
دسمبر ۲۱ /۲۰۱۵ء کو تقریباً اُسی وقت، جبکہ آدھی دنیا مختلف جگہوں پہ جمع ہو کر ہولی منارہی تھی، جبوتی نامی چھوٹے اور گم نام افریقی ملک میں حکومتی سکیورٹی فورسز نے ایک سڑک پر فائرنگ کرکے ۱۹؍افراد ہلاک کردیے۔ ’’وائس آف امریکا‘‘ کے مطابق اہلکاروں نے ایک مرحوم مذہبی رہنما کی یادگاری تقریب کو نشانہ بنایا جوکہ حکومت مخالف حلقوں میں بہت مقبول تھے۔ درجنوں شہریوں اور اپوزیشن کے ایک رکن پارلیمان سمیت حزب اختلاف کے ایک اہم رہنما احمد یوسف بھی اس کارروائی میں زخمی ہوئے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں جبوتی کی حکومت پر تحمل سے کام لینے اور آزادیٔ اظہارِ رائے کا احترام کرنے کے لیے زور دیا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کی بات سنی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ان کارروائیوں کا وقت بھی اہم ہے، کیونکہ ملک میں اس سال اپریل ۲۰۱۶ء میں صدارتی انتخاب ہونے جارہا ہے۔
بحیرۂ احمر کے کنارے پر واقع جبوتی (آبادی ۸,۷۳,۰۰۰ ۔ رقبہ ۲۳,۲۰۰ مربع کلو میٹر)، امریکی ریاست نیو جرسی سے کچھ ہی بڑا ہے اور اس کی سرحدیں اریٹیریا، ایتھوپیا اور صومالیہ سے ملتی ہیں۔ جبوتی پہلے بنط کے خطے (Land of Punt) میں شامل تھا جس نے ۱۹۷۷ء میں فرانسیسی تسلط سے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ یہاں بسنے والے تقریباً تمام ۸ لاکھ افراد مسلمان ہیں اور نسلی وحدت نہ ہونے کے باوجود یہاں نسل پرست گروہوں میں لڑائی دیکھنے میں نہیں آئی، جس کی ایک وجہ صدر اسماعیل عمر جلیہ کا آمرانہ اقتدار بھی ہے۔
ڈیلی بیسٹ (Daily Beast) میں ٹم میک (Tim Mak) نے عوام کو پسماندہ رکھ کر ملک پر راج کرنے والے بدعنوان طبقے کی ہولناک منظر کشی کی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں صدر منتخب ہونے والے اسماعیل عمر کو اپوزیشن کو کچل کر اقتدار بچائے رکھنے والا معمولی حکمران سمجھا جاتا ہے۔ جب جبوتی پر ۲۰۱۱ء کی بہار عرب کے اثرات پڑنے لگے تو ان کے حاشیہ برداروں نے فوری طور پر احتجاج کو کچل ڈالا اور اسماعیل ایک ایسا متنازعہ انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوگئے جس کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا کیونکہ اس کے امیدواروں کو پولنگ سے قبل دو بار جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی۔ توقعات کے عین مطابق، معمر اسماعیل نے گزشتہ سال کے اواخر میں اعلان کیا کہ وہ مسلسل چوتھی بار صدارت کا انتخاب لڑیں گے۔
مغربی تنقید برداشت کرنے والے افریقا کے دیگر مردانِ آہن کے برعکس اسماعیل عمر کو نظر انداز کیا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ چھوٹا سا افریقی ملک اپنی واحد قوت کا بھرپور استعمال کررہا ہے، یعنی بحیرۂ احمر کے کنارے اس کی تزویراتی حیثیت، جس کی بدولت اس کے ساحلوں پر سات ملکوں کی فوج کو جگہ ملی ہوئی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کا واحد اڈا یہاں ہے، فرانسیسیوں نے یہاں عسکری موجودگی رکھی ہوئی ہے، اور یہی حال امریکیوں، اطالویوں، جرمنوں اور ہسپانویوں کا ہے اور عنقریب چین بھی ایسا کرنے والا ہے۔
افریقا میں کیمپ لیمونئیر نامی غالباً سب سے اہم امریکی اڈا ایسی جگہ واقع ہے جسے پہلے فرانسیسی فوج نے استعمال کیا تھا۔ ۲۰۰۱ء میں امریکا میں القاعدہ کے حملوں کے بعد اس کیمپ کو بحری اڈے کے طور پر تیار کیا گیا، جسے اب دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اہم مرکز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ اڈا جبوتی امبولی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے جنوب میں واقع ہے جہاں سے سالانہ ۳۰ ہزار امریکی پروازیں آتی جاتی ہیں جو ہوائی اڈے کی کُل پروازوں کا تقریباً نصف ہے۔ امریکی حکومت اس سہولت کو استعمال کرنے کے لیے سالانہ ۷۰ ملین ڈالر دیتی ہے جو اس کے فوجیوں کے لیے بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا صدر اسماعیل عمر کے لیے۔
واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقات کے مطابق یہاں فضائی ٹریفک کا نظام تباہی سے دوچار ہے۔ کنٹرولر ڈیوٹی پر ہوتے ہوئے سو جاتے ہیں، پائلٹس سے گفتگو کے دوران موبائل فون بھی استعمال کرتے رہتے ہیں، اور جن پائلٹس کو گستاخ تصور کرتے ہیں، ان سے ’’سزا‘‘ کے طور پر اس وقت تک بات نہیں کرتے جب تک کہ وہ ایندھن کی کمی کے باعث نچلی پرواز نہ کرنے لگیں۔ امریکی حکومت نے سات ملین ڈالر خرچ کرکے کچھ سال پہلے ان ایئر ٹریفک کنٹرول کو دوبارہ تربیت دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کلاسیں لینی چھوڑ کر امریکی ماہرین کو ٹاور میں بند کرنا شروع کردیا۔
لیکن یہ اس فضول صحرائی خطے کی واحد خاصیت نہیں ہے۔ ’’قات‘‘ کہلانے والا ایک پودے کی بھی جبوتی کی ثقافت اور سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ سائنسی اعتبار سے Catha edulis کہلانے والے اس پودے میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو بھوک کم کرکے جوش و جذبہ بڑھا دیتے ہیں۔ نکوٹین کی طرح تو نہیں، لیکن اس پودے کا استعمال لوگوں کے اعصاب اس حد تک پُرسکون کردیتا ہے کہ انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اور یہی موجودہ حکومت کررہی ہے۔ صحافی میڈین اوکیے (Maydane Okiye) کے بقول ’’حکومت لوگوں کو پُرسکون رکھنے کے لیے قات کو مرکزی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگر عوام ناراض ہوجائیں یا دباؤ میں ہوں تو یقینی بنایا جاتا ہے کہ انہیں پُرسکون رکھنے کے لیے قات دستیاب ہو۔ ۸ گھنٹے تک تو وہ بہت پرجوش رہتے ہیں اور باقی ۸ گھنٹے سو کر گزار دیتے ہیں، یعنی ۱۶؍گھنٹے تو یونہی گزر جاتے ہیں‘‘۔
جیسے جیسے اپریل کا انتخاب قریب آرہا ہے، اسماعیل عمر جلیہ کی حکومت بلاشبہ یقینی بنارہی ہے کہ قات کی کافی مقدار سب کے ہاتھوں میں ہو۔ لیکن دسمبر کی جھڑپیں اشارہ دے رہی ہیں کہ جبر سے لوگوں کی آزادی کی خواہش کو اب مکمل طور پر فنا نہیں کیا جاسکتا، چاہے طاقت استعمال کی جائے یا قات۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Djibouti’s bloody start to the 2016 elections – OpEd”. (“eurasiareview.com”. January 16, 2016)
Leave a Reply