سب سے اچھی بات یہ ہے کہ برطانوی دور کے سرحدی تنازع یعنی ڈیورانڈ لائن پر کسی بھی فیصلے کا اختیار مسائل سے دوچار سرحد کی دونوں جانب رہنے والوں کو ہونا چاہیے جیسا کہ صدر حامد کرزئی واضح لفظوں میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد اور کابل کی حکومتیں اس پیچیدہ مسئلے کے حل میں بہت زیادہ بااختیار نہیں ہیں جس کا تعلق کروڑوں قبائلی لوگوں سے ہے اور جو سرحد کے تعین پر ہنوز متفق نہیں ہو سکے ہیں جو دونوں طرف کے پشتون خاندانوں کے مابین خطِ تقسیم کھینچتی ہو۔ لیکن ایک طالبان دوست پاکستانی سیاست داں جو یکے بعد دیگرے اپنے یوٹرن کے لیے بدنام ہے، نے حال ہی میں کابل کو تاکید کی ہے کہ وہ اس سرحد کو تسلیم کر لے جو برطانوی سفارت کا Sir Moretimer Durand کے نام سے معنون ہے اور جس نے ۱۸۹۳ء میں من مانہ طریقے سے اپنی پینسل کی نوک کا استعمال افغانستان اور برطانوی ہند کی سرزمین پر رہنے والے آزاد پختون خاندانوں کو تقسیم کرنے کے لیے کیا اور اسی کے کشیدہ سرحد کو بین الاقوامی سرحد قرار دیا گیا جو آج تک وجۂ تنازع ہے۔ ۲۳ اگست کو کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمن نے استدلال کیا کہ اس طرح کے اقدام سے کابل مسلم ہمسایوں کے مابین کشیدگی کے خاتمے میں مدد کر سکتا ہے۔ اپوزیشن رہنما کے اس حیران کن منطق کی رو سے مجوزہ اِقدام ایک عرصۂ دراز تک افغانستان کی سرزمین پر بھارت کی ’’غیرمعمولی سرگرمیوں‘‘ کو لگام دے سکتا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ افغانستان کا جھکائو روز بروز بھارت کی جانب ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے بھارت کی طرف سے دی جانے والی بھاری امداد ہے۔ اس کے بجائے قریبی ہمسایہ ممالک پر اعتماد اس کے لیے مفید نہیں ہے کیونکہ اس جنگ زدہ ملک میں دہشت گردی برآمد کرنے کے حوالے سے ان ممالک کی سرزنش کی جارہی ہے۔
افغانیوں کو مولانا فضل الرحمن سے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ کس طرح ننگرہار اور قندھار کے بھارتی قونصل خانے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر افغانستان میں یہ سفارتی مشن واقعتا پاکستان میں گڑبڑ کر رہے ہیں تو پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کو پاکستان میں کام کرنے کی کیونکر اجازت دے رکھی ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم ایم اے کے سیکرٹری جنرل نے خواہ مخواہ اپنے سر وہ مشکل کام لے لیا ہے جس سے دونوں حکومتیں اس لیے دانستہ گریز کرتی رہی ہیں کہ ان کے تعلقات مزید بگڑنے نہ پائیں۔ اپنے فرض کے تقاضے سے آگے جا کر ایک آتش فشانی تنازع کو پھر سے زندہ کر کے جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما نے اپنے مخالفین کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی چھڑی تھما دی ہے تاکہ وہ ان کی پٹائی لگائیں۔ اس مسئلے پر لب کشائی کرنے سے پہلے انھیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈیورانڈ لائن معاہدہ جو امیر عبدالرحمن کے ساتھ ہوا تھا، اس کی عملداری ایک صدی کے لیے تھی۔ اس زمانے میں جن مورخین کو تھوڑی سی بھی معروضیت کی حِس تھی، وہ گواہ ہیں کہ خیبر ایجنسی سے وادیٔ چترال تک کے علاقے کی حد بندی نہیں کی گئی تھی اور متنازع سرزمین معاہدہ کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ۱۹۹۳ء میں افغانستان کو واپس کی جاتی تھی۔ بہرحال اسلام آباد کو بہت زیادہ مایوسی کا سامنا ہوا جب افغان حکمرانوں نے بشمول طالبان اور افغان جنگجو قبائلی سرداروں نے اس معاہدہ کی تجدید کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے کہ اس معاہدہ کا تعلق جس قدر پاکستان کی تزویراتی عمق سے ہے، اسی قدر افغانستان کی خودمختاری سے ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا مطالبہ بِھڑ کے چھتّے کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ اس طرح کی اعلیٰ قدر و منزلت کی حامل سیاسی شخصیت سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے عمل، خودکش حملوں، انتہا پسندی اور روزافزوں شدت اختیار کرتی ہوئی طالبان کی شورش، القاعدہ کی موجودگی اور منشیات کی پھلتی پھولتی تجارت کی بھرپور مذمت کریں گے جو ہماری زندگیوں کی تباہی کا سبب ہیں۔ وہ اس اخلاقی ذمہ داری کو مخلصانہ طریقے سے انجام دے کر دونوں ممالک کی عظیم خدمت کر سکتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کریں گے؟ اس کے برعکس وہ اپنا وزن ان قوتوں کے پلڑہ میں ڈالنا چاہتے ہیں جو جہل سے دوچار اس خطے میں پاگل پن پر مبنی تشدد، ناخواندگی، بے روزگاری اور پسماندگی جیسے ناقابلِ بیان آلام و مصائب کا سبب بنی ہیں۔ چنانچہ ان کے پیش کردہ نسخے کے خلاف افغانی دانشوروں اور مبصرین کا جو بھرپور ردِعمل سامنے آیا ہے، اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار محمد حسن وولیسمال کا خیال ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے ڈیورانڈ لائن کو قانونی طور پر تسلیم کرنا آئی ایس آئی کی دیرینہ خواہش کو تسلیم کرنا ہو گا جو اپنی یہ آرزو ۶ سالوں تک طالبان حکومت کی حمایت کے ذریعہ بھی پوری نہ کر سکی۔ ’’حتیٰ کہ صدر کرزئی، مشرف اور بُش بھی اس لچکدار تنازع پر یکطرفہ طور سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ کسی پُرپیچ مسئلے کو انجان اور نامانوس انداز میں چھیڑنے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ اس سے ایسی آگ بڑھکے گی جو دنیا کے اس حصے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گی جو پہلے ہی متعدد چیلنجز سے دوچار ہے‘‘۔
اسی طرح ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر عبدالغفور لیوال کا خیال ہے کہ عوام نہ کہ حکومتوں کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اس پیچیدگی کو حل کریں۔ عبدالغفور لیوال کا کہنا ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ اس جذباتی مسئلے کو اٹھائیں لیکن پاکستان حکومت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی و تزویراتی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر علما کو آگے کرتی ہے۔ ’’اپنے مرکزی قومی مفادات کی تکمیل کے لیے ہمارے مذہبی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ فضل الرحمن سے سبق لیں کہ وہ پاکستانی حکومت کے کس قدر وفادار ہیں‘‘۔ شکریہ بارک زئی جو کہ ایک دبنگ خاتون پارلیمانی رکن ہیں اور جنہوں نے دائیں بازو کے عناصر پر جن کا کہ اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام آباد کے خیالات کو فروغ دینے پر کڑی تنقید کی ہے، کا خیال ہے کہ ڈیورانڈ لائن ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے ایم ایم اے کے شدت پسند، پرویز مشرف یا کرزئی اِسے حل کرنے سے عاجز ہیں۔ موصوفہ کا کہنا ہے کہ اس بحث کو عوام کے فیصلے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے جو اس کے اصل متاثرین ہیں جبکہ موصوفہ اس نکتے پر زور دیتی ہیں کہ دونوں طرف کے معتدل عناصر انتہا پسند عناصر پر دبائو ڈالیں۔ وکلا سے خطاب کرتے ہوئے ’’شاہی‘‘ اپوزیشن رہنما نے مشترکہ پاک افغان علاقائی امن جرگہ کو بھی اس بنا پر مسترد کر دیا کہ اس میں تنازع کے کلیدی فریق (طالبان) کے نمائندوں کو دعوت نہیں دی گئی، یہ ایک ایسا نقطۂ نظر تھا کہ جس کو بہتوں نے غلط قرار دیا۔ اس بڑے جرگے میں سبھوں کو دعوت دی گئی لیکن کچھ لوگوں نے اپنے آقائوں کی شہ پر اس کا بائیکاٹ کیا جو جرگہ کے متعلق یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ یہ ایک فضول اقدام ہے۔
فضل الرحمن کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن وہ اور ان کے ایم ایم اے کے ساتھیوں نے سوچ بچار کے اس عمل سے دور رہنے کو ترجیح دی جس کا مقصد دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین خلیج کو پاٹنا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف ایک مسترکہ محاذ قائم کرنا تھا۔ کاہنوں کی منحوس پیش گوئیوں کو غلط قرار دیتے ہوئے جرگہ ایک پہلی اچھی پیش رفت کے طور پر سامنے آیا، پاک افغان دوستی کے حوالے سے اور ان کے مابین بحالیٔ اعتماد کے قیام کے حوالے سے۔ ایسی حالت میں جبکہ مولانا فضل الرحمن کو اپنے وطن میں اعتماد کے بحران کا سامنا ہے انھیں اس فریب میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ وہ کبھی افغانیوں سے کوئی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب جبکہ انھوں نے کابل سے اپنی ناخوشگوار تجویز کو قبول کرنے پر اصرار کیا ہے کیا ایم ایم اے کے رہنما اس بات کی بھی جرأت کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت پر زور دیں کہ وہ افغان سرزمینوں پر اپنے ناقابلِ دفاع دعوے سے دستبردار ہو جائے جو اس وقت کے برطانوی ہند میں شامل تھیں۔ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے ان کے متعلق یہ خیال کیا جانا چاہیے کہ وہ دونوں برادر مسلمان ممالک کے مابین ثالثی کی خواہش کرتے وقت انصاف پسند ہونے کا ثبوت دیں گے۔
(نوٹ: مضمون نگار کابل میں مقیم ایک صحافی ہیں)
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۶ ستمبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply