گزشتہ منگل کے روز کابل میں افغانستان کے مستقبل کے متعلق منعقد ہونے والی کانفرنس میں ظاہر کیے گئے عزم اور قراردادوں کے باوجود امریکا کی موجودہ کائونٹر انسرجنسی اسٹریٹجی (COIN) یعنی انسدادِ شورش و فساد کی حکمت عملی امکانی طور پر ناکام ہو جائے گی۔ پشتون افغانستان میں طالبان کو اتنا زیادہ کمزور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مجبور ہو کر مذاکرات کی میز پر آجائیں۔ امریکا افغان پشتونوں کی بڑی تعداد کی ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکتا، جن پر اس حکمت عملی کا انحصار ہے۔ صدر حامد کرزئی کی انتہائی کرپٹ حکومت میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ افغانستان کی فوج کئی سال تک کبھی بھی طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پاکستانی فوج کی طرف سے افغان طالبان کی حمایت جاری ہے اور طویل مدتی COIN حکمتِ عملی اور بہت مختصر امریکا کی سیاسی موقع کی تلاش آپس میں ہم آہنگ نہیں۔
صدر بارک اوباما نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی انتظامیہ کی افغان پالیسی کا دسمبر میں دوبارہ جائزہ لیں گے۔ اس جائزے کے بعد امریکا کو انخلا کے متعلق باتیں ختم کر دینی چاہئیں اور تسلیم کر لینا چاہیے کہ طالبان بیشتر جنوبی پشتون علاقوں کا کنٹرول لازمی طور پر حاصل کر لیں گے۔ اس کے بجائے امریکا کو کوشش کرنی چاہیے کہ شمالی اور مغربی افغانستان کے علاقے بھی طالبان کے پاس نہ چلے جائیں۔ اس قسم کے حالات افغانستان میں امریکا کی دس سالہ جدوجہد کے لیے نہایت مایوس کن ہوں گے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب یہی ایک راستہ ہے جو حقیقت پسندی کے پیشِ نظر رکھتے ہوئے اختیار کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے میڈیا کی رپورٹوں میں ایک نئی اپروچ کی حمایت کی جا رہی ہے، یعنی مذاکرات کی۔ لیکن جیسا کہ حال ہی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا نے طالبان کے رویے کے متعلق کہا ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جیت رہے ہیں تو انہیں خلوص دل سے مذاکرات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگلے سال امریکا کو اپنی ساری فوج واپس بلا لینی چاہیے۔ لیکن ایسا کرنا امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک بہت بڑی شکست ہوگی، جس سے کئی سال تک ساری دنیا پر منفی اثرات پڑتے رہیں گے۔
اسی طرح ان لوگوں کی سوچ بھی غلط ہے، جو کہتے ہیں کہ امریکا کو مستقل مزاجی کے ساتھ افغانستان میں موجود رہنا چاہیے چاہے اس میں کتنی ہی مدت کیوں نہ لگے۔ اب سی آئی اے کا بھی خیال ہے کہ افغانستان میں بمشکل ۵۰ سے ایک سو القاعدہ جنگجو باقی رہ گئے ہیں، جو ایک لاکھ امریکی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ افغانستان میں اصل مقصد القاعدہ کو تباہ کرنا تھا، طالبان کے ساتھ جنگ کرنا نہیں۔ یہ مقصد کافی حد تک پورا ہو گیا ہے۔
اگر افغان طالبان نے القاعدہ کو دعوت دی کہ وہ بڑی تعداد میں آکر ان کا ساتھ دیں تو تقریباً تین سو القاعدہ جنگجو پاکستان سے سرحد پار کر کے آئیں گے اور اتنی تھوڑی تعداد سے خطرہ زیادہ نہیں ہو گا۔ ایسے واقعہ کو روکنے کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ زمینی جنگ غیر معینہ مدت کے لیے جاری رکھی جائے اور امریکا اور اتحادی افواج کی مزید ہزاروں ہلاکتیں ہوں؟ امریکا ہر حال میں سرحد کے دونوں طرف القاعدہ پر حملہ کر سکتا ہے۔
کچھ دوسرے لوگ اس بات پر پریشان ہیں کہ اس قسم کی تقسیم پر طالبان سنگلاخ سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے اور وہ سارے ملک کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر امریکی اور اتحادی افواج کی طاقت اور افغان آرمی کی بڑھتی ہوئی صلاحیتیں انہیں روک سکتی ہیں؟ اس میں کسی کو شک نہیں کہ اگر امریکی فوج زیادہ مدت تک افغانستان میں رہے تو وہاں ایک نئی خانہ جنگی کا امکان ہے۔ طالبان کے زیراثر علاقوں میں عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی اور بدقسمتی سے اور ناگزیر نتیجے کے طور پر جنوب اور مشرق میں غیر پشتونوں کے چھوٹے چھوٹے علاقے بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ مگر پھر بھی امریکا ان پشتون قبائلیوں کی مدد کر سکتا ہے، جو طالبان کے خلاف ہیں۔
خطے کو درپیش وسیع خطرات کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ طالبان ملک کے اپنے زیراثر علاقوں کو ’’پشتونستان‘‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ ’’دوسرے ملکوں کے لیے یوٹوپیا ایک مبارک اور خوش قسمت ماضی تھا جسے دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ مگر امریکیوں کے لیے یہ افق کے اس پار ہے‘‘۔ متعدد خامیوں کے ہوتے ہوئے بھی افغانستان کی تقسیم محض ایک خیال ہے۔
(بشکریہ: ’’فنانشل ٹائمز‘‘۔)
Leave a Reply