
مراکش نے یکم مئی ۲۰۱۸ء کو ایران سے سفارتی تعلقات ختم کردیے۔ مراکش نے ایران پر ’’مغربی صحارا‘‘ کے تنازع میں مداخلت کا الزا م عائد کیا۔ یکم مئی کو ہی مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریتا نے تہران میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی اور ایرانی مداخلت کے حوالے سے خفیہ دستاویز پیش کی، جس میں الزام عائد کیاگیا کہ ایران کے الجیریامیں موجود سفارت خانے کی سرپرستی میں حزب اللہ کے ذریعے ’’مغربی صحارا‘‘ میں موجود علیحدگی پسند گروپ ’’پولیساریو فرنٹ‘‘ کی مدد کی جارہی ہے۔
اپنے دورے کے دوران ناصر بورتیا نے انکشاف کیا کہ الجیریا میں موجود شہواری مہاجر کیمپ میں حزب اللہ کے اعلیٰ حکام اور پولیساریو فرنٹ کے نمائندوں کے درمیان ایران کے زیر نگرانی کئی ملاقاتیں کرائی گئی ہیں۔ حزب اللہ نے پولیساریو فرنٹ کے کارکنان کو عسکری تربیت دینے کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی فراہم کیا، جس میں ٹرک پر نصب اینٹی ایئر کرافٹ میزائل بھی شامل ہیں۔ مراکش کے ایران، حزب اللہ اور الجیریا کے خلاف حالیہ الزامات سے نہ صرف تمام فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس سے مغربی صحارا کے تنازعے کے پرامن حل کا امکان بھی ختم ہوگیا۔ ۴۳ برس پرانا تنازع مراکش کو بر ی طرح متاثر کررہا ہے۔ مراکش الجیریا کے حمایت یافتہ پولیساریو فرنٹ کے بجائے مغربی صحارا کی خودمختاری کے لیے اپنے منصوبے کا حامی ہے۔پولیساریو فرنٹ ایک غیر ریاستی مسلح گروہ ہے، جو مغربی صحارا میں ایک آزاد ریاست چاہتا ہے۔
رواں برس اپریل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار دار نمبر۲۴۱۴ کے ذریعے ایم آئی این یو آر ایس او(اقوام متحدہ کی امن فوج جو۱۹۹۱ ء کے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہے) کے مینڈیٹ میں توسیع کرتے ہوئے مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا،اس کے ساتھ ہی قرارداد میں پولیساریو فرنٹ سے بفرزون خالی کرنے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے اقدام روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مسلح گروپ نے حال ہی میں بفرزون میں حملہ کیاتھا۔ مراکش کے ایران اور حزب اللہ کے خلاف حالیہ الزامات سے تنازع کے جلد حل ہونے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ مغربی صحارا کے معاملے پر مراکش اور ایران کے درمیان کشیدگی کا آغاز مارچ۲۰۱۷ء میں ہوا، جب مراکش کے حکام نے کاسا بلانکا سے حزب اللہ کے مالی معاملات سے منسلک قاسم تاج الدین کو گرفتار کرلیا۔ قاسم بیروت سے گنی بساؤ جارہے تھے، امریکی وزارت خزانہ کے مطابق قاسم نے حزب اللہ کے لیے دس لاکھ ڈالرتک نقد رقم فراہم کی۔ قاسم کو گرفتاری کے بعد امریکا کے حوالے کردیاگیا، جہاں اسے دہشتگردی کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے۔ قاسم کی گرفتاری کے بعد حزب اللہ اور مراکش کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے۔ مبصرین کے مطابق ان کشیدہ حالات نے ہی حزب اللہ اور پولیساریو فرنٹ کو قریب کردیا۔ دونوں گروپ طویل عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ایک دوسرے کے تجربا ت سے سیکھتے ہیں، دونوں ہی غیر ریاستی گروپ ہیں اور بیرونی جارحیت کے خلاف مسلح سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں،ان دونوں گروہوں کے براہ راست تعلقات کی ابتدا، ۲۰۱۶ء کے آغاز میں ہوئی جب حزب اللہ نے لبنان میں مغربی صحارا کے لوگوں کی مدد کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔
حزب اللہ پر الزام لگانے کے ساتھ مراکش نے ایران کے الجیریا میں سفارتحانے کو مغربی صحارا میں عدم استحکام کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔ناصر بوریتا نے الجیریا میں ایران کے ثقافتی اتاشی عامر موسوی پراسلحے کی اسمگلنگ میں حزب اللہ کی مدد کرنے کا الزام لگایا، یہ اسلحہ پولیساریو فرنٹ کو فراہم کیا جارہا تھا۔موسوی ایران کے سابق نائب وزیر دفاع اور ایرانی اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔رواں برس کے آغاز میں ہی موسوی الجیریا کی سابق خاتون اول آسیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے تنازعات میں گھر گئے تھے، ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لیے چلنے والی ایرانی تحریک کی حمایت کرنے پر موسوی نے فیس بک پر آسیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ایران، حزب اللہ، الجیریا اور پولیساریو فرنٹ نے مراکش کے الزامات کی فوری تردید کردی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کاکہناتھا کہ’’مراکش ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے‘‘۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے ایرانی بیان دہراتے ہوئے حزب اللہ اور پولیساریو فرنٹ کے درمیان کسی بھی تعلق کی تردید کردی۔
ایران کی مشرق وسطیٰ میں جاری سرگرمیوں کی وجہ سے مغربی صحارا میں مداخلت کرنے کی تردید مشکوک ہوجاتی ہے۔ ایران اپنا رسوخ اور مسلح تنظیموں کو عرب ممالک میں جگہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے، شام اور عراق میں ایران مغربی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے عزم کا برملا اظہار کرچکا ہے۔ شام میں ایران ایک مستقل طاقت بننے کی کوشش کررہا ہے، ایران شام کو اسلحہ فراہمی، تعمیراتی شعبے میں مدد، فوجی تربیت او ر مشورے فراہم کررہا ہے۔ ایرانی اقدامات روس، ترکی اور ایران کے اتحاد کے ساتھ شام کے استحکام کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ایران نے حزب اللہ پر زبردست سرمایہ کاری کی ہے،حزب اللہ خطے کے ممالک پراثرانداز ہونے کے لیے ایک طاقتور ہتھیار ہے، جس کی وجہ سے خطے کا استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ مراکش نے اب تک ایران اور حزب اللہ کے خلاف کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا ہے، مگر خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے عزائم کی روشنی میں مراکش کے الزامات مکمل بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔مراکش کے الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پہلے ہی امریکا اور ایران کے تعلقات سخت کشیدگی کاشکار ہیں، جس کی وجہ واشنگٹن کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے کا اعلان ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا کے تہران کے خلاف بڑھتے ہوئے دھمکی آمیز بیانات اور عرب ممالک کے واشنگٹن سے خاص تعلقات کی وجہ سے مراکش نے یہ قدم اٹھایا ہو۔
مراکش کا خیال ہے کہ امریکا اور اس کے پرانے خلیجی اتحادیوں کی مدد سے وہ اقوام متحدہ میں اپنے ’’مغربی صحارا خودمختاری منصوبے‘‘ کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔مراکش کی خواہش ہے کہ پولیساریو فرنٹ پر حزب اللہ سے تعلق کا الزام عائد کرکے اسے شرپسند تنظیم قرار دے دیا جائے جو تنازعے کا پرامن حل نہیں چاہتی، جس کے بعد پولیساریو فرنٹ کو غیر قانونی قرار دے کر مذاکرات سے باہر کردیا جائے۔ مراکش کی جانب سے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا خلیجی ممالک،خاص کر سعودی عرب نے خیر مقدم کیا،سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرنے مراکش کے اقدام کے حق میں ٹوئٹ کیا۔مراکش نے ایران کے خلاف اپنے خلیجی اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جن سے اس کے تاریخی تعلقات رہے ہیں۔ مراکش خاص طورپر سعودی عرب کے ساتھ جڑا ہوا ہے، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی حالیہ اصلاحات مراکش کی پالیسی کے ساتھ جڑی ہیں۔
بہر حال مراکش کے اقدام کے پیچھے کوئی وجہ بھی ہو،اس سے عرب ممالک اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور مشرق وسطیٰ میں تقسیم مزید بڑھے گی،جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تنازعے کا امکان بڑھ جائے گا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Diplomatic relations between Morocco and Iran sour over Western Sahara dispute”. (“atlanticcouncil.org”. July 16, 2018)
Leave a Reply