
جن معاشروں میں قوانین پر عمل کو زیادہ اہمیت نہ دی جاتی ہو، ان کا سب سے بڑا تضاد یہ ہوتا ہے کہ انتہائی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں سے زمینی حقائق کو عوام کی نظروں سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ غیر حقیقی اعداد و شمار کے ذریعے سے معاشرے کی ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ عام آدمی دھوکے میں رہتا ہے اور جو کچھ اسے نظر آ رہا ہوتا ہے، اسے بھی وہ حقیقت کی حیثیت سے قبول یا تسلیم کرنے سے انکاری رہتا ہے۔
جب بھی بنگلادیشی حکومت فی کس آمدن میں اضافے کی بات کرتی ہے، اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ بہت جلد ملک بھر میں اوسط سالانہ فی کس آمدن ۱۴۶۶؍ڈالر ہوجائے گی تو صرف ہنسنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ آج بھی ملک بھر میں کم از کم چار کروڑ افراد ایسے ہیں، جن کی یومیہ آمدن ایک ڈالر سے بھی کم ہے!
بنگلا دیش میں بھی لوگ خوش حالی کی طرف جاتے ہیں مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر سال کم و بیش بیس لاکھ بنگلا دیشی سالانہ پانچ ہزار ڈالر کے بریکٹ میں داخل ہوتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار ہر معاملے میں حقیقت کے برعکس تصویر پیش کر رہے ہیں۔ بے روزگاری ہی کو لیجیے۔ حکومت کہتی ہے کہ ملک بھر میں عمومی سطح پر پانچ فیصد بے روزگاری پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷ کروڑ کی ورک فورس میں کم و بیش ۴ کروڑ کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حد تک بے روزگار ہیں۔ ان چار کروڑ افراد کو ہر ہفتے محض چند گھنٹے ہی کام مل پاتا ہے۔ ورک فورس کا ۴۷ فیصد زرعی شعبے سے تعلق رکھتا ہے مگر اس میں بھی ۹۰ فیصد وہ محنت کش ہیں جنہیں موسمی روزگار ملتا ہے یعنی جب بھی فصل کی بوائی یا کٹائی ہوتی ہے، تب انہیں طلب کیا جاتا ہے۔ باقی دن وہ بے روزگار ہی رہتے ہیں۔
دیہات کی صورت حال انتہائی ابتر ہے۔ ہر ماہ کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں میں آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر کا دیہات میں مکان فروخت ہوچکا ہوتا ہے یا پھر ان کی زرعی اراضی دریا برد ہوچکی ہوتی ہے۔ ڈھاکا میں پچاس لاکھ سے زائد افراد جھگیوں میں رہتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے، جہاں ان کا اب کچھ بھی نہیں رہا۔
بنگلا دیش کے لیے ایک انتہائی پریشان کن المیہ یہ ہے کہ خدمات کا شعبہ تیزی سے پروان تو چڑھ رہا ہے، مگر معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ خدمات کے شعبے کی بیشتر سرگرمیاں پوشیدہ ہیں یعنی حکومت کو ٹیکس ادا کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش میں کالے دھن کی سرگرمیاں اتنی تیزی سے بڑھی ہیں کہ ملک بھر میں کالے دھن کی گردش کم و بیش ۲۰۰؍ارب ڈالر کی حد کو چھو رہی ہے۔ قومی خزانے میں جانے کے بجائے خدمات کے شعبے کی کمائی کا معتدبہ حصہ نجی ملکیت میں ہے، جس کے نتیجے میں سرکاری منصوبوں کو بر وقت مکمل کرنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلا دیش میں ’خدمات کا شعبہ‘ مجموعی قومی پیداوار میں کم و بیش ۵۰ فیصد کی حد تک اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ورک فورس کا ۴۰ فیصد اسی شعبے سے جڑا ہے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ محصولات میں اس شعبے کا کردار صرف ۱۱؍فیصد ہے۔ معیشت کے دیگر شعبوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہ بھی اپنی اصل آمدن چھپاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس بچایا جاسکے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے غیر قانونی طریقوں سے حکومت کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی ۴۰ فیصد ورک فورس کو، موسمی ہی سہی، روزگار فراہم کرتا ہے مگر مجموعی قومی پیداوار میں اس شعبے کا کردار محض ۱۶؍فیصد تک ہے۔
اس وقت بنگلا دیش میں صنعتی شعبے پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ اس شعبے نے ورک فورس کے ۱۳؍فیصد کو روزگار فراہم کر رکھا ہے اور جی ڈی پی میں اس شعبے کا کردار ۳۰ فیصد سے زائد ہے۔ زرعی شعبے میں مسائل سے دوچار ورک فورس کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے صنعتی شعبے پر غیر معمولی دباؤ ہے۔
صنعتی شعبے کو ایک طرف تو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ساری کی ساری یا نمایاں حد تک بیشتر سرمایہ کاری کسی ایک شعبے میں نہ ہو۔ یعنی صنعتی یونٹس کے لیے سرمایہ کاری میں بھی توازن پیدا کرنا ہے۔ ایسا نہ ہو تو کسی ایک شعبے میں سرمایہ کاری بڑھ جائے۔ دوسری طرف صنعتی شعبے پر نئے گریجویٹس کو تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے تاکہ وہ جاب مارکیٹ میں اپنا کردار بہتر انداز سے ادا کرسکیں۔
بہت سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی طرح بنگلا دیش کی حکومت نے بھی افرادی قوت کی برآمد کو معیشت کی بہتری کے لیے خوبی سے استعمال کیا ہے۔ مگر اب اس حوالے سے بھی ہنی مون پیریڈ ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ زرعی شعبے سے باہر آنے والی ورک فورس کو جب ملک میں کہیں بھی امکانات دکھائی نہیں دیتے تھے تو وہ بیرونِ ملک چلی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام یا منصوبہ بندی نہیں کی جاتی تھی۔ یہ سب کچھ لوگ بہت حد تک اپنے بل بوتے پر کرتے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں بنگلا دیشی بڑی تعداد میں کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی بھیجی ہوئی رقوم سے قومی خزانہ مستحکم ہوتا رہا ہے۔ بنگلا دیش میں چند برسوں کے لیے معاشی استحکام ضرور رہا، مگر اسے طول دینے کی شعوری اور منظم کوشش نہیں کی گئی۔ دنیا بھر میں بنگلا دیشی ورکر کام تو کر رہے ہیں مگر اب ان کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں بنگلا دیشی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنے ۸۰ ہزار ورکروں کو واپس بلائے۔ اسی طور ملائیشیا نے ڈیڑھ لاکھ بنگلادیشی ورکر قبول کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ بھلا دیا ہے۔ یہ دو اُمور ہی بنگلادیش کی ترسیلاتِ زر میں بڑا شگاف ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک میں خراب حالات اور بعض مقامات پر جنگ کے باعث بھی ہزاروں بنگلا دیشی ورکروں کو وطن واپس جانا پڑا ہے۔ یہ صورت حال قومی معیشت پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
بنگلادیش کا ایک بنیادی مسئلہ توانائی کا بھی ہے۔ صنعتی عمل کے لیے بجلی درکار ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداوار ضرورت کے مطابق نہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کوئلے کے بجلی گھر لگانے کے حق میں نہیں۔ حال ہی میں بخشالی میں کوئلے کا بجلی گھر لگانے کے حکومتی منصوبے کے خلاف عوام نے شدید احتجاج کیا ہے۔ اس حوالے سے چند ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو سوچنا پڑے گا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو کس طور پورا کیا جائے۔
بنگلا دیش چاہے تو بھارت کی ریاست تری پورہ سے بجلی لے سکتا ہے مگر یہ مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل نہیں۔ بنگلا دیش کی حکومت اگر اپنے ہاں صنعتی عمل کو عمدگی سے جاری رکھنا چاہتی ہے تو اپنے وسائل ہی سے بجلی پیدا کرنا ہوگی۔ اگر یہ معاملہ درست نہ کیا گیا تو صنعتی عمل کے متاثر ہونے سے بے روزگاری بھی پھیل سکتی ہے۔ بنگلادیش میں جن کے پاس زیادہ دولت ہے ان سے خاطر خواہ ٹیکس وصول نہیں کیے جارہے، جس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایک کُل وقتی محتسب مقرر کرنے کی ضرورت ہے، جو مالدار طبقے کے اثاثوں کا جائزہ لے کر ان سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی وصولی یقینی بنائے۔ ملک میں دولت کی کمی نہیں مگر یہ دولت ایک طبقے تک محدود ہے۔ حکومت کے لیے اس میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ سرکاری شعبے کے منصوبوں کو عمدگی سے تکمیل کی منزل تک پہنچایا جاسکے۔ اگر دولت مند طبقے سے کماحقہٗ وصولی ممکن نہ بنائی جاسکی تو بنگلا دیشی معیشت اور معاشرت کے لیے پنپنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ اگر محصولات میں اضافہ ممکن نہ بنایا جاسکا تو بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا عمل رک جائے گا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں صنعتی عمل متاثر ہوگا۔ صحت عامہ کی سہولتوں کا معیار بلند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ خواندگی کی شرح بلند کیے بغیر بھی بہتر معیشت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکے گا۔
بنگلا دیش حکومت نے ملک بھر میں ٹیکسیشن آفسز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ درست سمت اٹھایا جانے والا قدم ہے۔ محصولات کا گراف بلند کیے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن ہی نہیں۔ مگر یہ سب کچھ ایسی آسانی سے نہیں ہوجائے گا۔ بنگلا دیش بھی ترقی پذیر ممالک میں سے ہے، جہاں لوگ ٹیکس دینے پر یقین نہیں رکھتے۔ لوگوں سے اور بالخصوص دولت مند طبقے سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا عمل خون خرابے پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔ بدعنوانی بھی ایک اہم رکاوٹ ہے۔ تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار سرکاری مشینری کے پرزوں کو رشوت دے کر ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں۔ حکمراں جماعت اس حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ حکمراں جماعت کے لوگ ٹیکس چوری میں مدد دینے کے حوالے سے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ ٹیکس کی وصولی میں دیانت لازم ہے۔ اس حوالے سے بیورو کریسی کو کوئی ایسا نظام وضع کرنا پڑے گا جس میں بے ایمانی کم ہو اور لوگ بخوشی ٹیکس دینے پر رضامند ہوں۔ ٹیکس دینے والوں کو اس بات کا بھرپور یقین ہونا چاہیے کہ وہ جو کچھ دیں گے، وہ بہتر ڈھنگ سے استعمال کیا جائے گا، ملک کی بہتری میں کام آئے گا۔ اس وقت بنگلا دیش کی سول ملٹری بیورو کریسی کے کرپٹ عناصر ملک کو غیر معمولی حد تک نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہیں لگام دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک انہیں لگام نہیں دی جاتی، ملک کے حالات بہتر بنانے کی کوئی بھی کوشش زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
جمہوری اصولوں کو پروان چڑھائے بغیر اور قانون کی بالا دستی کو ہر حال میں یقینی بنائے بغیر، پائیدار ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے بارے میں سوچنا محض حماقت پر مبنی ہے، اور کچھ نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
‘Disparity bulge’ dwarfs development mirage. (“weeklyholiday.net”. April 8, 2016)
‘ jamhoori usuloon , ko parwan charrhana’ aur’ qanoon ki baladasti’ ??Will this ever be possible in our part of the world ?