
دسمبر ۱۹۷۱ء کی سولہ تاریخ کو ڈھاکا کی سرزمین پر پاکستان کی فوج ہاری تھی، لیکن آج ٹھیک بیالیس برس بعد دسمبر ہی میں پاکستان ہار گیا ہے۔ پاکستان کی فوج چند لاکھ افراد پر مشتمل وہ سرفروش ہیں، جو اس ملک کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان ان اٹھارہ کروڑ عوام کا نام ہے، جن کی زندگی اور موت اس سرزمین سے وابستہ ہے۔ بیالیس برسوں میں اس ملک پر کیا کچھ نہیں بیتا، لیکن اس سے وفاداری اور محبت میں خون کے چراغ روشن کرنے والوں میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ہم کس قدر بدقسمت اور بدنصیب عہد کے باسی ہیں کہ جہاں جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی قومی پرچم میں دفن ہوئے اور ان کے شانہ بشانہ لڑنے والے عبدالقادر مُلّا کی شہادت پر اس مملکت خداداد پاکستان کا پرچم ایک منٹ کے لیے بھی سرنگوں نہیں ہوا۔ دنیا میں موجود دو سو کے قریب ممالک میں سے کسی نے بھی اپنے وفاداروں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا ہوگا۔ میرا دکھ اور بھی شدید ہے کہ اسی سال یعنی ۲۰۱۳ء میں برطانیہ نے ہندوستان کے ان بارہ لاکھ وفاداروں کو عزت و توقیر دینے کا فیصلہ کیا جو برطانوی فوج کے ساتھ فرانس اور بلجیم کے محاذوں پر لڑے تھے اور ان میں سے ۷۴ ہزار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ تقریباً ایک صدی قبل کا قصہ ہے لیکن جیسے ہی برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا، بیرونس سعیدہ وارثی، جو برطانیہ کی وزیر ہے بیلجیم میں خدائے داد خان کی قبر پر گئیں اور اسے خراج عقیدت پیش کیا۔ خدائے داد خان پہلا ہندوستانی تھا، جسے وکٹوریہ کراس ملا تھا۔ وہ فرانس کی نیو چیپل (Neuve Chapelle) کی یادگار پر گئیں، جہاں چار ہزار سات سو بیالیس ہندوستانی سپاہی مارے گئے تھے۔ برطانیہ کا گروٹ بیک (Grote Beek) قبرستان، جس میں گوجر خان کے ہندوستانی وفاداروں کی قبریں ہیں، آج بھی اہم دنوں میں پھولوں سے لد جاتا ہے۔ برطانوی حکومت نے وہ تمام خطوط اکٹھے کرکے عجائب گھروں میں رکھنے کا اہتمام بھی کیا ہے، جو ان وفاداروں نے محاذ جنگ سے اپنے رشتے داروں کو لکھے تھے۔
امریکا جب برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو امریکی سرزمین پر بہت سے ایسے تھے جو برطانوی افواج کا ساتھ دیتے تھے، ان سب کو جارج سوئم کی اہلیہ ملکہ شارلٹ کے نام سے جاری کردہ ایوارڈ دیے گئے اور ان کی تصاویر برطانیہ کے قومی فوجی عجائب گھر میں موجود ہیں۔ امریکا ایک عالمی طاقت ہے اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد تو برطانیہ اس کا مرہون منت ہو کر رہ گیا تھا، لیکن آج تک کسی نے ان وفاداروں کا نام اپنی تاریخ سے کھرچ کر نہیں پھینکا۔ ویت نام سے زیادہ بدنامِ زمانہ جنگ کون سی ہوگی، ایک ایسی جنگ جس میں امریکا نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیں۔ لاکھوں ویت نامیوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ پورے امریکا میں اس کے خلاف شدید نفرت کی لہر تھی۔ اس جنگ میں شرکت سے انکار کر کے عالمی باکسر محمد علی امریکی تاریخ کا ہیرو بن کر ابھرا، لیکن آج بھی امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ان کی کانگریس کی عمارت کے سامنے پارک میں سیاہ رنگ کی ایک دیوار پر ان ۵۹ ہزار فوجیوں کے نام درج ہیں جو اس جنگ میں مارے گئے۔ بات صرف فوجیوں تک نہیں رکتی، امریکا نے ہر اس شخص کو بھی نوازا جس نے اپنی مادرِ وطن ویتنام سے غداری کرکے امریکی فوج کا ساتھ دیا تھا، لیکن یہ سب تو باہر سے آئے ہوئے لوگ تھے، قابض حکمران تھے، ان کے ملک کا کوئی ٹکڑا کسی نے فوج کے ذریعے ان سے علیحدہ نہیں کیا تھا، اس کے باوجود وہ اپنے ساتھ مر مٹنے والوں کو یاد رکھتے ہیں۔
لیکن میرا المیہ یہ ہے کہ میرے ملک کا بددیانت مؤرخ جب بنگلہ دیش کی کہانی سناتا ہے تو وہ اس مملکتِ خداداد پاکستان سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ اسے کلکتہ سے مشرقی پاکستان کی طرف مارچ کرتے ہوئے بھارتی ٹینک نظر آتے ہیں نہ بھارتی فوج۔ یہ مؤرخ بہت کمال کا ہے، اسے مکتی باہنی دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ تحریک آزادی کی فوج لگتی ہے، لیکن سوات اور وزیرستان میں سب کے سب دہشت گرد نظر آتے ہیں اور فوج محب وطن، لیکن اسے یہی فوج مشرقی پاکستان میں ظالم اور حقوق کی غاصب محسوس ہوتی ہے، حالانکہ ان دونوں سانحات کے وقت اس ملک کی باگ ڈور فوج کے ہاتھ میں تھی، جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف۔ کسی ملک کی ریاستی قوت اس وقت تک ختم نہیں کی جاسکتی جب تک کوئی بیرونی طاقت اس عمل میں شریک نہ ہو۔ امریکا کی جنگ آزادی ناکام ہوتی جاتی اگر فرانس اپنی فوجیں امریکی باغیوں کے ساتھ برطانیہ سے لڑنے کے لیے نہ بھیجتا۔ نیویارک کا مجسمہ آزادی آج بھی فرانس کی بیرونی مدد کی گواہی کے طور پر امریکی ساحلوں پر نصب ہے، لیکن اس بدقسمت ملک کا دانشور، میڈیا اینکر، کالم نگار، مؤرخ اور تبصرہ نگار صرف ان لوگوں کو گالی دیتا ہے جو اس ڈوبتے ہوئے ملک کی سرحدوں کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ کیسا مؤرخ تھا جو اس جہاز کے سپاہیوں کی تعریف کرتا ہے جو ڈوبنے لگا تھا تو اس پر سوار فوجی عرشے پر کھڑے ہو کر فوجی بینڈ کی دھن میں موت کا انتظار کرتے رہے لیکن تیراکی جاننے والے بھی ساتھیوں کو چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔ یہ مؤرخ ژاں پال سارتر کو اپنے ہی ملک کے خلاف الجزائر میں جاکر جنگ آزادی کی حمایت پر خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ بولیویا کا چہیتا کیوبا میں لڑے تو اسے ہیرو بناتا ہے۔ فرانس کی اشرافیہ کا نمائندہ ویتنام میں امریکیوں کے خلاف لڑنے والا انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ مکتی باہنی کا ساتھ دینے والا ہندوستان کا سپاہی بھارت کا ہیرو ہے، لیکن کشمیر، افغانستان، فلسطین اور چیچنیا جاکر لڑنے والا مسلمان دہشت گرد اور قاتل ہے۔ اسی مؤرخ کے نزدیک بلوچستان میں ۱۹۷۴ء میں بلوچوں کے شانہ بشانہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے پنجابی دانشور آج اس ملک میں علم و دانش کے نمائندے ہیں بلکہ ایک تو نگراں وزیراعلیٰ بھی رہ چکا ہے۔ لیکن اس مؤرخ کے نزدیک بنگلہ دیش میں لڑنے والا، پاکستان کے تحفظ کے لیے زندگی کی آخری سانس تک ہتھیار نہ ڈالنے والا عبدالقادر مُلّا غدار بھی ہے اور دہشت گرد بھی۔ پاکستان کی فوج کو سولہ دسمبر ۱۹۷۱ء کو شکست ہوئی تھی، لیکن پاکستان کو آج شکست ہوئی ہے۔ عبدالقادر مُلّا کو کسی شہر میں ۲۱ توپوں کی سلامی نہیں دی جائے گی، اس کی شہادت پر فوجی بینڈ ماتمی دھن نہیں بجائیں گے، اس کی تصویر کسی آرمی میوزیم میں نہیں لگائی جائے گی، اس کی یاد میں کوئی ڈاک ٹکٹ جاری نہیں ہوگا، اس کے نام پر کسی سڑک کا نام نہیں رکھا جائے گا۔ شاہِ ایران جب ایران سے بھاگا تو اسے صرف مصر کے انوار السادات نے پناہ دی۔ ایران نے انوار السادات کے قاتل کے نام پر تہران کی مرکزی سڑک کا نام رکھا، اس کے باوجود ہم یہ گلہ کرتے ہیں کہ کوئی ہم پر بھروسا نہیں کرتا۔ قومیں شکست کے باوجود زندہ رہ جاتی ہیں، لیکن ذلت و بے وفائی کی چادر اوڑھ کر زندہ رہنا چاہیں تو یہ چادر ان کا کفن بن جاتی ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply