارات زیادہ سے زیادہ محدود کردیے جائیں۔ ان ممالک میں بہت سے لوگ جرمن آمر ایڈولف ہٹلر کی کھل کر حمایت کرتے پائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ ہم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جو تہذیبی ڈھانچا کھڑا کیا ہے وہ خطرے میں ہے۔ پورے کے پورے معاشرے پٹڑی سے اترنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ شخصی آزادی کا تصور دھندلاتا جارہا ہے۔ ایسے میں فرد کو اپنے حقوق کے لیے اٹھنا پڑے گا۔
ہمیں مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہونا پڑے گا اور پرانی سوچ کو ترک کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ عوام کو زیادہ سے زیادہ باشعور کرنے کے لیے انہیں اظہار رائے کی تحریک دینا پڑے گی اور مستقبل کے حوالے سے مثبت تصورات پیدا کرنا ہوں گے۔ پرانی قوتوں کا فرض ہے کہ تبدیلی کو واقع ہونے دیں۔ معاشرے کو نئے سرے سے دریافت یا ایجاد کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ایک بات طے کرنی ہے وہ یہ کہ فاشزم کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جائے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Digital Fascism Rising?”. (“theglobalist.com”. October 20, 2017)
Leave a Reply