حضرت دائودؑ کو حق تعالیٰ نے ظاہری کمالات میں سے ایک کمال حس صوت کا بھی عطا فرمایا تھا۔ جب وہ زبور پڑھتے تو پرندے ہوا میں ٹہرنے لگتے اور ان کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے۔ ہر مخلوق کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ جداگانہ ہے جس سے وہ مخلوق بخوبی واقف ہے۔ خالق ہی نے تمام مخلوقات کو تسبیح کے طریقے سکھائے ہیں جس سے ہم انسان واقف نہیں‘ پرندوں کا تسبیح میں شریک ہوجانا بہ تسخیر خداوندی بطور معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہے جو عقل کو عاجز کردے۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ معجزہ کا جس شے پر راست اثر پڑ رہا ہے وہ اپنے اندر کوئی قدرت رکھتی ہے یا نہیں بلکہ یہاں اہم معجزہ کو صادر کرنے والی قوت ہے جو بے جا ن میں بھی زندگی پیدا کردیتی ہے۔ یہی قوت مالک و خالقِ کائنات ہے اسی خالق نے کُل کائنات میں اپنی عادات کو جاری فرمادیا ہے اور ان ہی عاداتِ خداوندی کو انسان معمولاتِ دنیا کا نام دیتا ہے حالانکہ ہر معمول خدا کی قدرت کامظہر ہے۔ اسی لیے اللہ فرماتا ہے کہ ’’وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں اور یہ سب جو کچھ کررہے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے‘‘ (النور) ’’انسانو۔ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘ (الاسرارء)
پرندے نہ صرف اللہ کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں بلکہ اللہ نے ان میں ایک اور صفت بھی رکھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے گفتگو بھی کرتے ہیں یعنی پرندے بامعنی گفتگو کرتے ہیں اور بخوبی اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ پرندوں کی یہ خصوصیت اس قدر ترقی یافتہ نہیں ہوتی جس قدر انسانوں میں دیکھی جاسکتی ہے لیکن پرندوں میں یہ صلاحیت چیونٹیوں اور ڈولفن سے زیادہ موثر اور ترقی یافتہ ہوتی ہے۔ ویسے پرندے خوش گلو ہوتے ہیں۔ اکثر پرندوں کی آواز سریلی اور دل کو لبھانے والی ہوتی ہے۔ ان کے دلکش راگ کو سن کر مادہ پرندے نر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ یعنی پرندوں کا یہ گانا‘ یہ راگ و نغمہ چڑیا کو رجھانے اور انہیں قریب بلانے کے انداز ہیں تاکہ کورٹ شپ انجام پاسکے‘ اسی لیے بعض سائنسدان اس کو نغمۂ محبت قرار دیتے ہیں جس میں خوش الحان چڑیا نہ جانے کیا کیا عہد و پیمان بھر دیتی ہے کہ اس کی جانب مادہ کی توجہ مبذول ہوجاتی ہے اور نسل کے تسلسل کا ذریعہ پیدا ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کوئوں پر کی گئی تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ پرندے یعنی کوا جب کبھی خطرہ محسوس کرتا ہے تو مختلف آوازوں کو نکال کر اپنے ساتھیوں کو بلا لیتا ہے۔ تجربہ کے دورا ن ان تمام آوازوں کو ریکارڈ کیا گیا اور فی زمانہ اس رموزی زبان کو حل کرنے کوشش کی جارہی ہے۔ اگر مستقبل قریب میں یہ ممکن ہوجائے تو پھر ہم مخصوص ’’صوت پیما‘‘ کی مدد سے پرندوں کی پراسرار گفتگو کو سمجھ سکیں گے۔ ہر پرندے کی زبان طریقہ ترسیل علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر پرندے کی زبان کو سمجھنے کے لیے پہلے ان پرندوں کی آوازوں کی توانائی کی لہروں میں تبدیل کرنا ہوگا پھر ان لہروں کوکوڈ میں تبدیل کرنا ہوگا اس کے بعد ان الگ الگ انداز میں وضع کردہ کوڈز کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرکے برمعنی عبارت کو اخذ کرنا ہوگا‘ سائنس دانوں کے مطابق یہ مرحلہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ علاوہ اس کے پرندوں کی ’’جسمانی زبان‘‘ بھی خیالات کی ترسیل کا موثر ذریعہ ہے سائنسدانو ں نے اس اشاراتی زبان کو سمجھ کر بعض حرکات کے معنی اخذ کیے ہیں جیسے اگر کوئی پرندہ دوسرے پرندے کی چونچ سے اپنی زبان کو مس کرنے لگے تو اس کا مطلب یہ نکلا ہے کہ ’’میں تمہارا دوست ہوں تمہیں نقصان پہنچانا میرا مقصد نہیں ہے۔‘‘ سائنسدانوں نے ایسی اشاراتی زبان کو بڑے پیمانہ پر جمع کیا ہے اور ان پر تجربات چل رہے ہیں اور بڑے بڑے ماہرِ طیور کا احساس ہے کہ انسان اگر محنت کرے اور اپنے مشاہدے میں حساسیت پیدا کرے تو باآسانی پرندوں کی زبان سمجھ سکتا ہے ۔ سائنسدانوں نے پرندوں کی آواز پر کافی تجربات کیے ہیں مگر آلہ صوت سے ہمہ صوتی آواز کے پیدا ہونے کا مکمل خلاصہ نہیں پیش کرسکے۔ لیکن انہوں نے اس بات کو نہایت اعتماد سے بیان کیا ہے کہ پرندے زندگی کے افعال میں سمجھ بوجھ کا ثبوت دیتے ہیں اور انسانوں کو پہچان کر ان کے اطوار سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ انسان کا متوقع ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ اسی لیے چڑیا بچے کے برتن سے دانا چگ لیتی ہے لیکن بڑے افراد کے نزدیک آنے سے بھی ڈرتی ہے۔ اگر انسان اپنائیت کا اظہار کرے تو چڑیا انسان کے برتائو کو پرکھتی ہے اور اس کے بعد اس کے قریب آتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرندے افراد کو شناخت کرتے ہیں اور ان کی حرکات سے نتائج کو اخذ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں جب پالتو چڑیا بعد از مشق بولنا سیکھ جاتی ہے تو عقل کو استعمال کرکے منطقی انداز میں جوابات بھی دیتی ہے جو چڑیا کے قوت تجزیہ کی بہترین مثال ہے جس کو ہم خدا کے وجود کی بین دلیل بھی کہہ سکتے ہیں‘ اس لیے ہم پرندوں کی اس صلاحیت کو تخلیق کا ایک عجوبہ قرار دے سکتے ہیں جو آواز کی شکل میں پرندوں کو قدرت کی ایک خوبصورت عطا ہے‘ ہمیں اس کا ثبوت دنیوی دلائل سے بھی مل جاتا ہے۔ آواز کا پیدا ہونا ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ آواز کے پیدا کرنے کے لیے جسم کے تقریباً تمام اعضاء میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ جب یہ اعضاء ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تب ہی آواز پیدا کی جاسکتی ہے۔ لیکن جہاں تک پرندوں کا سوال ہے ان میں یہ صلاحیت دوسرے جانداروں کے مقابلے میں قدرے زیادہ پائی جاتی ہے اس لیے ہم آئے دن دیکھتے رہتے ہیں کہ پرندے دوسرے جانداروں یا مختلف قسم کی آوازوں کی نقل کرتے رہتے ہیں اس کی بہترین مثال Reven‘ Humming Bird اور myana ہے جو ایسی آواز کی نقل کرتے ہیں جس کی نقل خود انسان کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ مثلا دروازے کے بند ہونے کی آواز‘ ٹیلی فون کی گھنٹی یا سیٹی کی آواز وغیرہ۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پرندوں میں آواز نکالنے کا نظام نہایت ترقی یافتہ ہوتا ہے کیونکہ ہوبہو نقل کے لیے سماعت ‘یادداشت اور حساسیت وغیرہ کا بہترین ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آواز کی نقالی ان کی ذہنی صلاحیت کا پتا دیتی ہے۔ قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ پرندے صرف آواز کی نقل نکال سکتے ہیں جس کو ہم فی زمانہ دیوانے کی بڑ کہہ سکتے ہیں کیونکہ جب اس سمت تحقیقات کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ پرندوں کی نقل جو بامطلب الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے موقعہ کے لحاظ سے بدلتی جاتی ہے یعنی نقالی کی صلاحیت رکھنے والے پرندے مقابل کو پہنچاتے ہیں اور اسی مناسبت سے جملوں کو دہراتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پرندے صرف رٹے رٹائے جملوں کو دہرانہیں رہے ہیں بلکہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے منطقی انداز میں جواب دے رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی چستی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے۔ پرندوں کی یہ خصوصیت دراصل خدا کی عطاکی ہوئی ہے‘ اللہ نے ان کو ایسی سمجھ ودیعت کی ہے کہ ایک حقیر پرندہ خود سے بولتا ہوا نظر آتا ہے اسی لیے پرندوں کی اس قوت کو ہم اہل نظر کے سامنے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے بطور شہادت پیش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خدا ہی ہے جو دو مختلف ساخت رکھنے والے صوتی آلوں سے ایک ہی آواز پیدا کرتا ہے اور ایک جیسی ساخت رکھنے والے صوتی آلے سے کئی آوازوں کو پیدا کرتا ہے۔ پرندہ انسان کی آواز کی نقل اتارتا ہے جب کہ انسان میں صوتی آلہ Larynx پایا جاتا ہے جبکہ پرندوں میں آواز پیدا کرنے کا آلہ Syrinx کہلاتا ہے جو ساخت کے اعتبار سے Larynx سے یکسر جداگانہ ہوتا ہے۔ انسان میں آواز نکالنے کے لیے زبان‘ ہونٹ اور دانت وغیرہ پائے جاتے ہیں جبکہ پرندے ان تمام چیزوں سے عاری ہوتے ہیں علاوہ ازیں پرندے اور انسان کی سماعت کا نظام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ پرندہ اگر کوئی آواز ایک مرتبہ سن لے تو اس آواز کو صرف اس Octova میں پہچان سکتا ہے جبکہ انسان آواز کو کسی بھی Octova میں پہچان سکتا ہے لیکن انسان آوازکی پہچان کے معاملے میں پرندے سے پیچھے نظر آتا ہے کیونکہ انسان آواز کو ایک سیکنڈ کے ۲۰ ویں حصہ میں پہنچا سکتا ہے جبکہ پرندے سیکنڈ کے ۲۰۰ ویں حصے میں آواز کو شناخت کرلیتے ہیں۔ اسی طرح پرندے انسان کے مقابلے میں دس گنا تیز سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی ایک سیکنڈ میں دس آوازوں کو شناخت کرلیتے ہیں جو پرندوں کی ایک عجیب و غریب خصوصیت ہے۔ آواز کی نقالی یا آواز پیدا کرنے کے لیے قوت سماعت کا بہترین ہونا ضروری ہے اگر پرندے بہرے ہوں تو وہ آواز پیدا نہیں کر سکتے اور اپنی ازلی خوبصورت خصوصیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہر پرندے کو اپنی نوع کا گانا سیکھنے کے لیے نہ صرف قوت سماعت بلکہ یادداشت کو بھی بہتر رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ پرندے کا دماغ چھوٹا ہوتا ہے جس کا وزن عام طور پر ۸۰ یا ۸۵ گرام ہوتا ہے ساخت کے اعتبار سے انسان کا اور پرندے کا دماغ مختلف ہوتاہے لیکن اس کے باوجود پرندے سیکھتے ہیں‘ آواز کو یادداشت میں محفوظ رکھتے ہیں اور وقت پر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تجربات سے ظاہر ہے کہ پرندے بن مانس سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں حالانکہ بن مانس کو انسان کے بعد سب سے زیادہ سمجھدار جانور تصور کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ وہ جس جاندار کو جو شے چاہے عطا کردے‘ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں‘ اس کی ہر کاریگری بے مثال ہے وہ چاہے تو پرندوں کو ممالیہ پر فوقیت دیدے اور چاہے تو چیونٹیوں کو پرندوں کی صلاحیتوں سے زیادہ عطا کردے۔ ’’آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی نشانیاں ایسی ہیں جن سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔‘‘ (سورہ یوسف)
سائنس دانوں کے مسلسل تجربات نے دنیا کے سامنے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ پرندے بھی انسانوں کی طرح پیچیدہ عمل کے ذریعے تجزیہ کرتے ہیں اور مابعد فیصلہ کرتے ہیں۔ سائنسداں کے مطابق کبھی انبوہ طوطا بیک وقت کئی طوطوں سے بات کرتا ہے اور ان کے سوال کا صحت سے جواب دیتا ہے۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ ترسیلی عمل ہے جس سے خود انسان بھی محروم نظر آتے ہیں کہ انسان بیک وقت صرف ایک ہی جانب اپنی توجہ مبذول کرسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے طوطوں یعنی پرندوں کی یہی خوبی ان کو باآسانی انسانی بولی سکھا دیتی ہے۔ اسی لیے اکثر اوقات انسانوں سے زیادہ سیکھ جاتے ہیں سمجھ کر جواب دیتے ہیں اور حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ آواز کی نقالی دراصل ان پرندوں کے لیے ایک زینہ ہے جس پر چل کر یہ پرندے ان خصوصیات کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں جو صرف انسان کے لیے مخصوص ہیں۔
(سائنس اینڈ ٹیکنالوجیڈاٹ کام)
Leave a Reply