
دنیا کے چھ ارب لوگ سات ہزار کے لگ بھگ زبانیں بولتے ہیں۔ ان زبانوں میں عقل کو چکرا دینے والا صوتی اور نحوی تنوع پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف و نحو کا کوئی سخت سے سخت اصول سوچیں تو وہ بھی دنیا کی کسی نہ کسی زبان میں مل جائے گا۔
لیکن جدید دور کے چند ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ اس تمام تر رنگا رنگی یا انتشار کے باوجود ان ساری کی ساری زبانوں کے ڈانڈے ایک ہی زبان سے ملتے ہیں۔
آخر یہ ماہرین اس نتیجہ تک کیسے پہنچے؟ ہم نے یہی سوال میرٹ رولن کے سامنے رکھا جو بعض حلقوں کے مطابق اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ماہر لسانیات ہیں۔ موصوف کیلی فورنیا میں واقع اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور لسانیات کے موضوع پر کئی کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔
میرٹ رولن کہتے ہیں کہ جدید جینیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً پچاس ہزار برس قبل انسانوں کا ایک چھوٹا گروہ مشرقی افریقہ سے باہر نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروہ ایک ہی زبان بولتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے علاقائی اور موسمی تغیرات کے زیر اثر انسانی رنگ و روپ اور خدو خال میں تبدیلیاں آتی گئیں ویسے ہی یہ ابتدائی زبان مختلف خطوں میں جاکر بدلتے ہوئے ہزاروں مختلف اور باہم ناقابل فہم زبانوں میں ڈھلتی گئی۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے رولن نے کہا کہ اردو، ہندی، گجراتی، مراٹھی وغیرہ ایک ایسے لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں جسے ’’انڈک‘‘ کہا جاتا ہے۔ انڈک بذاتِ خود ایک بڑے خاندان انڈو یورپین سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح انڈو یورپین خاندان زبانوں کے ایک اور خاندان سے مشابہت رکھتا ہے جسے یورالک خاندان کہا جاتا ہے۔ اس خاندان میں ترکی، منگولیائی، ہنگریائی اور فنش وغیرہ شامل ہیں۔ ان دونوں خاندانوں کو ملا کر یورو ایشیاٹک خاندان کہا جاتا ہے۔ آج سے پچاس ہزار سال قبل مشرقی افریقہ سے انسانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا پر چھا گیا۔ اس وقت دنیا میں پائے جانے والے تمام افراد اسی گروہ کی اولاد ہیں۔ رولن کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام زبانوں کو یورو ایشیاٹک کی طرح کے ۱۲ بڑے خاندانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ۱۲ خاندان بھی ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ نہیں ہیں بلکہ ان کی کئی خصوصیات ایک دوسرے سے ملتی ہیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سارے خاندان شروع میں ایک تھے۔
اس قسم کی تحقیق ایسی ہی ہے جیسے کوئی درخت کے پتوں سے سفر کا آغاز کرے اور ڈنٹھلوں، ٹہنیوں، ڈالیوں اور شاخوں سے ہوتا ہوا تنے تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ پروفیسر رولن اور ان کے استاد جوزف گرین برگ اس ضمن میں ایک لفظ ٹیک (Tik) کی مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ لفظ دنیا کے اکثر لسانی خاندانوں میں پایا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہر جگہ کم و بیش ایک جیسا رہتا ہے۔ مذکورہ بالا صاحبان کا خیال ہے کہ اس لفظ کا ابتدائی مطلب تھا ’’انگلی‘‘ لیکن بعد میں اسی لفظ کا ماخوذ مطلب ہو گیا ’ایک‘ یا ’صرف‘۔ اب ذرا دنیا بھر میں اس ایک لفظ کی کثرت میں وحدت کی جلوہ آرائیوں کی چند عجیب و غریب مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
اسی تنوع کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانی اردو میں ایک لفظ اکثر دیکھنے میں آتا ہے ’ٹک‘ اس کی سب سے مشہور مثال میر کا شعر ہے۔
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
ٹک کا مطلب ہے ذرا، تھوڑا سا وغیرہ۔ اگرچہ گرین برگ اور رولن نے مندرجہ بالا فہرست میں اردو کا ذکر نہیں کیا، لیکن یہ بھی واضح طور پر اسی قبیل کی ہے۔ اس کے علاوہ چغتائی ترکی میں ایک لفظ پایا جاتا ہے۔ ٹیک اور اس کا مطلب بھی صرف ہے، اسی طرح ترکی کے لفظ ٹیکن، کا مطلب ایک ایک کر کے ہے یہی نہیں بلکہ مغربی چین کے باسی مسلمانوں کی زبان یوغور میں بھی لفظ ’ٹک‘ ملتا ہے اور اس کا مطلب بھی ’’صرف‘‘ ہے۔
اب کوئی معترض یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اردو یوغور اور ترکی میں تاریخی اور جغرافیائی اختلاط پایا جاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنوبی امریکا کے ملک ایکواڈور میں بولی جانے والی زبان سیونا کے ساتھ اردو کا کیا ربط ہے؟
یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ پروفیسر رولن کے ناقدین کی کمی نہیں اور ان میں سے کئی تو ایسے بھی ہیں جو ان کے نظریات کی انتہائی شدو مد سے مخالفت کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات تلخ کلامی اور ذاتیات تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے الفاظ کا مختلف زبانوں میں پایا جانا محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر وہ مختلف زبانوں میں ایسے اتفاقیہ الفاظ کی کوئی فہرست فراہم نہیں کر سکے۔
اردو، پنجابی سمیت شمالی ہندوستان کی بیشتر زبانیں، انڈویورپین، خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان زبانوں میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی، لاطینی، یونانی اور فارسی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ انڈو یورپین خاندان کا ماخذ کیا ہے اور اس کے اولین بولنے والے کون تھے، یہ سوال انتہائی متنازعہ رہا ہے اور گزشتہ کئی صدیوں سے اس پر بحث و تمحیص جاری ہے۔
پروفیسر رولن کے ایک ساتھی کولن رین فریو نے چند برس قبل ایک نظریہ پیش کیا تھا جس کے مطابق آج سے تقریباً سات ہزار برس پیشتر ترکی سے ایک قوم اٹھی اور چند صدیوں کے اندر اندر سارے یورپ اور وسطی ایشیا پر چھا گئی۔ اس قوم کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ زراعت کے علم سے بہرہ ور تھے جب کہ ان سے پہلے یورپ کے ایبورجنل، باسی صرف شکار سے پیٹ پالا کرتے تھے۔
رین فریو کے مطابق یہ لوگ اپنی زبان ساتھ لے گئے جسے آجکل پروٹو انڈو یورپین کہا جاتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے رفتہ رفتہ یورپ کی قدیم زبانوں کو معدوم کر کے ان کی جگہ لے لی۔ ان پرانی زبانوں کی ایک بچی کھچی مثال باسک زبان ہے جو آج بھی اسپین اور فرانس کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ کولن رین فریو اور میرپ رولن کا خیال ہے کہ بیشتر انڈو یورپین زبانوں کا منبع ترک کسانوں کی یہی زبان ہے۔ فارسی میں دیکھیے تو وہاں من و تو ملیں گے۔ یہی نہیں بلکہ یورپ کی اکثر زبانوں میں مذکورہ الفاظ کے لیے انہی آوازوں کی تکرار ملے گی، جب کہ لاطینی زبان میں تو مخاطب کے لیے اردو اور فارسی والے ’’ٹو‘‘ ہی سے کام چلاتے ہیں۔
اوپر باسک کا ذکر آیا تھا۔ اس زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک لینگویج آئسولیٹ، ہے۔ یعنی ایک ایسی زبان جس کا تعلق دنیا کی کسی اور زبان سے نہیں ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ میں بھی ایسی ہی ایک اور لینگویج آئسولیٹ بولی جاتی ہے۔ جس کا نام ہے بروشسکی۔ اس زبان کی مثال کچھ یوں سمجھیے کہ جیسے اردو کے افسانہ نگار سید رفیق حسین نے اپنے شاہکار افسانے ’’گڈھا‘‘ میں محکمہ انہار کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ ایک ایسا محکمہ ہے جس کا نہ کسی دوسرے محکمے سے سروکار اور نہ کسی اور محکمے کا اس سے کوئی لینا دینا۔
ہم نے ڈاکٹر رولن سے پوچھا کہ اگر تمام زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے تو پھر یہ ’’اچھوتی‘‘ زبانیں کیسے وجود میں آگئیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہاکہ یہ زبانیں مکمل طور پر اچھوتی نہیں ہیں اور گزشتہ بیس برسوں میں بعض ماہرینِ لسانیات نے بروشسکی، باسک اور ایک اور آئسولیٹ کیٹ میں کچھ قدر ہائے مشترک تلاش کی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں زبانیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جسے ڈینے کا ’’کیشین‘‘ کہا جاتا ہے۔ چینی زبان بھی اسی خاندان کی رکن ہے۔
پروفیسر رولن اور ان کے گرو جوزف گرین برگ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ زبانیں اتنی تیزی سے رنگ بدلتی ہیں کہ ان کے ہزاروں سال پرانے ماخذات کے بارے میں کچھ بھی کہنا نا ممکن ہے۔ لیکن رولن کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور کئی الفاظ ایسے ہیں جو بڑی مشکل سے بدلتے ہیں۔ ان الفاظ میں بنیادی اعضا کے نام (ہاتھ، انگلی، آنکھ، ناک، کان وغیرہ) بنیادی رشتے (ماں، باپ، بیٹا وغیرہ) اور قدرتی مظاہر (آگ، پانی وغیرہ) شامل ہیں اور یہ سب اتنے سخت جان الفاظ ہیں کہ انھیں بدلتے بدلتے بہت وقت لگتا ہے۔
زبان کی شیرازہ بندی کے یہ ماہرین اسی قسم کے ثابت قدم الفاظ کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی مدد سے زبانوں کو گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
اس وقت میرٹ رولن ایسے ماہرین لسانیات ہیں کہ ان سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں وہ زبان کے ارتقا پر مزید روشنی ڈالیں گے جس سے نہ صرف علم لسانیات میں اضافہ ہو گا بلکہ انسان کے تاریخی اور تہذیبی سفر کے کئی تاریک گوشے بھی منور ہو جائیں گے۔
(بحوالہ: ’’سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply