
جولائی ۲۰۱۹ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے فلسطین اسرائیل مذاکرات ’’جیسن گرین بلوٹ‘‘ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سہ ماہی اجلاس برائے مشرق وسطیٰ میں شرکت کی۔اس موقع پر انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے جو بیان دیا، اس نے شرکا کو حیران کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’امریکا، اسرائیل فلسطین مسئلہ پراب مزید بین الا قوامی اتفاق رائے کے ’’افسانے‘‘ کا احترام نہیں کر سکتا۔
گرین بلوٹ نے اپنی گفتگو کے دوران سلامتی کونسل کی اس قرارداد(قرارداد ۲۴۲) کو بھی تنقید نشانہ بنایا، جس کے تحت اسرائیل نے مصر اور اردن سے معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے معاہدے کے ان مبہم الفاظ پر بھی تنقید کی،جن کی وجہ سے عربوں نے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کے مطالبے کو پس پشت ڈالا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بیانیہ مذاکرات میں پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ان کا دعویٰ تھا کہ ماضی کے معاہدے خطے میں امن کے بجائے معاملات کو بگاڑنے کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ غصہ بہت ’’نپاتلا‘‘تھا۔ اس غصے کے پیچھے ان کے باس ’’جیرڈ کشنر‘‘ہیں۔ جو کہ صدر ٹرمپ کے داماد اور مشرق وسطیٰ کے امور کے سینئر مشیر ہیں۔گرین بلوٹ دراصل بات چیت کا رخ بدل کر مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کرنا چاہتے ہیں۔کیا اقوام متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی قانون اور عالمی اتفاق رائے سب غیر متعلق تھا؟آئندہ سے امریکا کسی بھی ایسے دو ریاستی حل کو مسترد کرتا ہے، جس کے تحت فلسطین اور اسرائیل دونوں ساتھ ساتھ پر امن طریقے سے رہ سکیں۔
گرین بلوٹ کی پیشکش دراصل مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی نئی منصوبہ بندی کی وسیع تر مہم کاحصہ ہے،اور مشرق وسطیٰ کی اس نئی منصوبہ بندی کا ماضی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔اس صدر کو،جوہر مسئلے کا ایسا حل چاہتا ہے جس کی کوئی قیمت ادا نہ کرنی پڑے، خوش کرنے کے لیے انتظامیہ نے بہت عیاری کے ساتھ نئی منصوبہ بندی کی ہے۔ امریکا خطے سے دستبرداری جاری رکھ سکتا ہے اور اسے اس انخلا کا کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا،کیوں کہ اس کے پیچھے معاملات سنبھالنے کے لیے اسرائیل اور سعودی عرب موجود ہیں۔ واشنگٹن نے ایران (جو کہ خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے) کو حد میں رکھنے یا قابو میں رکھنے کا کام اسرائیل اور سعودی عرب کے حوالے کر دیا ہے۔شام میں اس کا مقابلہ اسرائیل کرے گا، جب کہ خلیج فارس میں اسے سعودی عرب منہ دے گااور اس مشترکہ مفاد کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بھی مضبوط ہوں گے اور اسرائیل کو سنی عرب ممالک کے ساتھ اتحاد بنانے میں بھی مدد ملے گی۔اس طرح پراکسی جنگ کو امریکی ایما پر پھرپور تقویت ملے گی اور امریکا اسے اپنے لیے ایک آسان اور سستے حل کے طور پر لے گا۔لیکن بدقسمتی سے یہ ’’اپرووچ‘‘ایک افسانہ ثابت ہو گی۔
۷۰ کی دہائی کے وسط میں جب امریکا کو ویت نام میں شکست کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا، ایسے مشکل وقت میں بھی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے مشرق وسطیٰ کے لیے نئی خارجہ پالیسی تشکیل دی،اور یہ ایسی خارجہ پالیسی تھی، جس کی لگام امریکا کے ہاتھ میں تھی۔ اور اس نئی حکمت عملی کا بنیادی ماخذ یہ تھا کہ اسرائیل اور عرب پڑوسی ممالک میں مصالحت کے لیے فعال سفارت کاری کی جائے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ حکمت عملی نہ صرف کامیاب رہی بلکہ اس کے نتیجے میں اسرائیل مصر امن معاہدہ، اسرائیل اردن امن معاہدہ اور فلسطینیوں کے ساتھ بھی مختلف معاہدے ہوتے رہے۔
لیکن ۲۱ ویں صدی میں مخصوص حالات کی وجہ سے پیش رفت رک گئی۔جہاں ایک طرف انتفاضہ کی دوسری تحریک کی وجہ سے اسرائیل فلسطین مصالحت کی امیدیں دم توڑ گئیں،دوسری طرف عراق جنگ کی وجہ سے ایران کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ’’عرب بہار‘‘ نے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر دیا اور اس کے ساتھ ہی داعش نے بھی سر اٹھا لیا۔
۲۰۱۶ء کے صدارتی اتخابات میں جسے بھی فتح حاصل ہوتی، اسے مشرق وسطیٰ میں اسی قسم کے خطر ناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔موجودہ انتظامیہ نے ان حالات سے نمٹنے کے لیے خطے میں امریکی پالیسی کی بنیاد کی طرف غورنہ کیا اور کسنجر کی بنائی ہوئی حکمت عملی کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔باوجود اس کے کہ اس پالیسی نے امریکی مفادات کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔بجائے اس کے کہ اس پالیسی کو جاری رکھا جاتا ٹرمپ انتظامیہ نے اس کو یکسر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اپنایا جانے والا سرکاری موقف کسی داخلی سیاست کا حصہ نہیں، بلکہ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ’’پرانا ڈھانچا مکمل طور پر تباہ ہو گا تو ہی کوئی نئی عمارت کھڑی ہو سکے گی‘‘۔کاغذات میں یہ منصوبہ بندی بہت کامیاب معلوم ہو رہی ہے لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، یہ ایک اور سراب ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ جارحانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور لوگوں کے غم و غصے سے بالکل بے پروا نظرآتی ہے۔ درحقیقت وہ مشرق وسطیٰ کے زمینی حقائق سے لا علم ہیں، اس لاعلمی کی وجہ سے ان کی جارحانہ پالیسیاں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوں گی۔ ماضی کی طرح خطے کے مقامی لوگ نہایت ہی عیاری سے امریکا کے خرچ پر اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف رہیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے نئی پالیسیاں کسی طور پر بھی مستحکم علاقائی نظام تشکیل دینے سے قاصر رہیں گی۔لیکن پرانے نظام کی تباہی اور اس سے حاصل کیے گئے فوائد کو تباہ کرنے کا کام کرتی رہیں گی اور ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ دنیا کے آزاد ماڈل سے جان چھڑا کر یہاں جنگل کا قانون نافذ کیا جائے۔
یروشلم:
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بنائی جانے والی نئی ’’تزویراتی مثلث‘‘ہر پہلو سے غلط اندازوں پر مبنی ہے۔اس کا آغاز ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کی کوششوں سے کیا گیا ہے اور یہ کوششیں دہائیوں سے جاری ہیں، یہ اقدام اسے نہ صرف مزید مخالفت پر ابھارے گا بلکہ وہ خطے میں بھی نمایاں طاقت بنتا چلا جائے گا۔۲۰۱۵ء میں امریکی اور یورپی سفارت کاروں کی کاوشوں سے ایک اہم پیش رفت Joint Comprehensive Plan of Action (JCPOA) کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ایران کے ایٹمی پروگرام پر ایک جامع معاہدہ ہوا، جس کے تحت یہ پروگرام مکمل طور پر عالمی قوتوں کی نظر میں رہتا۔صدر ٹرمپ نے جس وقت عہدہ سنبھالا اس وقت تک اس معاہدے پر مِن و عَن عمل کیا جا رہا تھا اور معائنہ کار وں کو اس بات پر پورا یقین تھا کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام پرکوئی پیش رفت نہیں کر رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معاہدے کی شرائط قابل اطمینان نہ تھیں۔ اس کی شرائط میں شامل تھا کہ ایران دس سال بعد اپنے ایٹمی پروگرام پر کام کرے گا، اس معاہدے میں بلیسٹک میزائل پروگرام پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی اور نہ ہی اس معاہدے میں خطے میں عدم استحکام پر ایرانی کردار پر کوئی بات کی گئی تھی۔لیکن اس سب کے باوجود اس معاہدے کے نتیجے میں ایٹمی پروگرام ’’رول بیک‘‘ہوا تھا اور دیگر تنازعات کے حل کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ترتیب نظر آرہی تھی۔تو آنے والی انتظامیہ کے لیے یہ واضح لائحہ عمل تھا کہ وہJCPOAمعاہدے کو آگے بڑھائے اور دیگر تنازعات کے حل کے لیے تیزی سے کام کرے۔ اس کے برعکس مئی ۲۰۱۸ء میں سیکرٹری ریکس ٹیلرسن اور سیکرٹری دفاع جیمس میٹس کو ’’بائی پاس‘‘ کرکے اور معاہدہ پرایران کی طرف سے عملدرآمد کے حوالے سے صریحاً جھوٹ بولتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس سب کی ایک وجہ صدر ٹرمپ کا باراک اوباما سے ذاتی عناد ہے۔ان کے پیش رو نے جو بھی کیا اسے انھیں ختم کرنا تھا اور ایران معاہدہ تو اوبامادور کے نمایاں کارناموں میں سے ایک تھا۔ذاتی عناد کے علاوہ دیگر وجوہات بھی تھیں۔معاہدے ختم کرنے کے کچھ ہی دنوں بعد نئے سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے اپنی تقریر میں ایران پر دباؤ بڑھانے کی مہم کا اعلان کیا اور اس مہم کا آغاز اس پر سخت پابندیاں لگا کر کیا گیا تاکہ ایران کی تیل کی برآمدات متاثر کی جا سکیں اور اس طرح مشرق وسطیٰ پر اس کے اثرورسوخ کو کم کیا جا سکے۔ پومپیونے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے مطالبات کی نئی فہرست جاری کی، جو کہ مندرجہ ذیل ہے،ایران آئندہ سے یورینیم کی افزودگی نہیں کرے گا،عالمی ایجنسی کے معائنہ کار جہاں چاہیں کام کریں، ان کے کا م میں مداخلت نہیں کی جائے گی،ایٹمی میزائل پروگرام پر کوئی پیش رفت نہیں ہو گی، حزب اللہ، حماس، اسلامک جہاد، شیعہ ملیشیا، حوثی باغی اور ایران کے زیر نگرانی شام میں لڑنے والے مسلح گروہوں کی کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ اسرائیل،سعودی عرب اور امارات کے ساتھ دھونس دھمکی والا رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔اور تمام شکوک شبہات کو دور کرتے ہوئے پومپیونے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ JCPOA پر دوبارہ کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔
امریکا نے یہ قدم اٹھانے سے پہلے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو بھی اعتماد میں لینے کی زحمت نہ کی۔ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک جن میں چین، روس، فرانس، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں، ان سب کی نہ صرف اپیلوں کو نظر انداز کر دیا گیا بلکہ انھیں ایران سے تیل خریدنے پر پابندیوں کا سامنا کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
دریں اثنا صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے اس خطے سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ٹرمپ انتظامیہ نے ایک طرف تو ڈرامائی انداز میں ایران سے مطالبات میں اضافہ کیا اور دوسری طرف وہ ایران کی منفی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے وہاں موجود فوج میں مستقل کمی کرتی چلی گئی۔بیان بازی اور حقیقت میں موجود تضاد کو پومپیو نے اپنی ایک تقریر میں بہت واضح کر دیا،ان کا کہنا تھا کہ ’’امریکا خطے سے ایرانی اثرورسوخ کا ہر صورت خاتمہ کر کے رہے گا‘‘،اور یہ تقریر امریکی صدر کے اس اعلان کے ٹھیک ایک ماہ بعد کی گئی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہم شام سے اپنے آخری فوجی کی واپسی تک اطمینان سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔
ٹرمپ انتظامیہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ارادوں اور صلاحیتوں کے درمیان واضح فرق کوئی بڑا مسئلہ نہیں،کیوں کہ ایران کو زیر کرنے یا اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا بوجھ خطے میں موجود امریکا کے دو طاقتور اتحادی سعودی عرب اور اسرائیل برداشت کرتے ہیں اور اس نقطہ نظر کی سطحی سی منطق یہ تھی کہ اسرائیل خطے کا مضبوط ترین ملک ہے، جب کہ سعودی عرب بہت امیر اور اثر ورسوخ رکھنے والاملک ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دلیل بالکل ناقص ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے پاس بے پناہ فوجی صلاحیتیں ہیں، اور ایران کے مقابلے کے حوالے سے اس کے اور سنی عرب ممالک کے مفادات بھی یکساں ہیں، لیکن امریکا عرب دنیا میں اپنے مفادات کے فروغ کے لیے یہودی ریاست پر انحصار نہیں کر سکتا۔ فلسطین کے ساتھ حل طلب تنازع اس کے پڑوسیوں کے ساتھ عوامی سطح پر تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت پر کڑی ضرب لگاتا ہے۔ عرب ریاستیں اکثر اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مفادات کے لیے خفیہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جیسا کہ سعودی عرب یہ کوشش ۶۰ کی دہائی سے کر رہا ہے۔ لیکن یہودی ریاست کے ساتھ کھلے تعلقات ایران کو اس بات کا موقع فراہم کریں گے کہ وہ ان عرب ریاستوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنائے اور وہاں داخلی انتشار پیدا کرے۔
مثال کے طور پر اس سال فروری میں ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے پولینڈ میں ’’ایران مخالف‘‘کانفرنس کے انعقاد کی کوشش کی۔ نیتن یاہونے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’ایران کے خلاف مشترکہ مفادات کے فروغ کے لیے سرکردہ عرب ممالک کے نمائندوں کے ساتھ ایک بیٹھک ہو، تاکہ مل کر ایران کا مقابلہ کیا جا سکے‘‘۔ اس سب کے باوجود عرب وزرائے خارجہ نے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ ایک فورم میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔اس سب کو سچ ثابت کرنے کے لیے اسرائیلی رہنما جو سطحی حرکت کر سکتے تھے، وہ یہ کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر فلمائی گئی ایک ویڈیو جاری کی، جس میں بحرین، سعودی عرب اور عرب امارات کے وزرائے خارجہ اسرائیل کے معاملے پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے (جلد ہی یہ ویڈیو ہٹا دی گئی)۔ جہاں تک امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی بات ہے،انھوں نے بہت ہی نچلی سطح کے نمائندے بھیجے،اور ان کو امریکی نائب صدر مائیک پینس کی تقریر سننا پڑی، جس میں انھوں نے ایران کو معاہدہ ختم کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
دریں اثنا اسرائیل بیرونی امداد کے بغیر شام سے ایرانی مداخلت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔شام میں ایرانی ملیشیا کے تقریباً ۴۰ ہزار اہلکار موجود ہیں۔ چونکہ امریکا شام سے نکل رہا ہے،اس لیے اسرائیل کے پاس روس سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور ویسے بھی روس کی فوج شام میں موجود ہے، بلکہ وہ بشار حکومت پر اپنا اثر و رسوخ بھی رکھتا ہے۔ تاہم نیتن یاہو کے متعدد دوروں کے بعد بھی اسرائیل روسی صدر ولادی میر پوٹن سے شام میں صرف ایرانی اہداف پر حملوں کی اجازت حاصل کر پایا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم پُرامید تھے کہ وہ روس پر پابندیوں میں نرمی اور امریکی دباؤ میں کمی کے وعدوں کے نتیجے میں اسے اس بات پر راضی کرلیں گے کہ وہ ایران کو شام سے انخلا پر مجبور کرے۔ لیکن اسرائیلی وزیراعظم کا یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اس سال جون میں نیتن یاہو نے اعلیٰ سطح کے امریکی اور روسی سفارت کاروں کو تہران کے خلاف مشترکہ کارروائی کے لیے یروشلم مدعو کیا۔ لیکن وہاں روس نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ روس نے عوامی سطح پر اس موقف کا اظہار کیا کہ ’’روس اور ایران انسداد دہشت گردی کے معاملے میں باہمی تعاون سے کام لے رہے ہیں اور شام میں ایرانی مفادات کا خیال رکھا جانا چاہیے‘‘۔ انہوں نے شام میں ایرانی تنصیبات پر اسرائیلی بمباری کو بھی غیر ضروری قرار دیا۔
امریکی صدر نے جب شام سے فوج کے انخلا کا اعلان کیا، جہاں وہ ایران کو عراق سے لبنان تک زمینی راہداری بنانے سے روکنے پر مجبور کیے ہوئے تھی، تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ امریکا سے یہ درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے کہ اس انخلا میں کچھ تاخیر کرے۔
اس طرح کے اقدامات سے ایرانی مداخلت میں کمی تونہ ہوئی بلکہ اس بات کے امکانات بڑھ گئے کہ یہ لڑائی عراق اور لبنان تک پھیل جائے اور حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر جائے۔
اسرائیل کے ساتھ شا م کی سرحد پر تقریباً پچھلی چار دہائیوں سے خاموشی تھی اور اس خاموشی کی وجہ ۱۹۷۴ء میں ہنری کسنجر کے مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے امریکا نے بہت محتاط طریقے سے شام کو اس بات کا پابند کر دیا کہ گولان کے پہاڑی علاقے سے اسرائیل پر کسی قسم کا حملہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس معاہدے کی بنیاد بھی سلامتی کونسل کی ’’قرارداد ۲۴۲‘‘ ہی تھی۔ جس قرارداد کے تحت یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ کوئی بھی ملک فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ نہیں کر سکے گا، اسی وجہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ ’’گولان ہائیٹس‘‘ شام کا خود مختار علاقہ رہے گا۔ گرین بلوٹ جس قرارداد کو ہوا میں اڑانے کی باتیں کر رہے تھے، یہ وہی قرارداد ہے، جس کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے تک یہ علاقہ اسرائیل کے پاس رہے گا۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے اس علاقے کو اپنے ساتھ شامل تو نہیں کیا لیکن اسے نہ صرف رہائشی علاقے میں تبدیل کر دیا بلکہ یہاں سیاحت کو پروان چڑھانے کے لیے بہت سے کام کروائے۔ (اس خطے میں ۱۹۸۱ء کے ایک فیصلے کے ذریعے اس وقت کے وزیر اعظم نے اس علاقے میں بھی اسرائیلی قوانین نافذ کر دیے تھے۔جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سخت مذمت بھی کی تھی، لیکن امریکا نے اس وقت بھی اسرائیل کی حمایت ہی کی تھی)۔
اسرائیل اور شام دہائیوں تک اس معاہدے کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، حتیٰ کے شام میں داخلی انتشار اور خانہ جنگی کے دوران بھی یہ معاہدہ برقرار رہا۔جولائی ۲۰۱۸ء میں نیتن یاہو ایک طرف تو ایرانی ملیشیا کو گولان کی پہاڑیوں سے دور رکھنے کے لیے روس سے مدد مانگ رہے تھے اور دوسری طرف انھوں نے اس معاہدے کو جان بوجھ کر ختم کر دیااور اس اقدام کو انھوں نے دوبارہ منتخب ہونے کے لیے استعمال کیا اور اسی سلسلے میں ٹرمپ کی مدد بھی مانگی، جو کہ انھوں نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کر نے کا اعلان کر کے کر دی اور اتنی جلد بازی میں یہ اقدام کیا گیا کہ مائیک پومپیو کو بھی اس فیصلے کا علم نہیں تھا حالانکہ وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے تھے۔
ٹرمپ کو یہ کام کرنے کی بہت جلدی تھی۔انھوں نے اس فیصلے کے کچھ عرصے بعدیہودیوں کے سالانہ اجلاس میں ایک یہودی ریپبلکن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے سوچا اور کام ہو گیا‘‘۔صدر ٹرمپ نے فخریہ انداز میں یہ بات کہی کہ ’’میں نے وہ کام کیا ہے جو آج تک کوئی صدرنہ کر سکا‘‘۔ لیکن ان کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ آج تک کوئی اسرائیلی حکومت یہ کام کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ کیوں کہ سابقہ تما م حکومتیں یہ بات جانتی تھیں کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے منافی ہے اور ایسے کسی بھی عمل سے امن عمل میں کی گئی ساری پیش رفت لپٹ جائے گی۔ لیکن اسرائیلی صدر اس کھیلے گئے جوئے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ نیتن یاہو عام انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر سکے۔اور ان کو دوسرے مرحلے میں جانا پڑا۔ لیکن ٹرمپ پر اس اقدام کے طویل المدتی اثرات ہوں گے۔ اس فیصلے سے صدر پوٹن کے کریمیا پر قبضے کو بھی شہہ ملی اور امریکا اور اسرائیل عالمی منظر نامے میں تنہائی کا شکار بھی ہو گئے۔ ان تمام اقدامات کے نتائج یہ ہیں کہ تہران کو اس بات کی اجازت مل گئی ہے کہ وہ اسرائیلی سرحد پر شام کی طرف شیعہ ملیشیا کی موجودگی برقرار رکھے اوراب انھیں بشار حکومت کی تائید بھی حاصل ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اب مستقبل قریب میں اسرائیل کو لبنانی سرحد پرواقع حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کرنی پڑے گی تاکہ وہ وہاں استحکام حاصل نہ کر سکیں اور پھر اسرائیل کے ان اقدامات سے حالات مزید خراب ہوں گے۔
سعودی اسٹائل
سعودی عرب بھی اسرائیل کی طرح امریکا کے لیے ایک کمزور اتحادی ثابت ہوا۔ ریاض نے پہلے کبھی امن و جنگ میں عرب دنیا پر حکمرانی کی کوشش نہیں کی۔ سعودی حکمران اپنے ریاستی حدود کو سمجھتے ہوئے اور داخلی طور پر عدم اتفاق رائے کی وجہ سے اس آپشن کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہ خاموشی سے امریکا کی سربراہی میں چلنے والے نظام کی حمایت کریں۔ مصر، عراق اور شام عرب دنیا کی سیاست میں ہمیشہ نمایاں کھلاڑی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب عراق تباہی کا شکار ہے، شام میں خانہ جنگی چل رہی ہے اور مصر ’’عرب بہار‘‘کی زَد سے ابھی تک نہیں نکل سکا۔ ایسے حالات میں ایک پرعزم، باہمت اور بلند حوصلہ نوجوان شہزادے کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ اپنے ملک کو نمایاں پوزیشن پر لاسکے اور عرب رہنما کے طور پر سامنے آسکے۔ ۲۰۱۵ء میں ۲۹ سالہ ولی عہد محمد بن سلمان جو کہ MBS کے نام سے مشہور ہیں، انھوں نے پہلے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیااور فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کیا، پھر ملک میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی پروگرام کا آغاز کیا اور دیگر ممالک میں بھی مداخلتیں بڑھا دیں۔ بیرونی مداخلتوں میں یمن میں کی جانے والی غاصبانہ مداخلت کافی نمایاں ہے۔ جہاں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاکو ختم کرنے کے لیے یہ مداخلت کی گئی۔
مشرق وسطیٰ کے معاملات سے نابلد صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی مختصر مدتی معاشی و سیکورٹی فوائد کو سامنے رکھ کر سعودی عرب سے تعلقات کو مضبوط کیا (سعودی عرب نے ۳۵۰ ؍ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا، جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہو سکا)۔
نوجوان ولی عہد نے بہت جلد اپنے امریکی ہم منصب جیرڈ کشنر کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر لیے اور اسی دوستی کا نتیجہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے ۲۰۱۷ء میں اپنا پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا کیا، جہاں انھوں نے ریاض میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کا واحد مقصد انسداد انتہا پسندی و دہشت گردی پر شراکت داری تھا، اس کانفرنس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی اور اماراتی خواہش پر امریکا کے مضبوط اتحادی قطر کا بائیکاٹ کر دیا گیا، یاد رہے کہ امریکا کا مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا اڈا (العدید ایئربیس) قطر میں ہی ہے۔
سعودیوں نے ایران پر توجہ دینے کے بجائے امریکا کو اپنے علاقائی حریف، جو کہ امریکا کا اتحادی اور دوست ہے، کے معاملے میں الجھا دیا۔ جس سے خلیج تعاون کونسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی، جو کہ پہلے ہی کافی کمزور تھی۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے ایران کو نہ صرف فائدہ ہوا بلکہ قطر بھی ایران کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ کیوں کہ اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا تھاکہ وہ دنیا سے رابطہ قائم رکھ سکے۔ اس نے اس رابطے کو قائم رکھنے کے لیے ایران کی فضائی حدود استعمال کی، ایران نے یہ سہولت بخوشی فراہم کی اور یہ معاملہ ابھی تک ایسے ہی چل رہا ہے کیوں کہ سعودی عرب مفاہمت کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہا۔
یمن میں محمد بن سلمان کی جنگ نے دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا کر دیا۔امریکا کے فراہم کردہ طیاروں اور اسلحے کے زور پر سعودی عرب نے یمنی عوام پرجو ظلم کیے ہیں، ان پردنیا بھر میں غم و غصہ پایا جا تا ہے۔امریکا کی ساکھ کو اتنا نقصان پہنچاکہ کانگریس کمیٹی نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روکنے کے لیے پابندی کی بھرپور کوشش کی۔ اگرچہ ٹرمپ نے ان سب کوششوں کو’’صدراتی فرمان‘‘کے ذریعے راہ سے ہٹا دیا۔ اس حرکت نے کانگریس کو مزید غصہ دلایا اور اس طرح امریکا سعودی عرب تعلقات کا اہم ستون بھی عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔
محمد بن سلمان کے یمن مسئلے کے فوجی حل پر پُرعزم ہونے نے حوثیوں کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ ایران پر زیادہ سے زیادہ انحصار کریں۔ ان کی ملک پر حکومت کرنے کی خواہش بھی بڑھ گئی۔ اب ایران ان کو نہ صرف بیلسٹک میزائل فراہم کر رہا ہے بلکہ ہوائی اڈوں، سویلین تنصیبات پر حملوں کے لیے ڈرون بھی فراہم کیے جا رے ہیں۔
MBS پر بین الاقوامی تنقید میں ایک دفعہ پھر سے اس وقت اضافہ ہوا، جب محمد بن سلمان نے سعودی نقاد جما ل خاشقجی کو ۲۰۱۸ء میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی اہلکاروں کے ذریعے قتل کروا دیا۔ ٹرمپ اور ان کے دوست نریندر مودی نے اپنے ساتھی کو بین الاقوامی تنقید سے بچانے کی بھرپور کوشش کی، ٹرمپ نے تو کانگریس کو اس واقعے کی خفیہ معلومات تک رسائی دینے سے بھی انکار کر دیا، جس سے واشنگٹن میں تقسیم مزید گہری ہو گئی۔ جیسا کہ ریاض اس وقت واشنگٹن پر حد سے زیادہ انحصار کر رہا تھا اور محمد بن سلمان بھی خاندان کے داخلی مسائل کی زَد میں تھے، ایسے وقت میں امریکا کو چاہیے تھا کہ محمد بن سلمان کو اس قتل کی ذمے داری قبول کرنے پر مجبور کرتا تاکہ ان کی بیرونی جارحیتوں کو روکا جاسکتا۔ لیکن ٹرمپ تو سعودی قیادت کو اس بات پر بھی مجبور نہ کر سکے کہ وہ اپنی توجہ ایران پر مرکوزرکھے اور اس کے خلاف اتحاد کو مضبوط کرے۔
اسی طرح سعودی عر ب نے امن مذاکرات کی پیش رفت میں بھی کوئی خاص مددنہ کی۔ تجزیہ کاروں کو یہ بات ٹرمپ کو بتانا چاہیے تھی کہ فلسطین کے معاملے میں سعودی عرب کبھی بھی فلسطینیوں سے آگے نہیں جا سکتا۔ لیکن ٹرمپ نے امن عمل کی ساری ذمے داری کشنر پر ڈال دی، جو کہ محمد بن سلمان کی آزاد خیالی سے کافی متاثر ہیں اور آج کل اسرائیل کے حوالے سے بھی بڑا نرم موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے کشنر کو ذمے داری دیتے وقت ماضی کی ناکامیوں اور کامیابیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ ۲۰۱۷ء میں محمد بن سلمان نے کشنر سے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطینی صدر محمود عباس کو صدر ٹرمپ کی شرائط پر مذاکرات کے لیے تیار کریں گے۔ انھوں نے محمود عباس کو ریاض بلا کر یہ پیغام دیا کہ وہ کشنر کی منصوبہ بندی کو قبول کرلیں، اس کے بدلے میں سعودی عرب فلسطین کو دس ارب ڈالر کی امداد دے گا۔ لیکن صدر محمود عباس نے یہ پیشکش نہ صرف رَد کر دی، بلکہ اس پیشکش کی خبر کو عام بھی کر دیا، جس سے عرب دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
محمد بن سلمان نے کشنر سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ سعودی عرب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کی مکمل حمایت کرے گا اور اس بات کا بھی یقین دلایا تھا کہ عرب دنیا میں اس پر ہونے والا ردعمل بھی دو ماہ میں دم توڑ دے گا، صدر ٹرمپ کے لیے یہ یقین دہانی کافی تھی، اسی کو سامنے رکھ کر صدر ٹرمپ نے ۲۰۱۷ء میں بغیر کسی تردد کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ساتھ امریکی سفارت خانہ بھی وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔
محمد بن سلمان نے عرب دنیا کے ردعمل کے بارے میں بالکل صحیح کہا تھا، عرب دنیا میں اس فیصلے پر ردعمل نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن وہ کشنر کو دوسرے نتائج سے خبردار کرنے میں ناکام رہے۔ ولی عہد کو تو شاید یروشلم کی کوئی فکر نہ تھی، لیکن ان کے والد کو تھی۔ اگرچہ روزانہ کے حکومتی معاملات پر محمد بن سلمان کا مکمل کنٹرول ہے لیکن آخری فیصلہ اب بھی شاہ سلمان کا ہی ہوتا ہے۔ یروشلم کی مسجد اقصیٰ اسلام کی تیسری مقدس ترین مسجد ہے، بقیہ دو کے والی ہونے کے ناتے شاہ سلمان اس معاملے میں خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ انھوں نے فورا ً ہی صدر ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کردیا اور اپریل کے مہینے میں عرب رہنماؤں کا اجلاس بھی طلب کر لیا تاکہ متفقہ طور پر اس اقدام کی مذمت کی جا سکے۔ شاہ سلمان اس وقت سے ہی بار بار یہ بات کر رہے ہیں کہ وہ ایسے کسی تصفیہ کو قبول نہیں کریں گے، جس میں فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست اور یروشلم کو اس کا دارالحکومت قرار نہ دیا جائے اور ٹرمپ ایسے کسی بھی حل کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
شاہ سلمان کے اس رویہ نے کشنر کے منصوبے کی دھجیاں اڑادیں، جو یہ سوچے بیٹھے تھے کہ سعودی عرب اس سارے امن عمل میں آگے بڑھ کر کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ کے یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان سے فلسطینی بھی مذاکرات میں شریک ہونے سے انکاری ہو گئے۔اس فیصلے کے تناظر میں فلسطینیوں نے صدر ٹرمپ سے تمام سرکاری رابطے منقطع کر دیے اور عباس نے اس فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ٹرمپ مستقبل میں جو منصوبہ پیش کرنے جا رہے ہیں وہ ہمیں کسی صور ت قبول نہیں، یہ معاہدہ ہماری طرف سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ جب ماہ جون میں کشنر نے بحرین میں ایک کانفرنس میں اس معاہدے سے جڑے معاشی فوائد پر روشنی ڈالنی تھی تو فلسطینیوں نے اس اجلاس کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔
دھمکیاں بھی لالچ کی طرح کمزور ثابت ہوئیں۔ ٹرمپ نے یہ سوچا کہ فلسطینی اتنے کمزور ہیں کہ اگر امریکا ان کی امداد بند کرے گا، واشنگٹن میں موجود PLO کا دفتر بند کر دے گا، یروشلم میں اپنا قونصل خانہ بنا لے گا اور اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کا کام بند کرواد ے گا تو فلسطینی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایک دفعہ پھر صدر ٹرمپ کو کوئی بھی تجربہ کار بیوروکریٹ یہ بتانے والا نہیں تھا کہ ایسے اقدامات سے فلسطینی نہ صرف پُر عزم ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی قیادت کے ساتھ متحد بھی ہو جاتے ہیں،جو کہ وہ عام حالات میں نہیں ہوتے۔
کشنر کے لیے یہ کام بہت مشکل ہو گیا کہ وہ سعودی عرب اور فلسطین کی حمایت کے بغیر، معاہدے کے سیاسی اور سلامتی کے حوالے سے نکات پر مصر اور اردن کی حمایت حاصل کریں۔ سب سے زیادہ پریشان اردن کے شاہ عبداللہ تھے، ان کو لگ رہا تھا کہ اگر کشنر اپنے اس منصوبے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو ان کے لیے مشکل ہو جائے گا کہ فلسطین اور ٹرمپ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ اگر وہ یہ منصوبہ قبول کر لیں تو انہیں خدشہ اس بات کا ہے کہ ان کے ملک کی فلسطینی آبادی ان کے شدید خلاف ہوجائے گی اور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو صدرٹرمپ کو نہ صرف تنہائی کاشکار کر دیں گے، بلکہ انہیں اربوں ڈالر کی امریکی امداد سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ فلسطینی اتھارٹی تو اپنی امداد کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے لیکن اردن کے پاس تو کوئی متبادل بھی نھیں ہو گا۔بہرحال گزشتہ موسم گرما میں کشنر نے حتمی رائے لی تو شاہ نے حمایت کرنے سے انکار کر دیا،جس کے بعد اس منصوبے کو ایک دفعہ پھر کسی ’’مناسب وقت‘‘ کے لیے چھوڑدیا گیا۔جب گرین بلوٹ کو اندازہ ہو گیا کہ اس منصوبے کا کوئی مستقبل نہیں ہے تو انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔
اسی طرح ’’مڈل ایسٹ اسٹریٹجک الائنس‘‘کے نام سے سعودی عرب کے ایک اور مجوزہ منصوبے کو بھی ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔ ریاض کا گمان تھا کے ٹرمپ ایران سے مقابلے کے لیے پڑوسی عرب ریاستوں کو اس اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کریں گے۔سعودی عرب کا خیال تھا کہ ’’نیٹو‘‘کی طرزپراس اتحاد میں مصر، اردن اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک شامل ہوں گے اور انھیں بھرپور امریکی حمایت حاصل ہو گی اور امریکا کے ترجمان یا نمائندے کے طور پر سعودی عرب اس اتحاد کی سربراہی کرے گااور یہ اتحاد ایرانی جارحیت کا مقابلہ کرے گا اور اسرائیل اس کی خاموش حمایت کرے گا۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے جب ستمبر ۲۰۱۷ء میں اجلاس ہوا تو داخلی طور پر شدید قسم کے تنازعات سامنے آئے، جس پر اس منصوبے کو وہیں روک دیا گیا۔ ٹرمپ نے فوراً ہی Anthony Zinni کو خصوصی نمائندے کے طور پر نامزد کر دیا، (Anthony Zinni امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر ہیں) تاکہ وہ معاملات کو آگے بڑھائیں۔ Anthony Zinni بھی ایران کے خلاف عرب ریاستوں کو متحد کرنے کے حوالے سے کچھ زیادہ پیش رفت نہ کر سکے۔ اس لیے Zinni نے بھی جنوری میں استعفیٰ دے دیا۔ تین ماہ بعد مصر نے اس منصوبے سے الگ ہو کر اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
ایران
جس طرح ٹرمپ انتظامیہ نے باقی محاذوں پر بڑی بڑی غلطیاں کیں، اسی طرح ایران کے مسئلے پر بھی ٹرمپ کے اقدامات کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران پر دباؤ کی اس مہم کے نتیجے میں ایرانی ’’پراکسی‘‘ کی مالی معاونت میں کمی آئی ہے۔ اگرچہ ان تنظیموں کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے لیکن اب بھی یہ تنظیمیں کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ اب بھی اپنے اسلحے خانے میں گائیڈڈ میزائل شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ایرانی حمایت یافتہ مسلح تنظیمیں جن میں حوثی باغی، حماس، اسلامک جہاد اور شام میں موجود مختلف گروہ نہ صرف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کی مالی معاونت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہیں اپنے قدم نہیں روکے بلکہ دباؤ مزید بڑھانے کے لیے ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور بھارت کو ایرانی تیل خریدنے پر بھی کوئی چھوٹ دینے سے انکار کردیا۔ جیسے جیسے پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں، ایران کی معیشت خطر ناک حد تک خراب ہوتی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں یورپ بھی کوئی خاص مدد نہیں کر پا رہا۔اس موقع پر ایران کا ضبط اب جواب دے گیا ہے۔
اب تک ایران نے پوری کوشش کی کہ صبروتحمل سے کام لیا جائے اور ۲۰۲۰ء کے صدراتی انتخابات کا انتظار کیا جائے، اسی لیے اس نے یورپ کو بھی اعتماد میں لیے رکھا۔لیکن اب ایران نے جواب دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
سب سے پہلے تو ایران نے JCPOA کے معاہدے پر تعاون کم کردیا ہے، یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دیا ہے، ستمبر میں ایران نے سینٹری فیوجز کی ڈیولپمنٹ تیز کر دی ہے اور بہت جلد ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دے گا۔ جیسا کہ اب ٹرمپ معاہدے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں اس لیے وہ ایران کو روکنے کا نہ تو کوئی قانونی جواز رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ اس مسئلے پر دیگر ممالک کی حمایت حاصل کر پائیں گے۔
اب ایرانی اقدامات صدر ٹرمپ کو بند گلی میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ ایران کو ان اقدامات سے روکنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کے اتحادی نیتن یاہو ان کو اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنائیں،جس کے بھیانک اثرات ہوں گے۔اس پیش رفت کو روکنے کا واحد حل ایران پر سے پابندیوں کی نرمی ہے، جو کہ صدر ٹرمپ دینے کو تیار نہیں۔ تناؤ اب بڑھتا جا رہا ہے کیوں کہ ایران اب پورے خطے میں امریکی مفادات پر حملے کر رہا ہے،جیسا کہ آبنائے ہرمز کے قریب تیل کے جہازوں پر۶ پراسرار حملے، گولان کی پہاڑیوں پر ایرانی میزائل حملہ، فلسطین میں اسلامک جہاد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔
ان سب کے جواب میں صدر ٹرمپ نے مئی میں طیارہ بردار جہاز خلیج کی جانب روانہ کیا، لیکن جب ایران نے امریکی ڈرون گرایا تو صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے سے نظریں چرالیں۔ ایرانی صدر ٹرمپ کے مزاج کو سمجھ گئے، ٹرمپ جنگ کی باتیں تو کر سکتے ہیں، لیکن جنگ نہیں۔ ان کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ’’بارگین‘‘کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے ایران نے ازسرنو مذاکرات کی واضح دعوت دی۔ صدر ٹرمپ کو لگا کہ ایک دفعہ پھر ٹیلی وژن کی اسکرین پر آنے کا موقع ملے گا، تو انھوں نے فوراً صدر روحانی کو ملاقات کی دعوت دے دی، اور کہاکہ ’’ہم اس مسئلے کو ۲۴ گھنٹے میں حل کر سکتے ہیں‘‘۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے موقف کی اس اچانک تبدیلی نے ان کے دوستوں کو پریشان کر دیا ہے، نیتن یاہو نے تو ان کے ایرانی صدر سے ملاقات والے بیان پر تنقید بھی کی۔ سعودی اپنی تیل کی تنصیبات پر حملے پر امریکی ردعمل دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے۔ متحدہ عرب امارات نے تو امریکی ردعمل دیکھ کر پینترا بدلنے میں دیر ہی نہیں لگائی، فوراً سے ایک سرکاری وفد تہران روانہ کر دیا، جس کا مقصد مذاکرات کا آغاز کرنا تھا۔ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے شراکت داروں کے لیے غیر متوقع مزاج کے امریکی صدر کا ایک تحمل مزاج اور پروفیشنل ایرانی صدر سے ملاقات کرنا کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھا۔
اپنی مدت ملازمت کے تین برسوں میں ٹرمپ کے پاس ایران کے مقابلے یا مشرق وسطیٰ میں امن کے فروغ کے لیے ایسا کوئی کام نہ تھا جس کو وہ نمایاں کر سکیں۔ اس کے بجائے ان کے فیصلوں نے ایران اور اسرائیل کے مابین تنازع کو ہوا دی، فلسطینیوں کو تنہا کر دیا، یمن کی نہ ختم ہونے والی جنگ اور وہاں بدترین انسانی بحران کی حمایت کی اور خلیج تعاون کونسل میں ممکنہ طور پر ایک مستقل خلیج پیدا کر دی۔
اس خطے میں امریکا ایک اور اپروچ اختیار کر سکتا ہے، ایک ایسی اپروچ جو واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے لیے حالیہ حکمت عملی سے ہزار گنا بہتر ہو گی۔ امریکا کو اپنی سفارت کاری کو تیز کرنا ہوگا اور ایسے مقاصد یا اہداف کی حمایت کرنی ہوگی جن کو دستیاب وسائل سے حاصل کیا جا سکے۔ ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے بجائے ان کی حکومت گرانے اور ان کو حاصل ہوئی فتوحات کو ’’رول بیک‘‘ کرنے کوشش کرنی چاہیے۔ عراق اور شام میں امریکی فوج کی موجودگی برقرار رکھنی چاہیے۔ ایٹمی معاہدے JCPOA کو برقرار رکھنا چاہیے، ہاں اس میں موجود جھول کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کام کے لیے ایران پر پابندیوں میں نرمی کی پیشکش کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔خلیج تعاون کونسل کے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے اور یمن تنازع کے متعلقہ تمام فریقین کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی ٹیبل پر لانا چاہیے۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کے منصفانہ حل کی طرف واپس جانا چاہیے۔ اگر چہ اس مسئلے کے حل کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن دو ریاستی حل کی امید زندہ رہے گی۔ اسرائیل اور سعودی عرب کو اہم اتحادی کا درجہ تو دیں لیکن ان کو خطے کا ٹھیکے دار نہ بنائیں، کہ وہ جو چاہیں خطے میں کرتے پھریں۔ عالمی اتفاق رائے کو ختم کرنے کے بجائے اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ امریکی مفادات کے حصول میں آسانی رہے۔
یہ متبادل راستہ دہائیوں پہلے شروع کیے جانے والے ہنری کسنجر کے منصوبے کو کامیاب کر سکتا ہے۔ لیکن اگر امریکا میں صدر ٹرمپ کی پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو اس بات کے قوی امکان ہیں کہ امریکا نہ صرف تنہا کھڑا ہو بلکہ ایک سیراب کے پیچھے دوڑ رہا ہو۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Disaster in the desert”.(“Foreign Affairs”. Nov./Dec. 2019)
Leave a Reply