
بلیک ہاک ڈاؤن آپ کو یاد ہے؟ ہارن آف افریقا کو ایک مدت تک شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ کا درجہ حاصل رہا ہے اور اب وہ ایک بار پھر خبروں میں ہے۔
گزشتہ سال ۲۱ ستمبر کو جنوبی افریقا میں امریکا کے سفارتی عملے کو ان کے گھروں پر رات کے وقت فون کرکے ہدایت کی گئی کہ اگلے دن کام پر نہ جائیں۔ امریکی دفتر خارجہ نے اس کی توضیح نہیں کی تاہم ایک مغربی انٹیلی جینس ذریعے نے بتایا کہ کیپ ٹاؤن میں القاعدہ کے ایک رکن کی فون کال سن لی گئی تھی جس میں جنوبی افریقا میں امریکی مفادات پر حملے پر گفتگو ہوئی تھی۔ کوئی حملہ نہیں ہوا اور تین دن بعد پریٹوریا میں سفارت خانہ اور دیگر شہروں میں قونصلیٹ کھول دیے گئے۔ جون اور جولائی میں جنوبی افریقا فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کرنے والا ہے۔ دنیا بھر سے پانچ لاکھ سے زائد افراد ان مقابلوں کو دیکھنے جنوبی افریقا آئیں گے۔ اس حوالے سے سیکورٹی پر مامور افراد کی پریشانی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ جس ٹیلی فون کال نے امریکی حکام کو پریشان کیا وہ صومالیہ سے کی گئی تھی۔
دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد سے وابستہ افراد کے ذہنوں پر صومالیہ کا موجود رہنا حیرت انگیز نہیں۔ ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سرگرم گروپ الشباب کے سربراہ شیخ فواد محمد شنگول نے یکم فروری کو اسامہ بن لادن سے وابستہ ہونے کا اعلان کیا۔
صومالیہ اور افغانستان کی کہانی ملتی جلتی ہے۔ دونوں ایک عشرے سے زائد مدت تک لڑائی میں مصروف رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں پہلے مرکزی حکومت کا خاتمہ ہوا اور اس کے بعد جنگجو سرداروں کے درمیان لڑائی ہوتی رہی۔ امریکا نے صومالیہ میں مرکزی حکومت بحال کرنے کی کوشش کی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ ۱۹۹۳ء میں دارالحکومت موغا دیشو میں ۱۸ ؍امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ یہ واقعہ بعد میں ’’بلیک ہاک ڈاؤن‘‘ نامی کتاب اور اسی نام کی فلم کا موضوع بنا۔ اس کے بعد الشباب گروپ ابھرا۔ انتہا پسند عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ لاقانونیت اور دیگر مسائل کا حل یہ ہے کہ اسلام کو پوری شدت کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ افغانستان اور صومالیہ میں بہت کچھ مشترک ہے۔ دونوں انتہائی غریب ہیں۔ دونوں میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو داڑھی بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں اور ہتھیاروں اور پک اپ ٹرکس کو استعمال کرتے ہیں۔
القاعدہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا سوال اٹھا تو اس نے پاک افغان سرحدی علاقے کو ترجیح دی۔ صومالیہ میدانی ملک ہے جہاں القاعدہ کے لیے زیادہ کھل کر کام کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ صومالیہ کے انتہا پسندوں نے اگست ۱۹۹۸ء میں نیروبی (کینیا) اور دارالسلام (تنزانیہ) کے امریکی سفارت خانوں پر حملوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ان حملوں میں ۲۲۴ ؍افراد مارے گئے تھے۔ اس کے بعد نومبر ۲۰۰۲ء کینیا میں ایک ایسے ہوٹل کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو ایک اسرائیلی کی ملکیت تھا۔ اس واقعے میں ۱۳ ؍افراد ہلاک ہوئے۔ حملہ کار بم سے کیا گیا۔ صومالیہ کے انتہا پسندوں نے نائن الیون کی سطح کے کسی واقعے کی منصوبہ بندی اور عملی کوشش نہیں کی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ صومالیہ کے انتہا پسند اپنی سوچ بدل چکے ہیں۔ فکر مند ہونے کی ضرورت یوں بھی ہے کہ خلیج عدن کے اس پار یمن ہے جہاں عمر فاروق عبدالمطلب نے تربیت حاصل کی تھی۔ یہ وہ نوجوان ہے جس نے کرسمس کے موقع پر ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والے طیارے کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
اگر الشباب بین الاقوامی نوعیت کی دہشت گردی کے حوالے سے خطرہ بنتا جارہا ہے تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ برسوں کی لڑائی کے باعث صومالیہ سے لوگ بڑی تعداد میں نکل کر دوسرے ممالک میں آباد ہوئے ہیں۔ صومالیہ کے باشندے اب کیپ ٹاؤن سے منیپولیس تک پائے جاتے ہیں۔ ان میں الشباب جیسے گروپوں سے ہمدردی رکھنے والے بھی ہیں۔ محفوظ ٹھکانے اور محفوظ تر مستقبل کی تلاش میں صومالیہ کے نوجوان دنیا بھر میں گئے ہیں۔ گزشتہ سال امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ناروے، سوئیڈن اور دوسرے بہت سے ممالک سے دو سے تین لاکھ صومالی نوجوان وطن واپس گئے۔ یہ بات مشرقی افریقا میں سفارتی اور انٹیلی جنس ذرائع نے بتائی ہے۔ صومالیہ میں ایک مغربی فوجی کا کہنا ہے کہ
بیرون ملک پیدا ہونے والے ان صومالی نوجوانوں میں الشباب جیسی تنظیم کے لیے خاصی کشش ہے۔ صومالیہ میں الشباب کے تقریباً تمام ہی سیلز کی سربراہی ایسے صومالی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو بیرون ملک پیدا ہوئے ہیں۔ گروپ کے تمام اہم فیصلے یہی لوگ کرتے ہیں۔
الشباب کے قائدین بیرون ملک سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مختلف ممالک میں مقیم صومالی باشندوں سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ یہ لوگ انتہا پسندوں کی بھرتی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ امریکا اور دیگر ممالک میں صومالی باشندوں کے انتہا پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا میں ایک درجن سے زائد صومالی باشندے اپنے گھروں سے غائب پائے گئے ہیں اور غالب امکان یہ ہے کہ انہوں نے صومالیہ میں کسی نہ کسی انتہا پسند گروپ سے وابستگی اختیار کرلی ہے۔ اب تک چار افراد پر دہشت گردی میں معاونت کی فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔ اگست میں آسٹریلوی پولیس نے میلبورن سے صومالی کمیونٹی کے چار افراد کو حراست میں لیا جن پر سڈنی میں فوجی بیرکس پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ ستمبر میں کیپ ٹاؤن میں القاعدہ کے رکن کی ٹیلی فون کال اس لیے سن لی گئی کہ انتہا پسندی کے لیے رقوم جمع کرنے کے حوالے سے متعدد افراد کی پہلے ہی نگرانی کی جارہی تھی۔ صومالیہ میں متعین مغربی فوجی کا کہنا ہے کہ ’’اگر صومالیہ کو دہشت گردی کے حوالے سے بڑا خطرہ قرار دینا ہے تو دیر کس بات کی ہے؟ یہ سوچنا بیکار ہے کہ صومالیہ جہادی سرگرمیوں کے لیے لانچنگ گراؤنڈ بن سکتا ہے۔ یہ تو پہلے ہی بن چکا ہے۔‘‘
صومالیہ میں عبوری وفاقی حکومت قائم ہے جس کی سربراہی ایک اعتدال پسند سیاسی شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا کے اتحادی ایتھوپیا نے ۲۰۰۶ء میں صومالیہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر انتہا پسندوں کی جگہ اعتدال پسند عناصر کو حکومت کی باگ ڈور سوپی تھی۔ سابق حکومت نے ایتھوپیا کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا۔ عبوری وفاقی حکومت غیر موثر دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کے بیشتر وزرا کینیا میں رہتے ہیں۔ صدر شیخ شریف احمد اور وزیر دفاع یوسف محمد صیاد البتہ ملک ہی میں رہتے ہیں۔ یوسف محمد صیاد پر ۱۵ ؍فروری کو موغادیشو میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ افریقی اتحاد کی تنظیم کی جانب سے ۵۳۰۰ فوجی صومالیہ میں تعینات ہیں۔ ان میں بڑی تعداد یوگنڈا اور برونڈی کے فوجیوں کی ہے۔ اس کے باوجود صومالیہ کی حکومت کی عملداری موغادیشو کے چند علاقوں تک محدود ہے! موثر حکومت کا قیام ہی صومالیہ کے مسائل حل کرنے کی راہ ہموار کرے گا اور یہی وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
عبوری حکومت کے لیے بیرونی امداد کم کم ملی ہے۔ افریقی اتحاد کی تنظیم کے تحت تعینات کیے جانے والے فوجیوں پر اب تک ۱۶ ؍کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ امریکا نے بھی امداد دی ہے۔ چند غیر ملکی عسکریت پسندوں کی گرفتاری مقامی رہنماؤں کی مدد سے ممکن بنائی جاسکی ہے۔ امریکا نے اب تک صومالیہ میں ۶ بار فضائی آپریشن کیا ہے جس کے نتیجے میں مئی ۲۰۰۸ء میں الشباب کا لیڈر عدن ہاشی فرح ایرو مارا گیا جبکہ گزشتہ ستمبر میں ایک فضائی حملے میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والا لیڈر اور ۲۰۰۲ء میں کینیا میں اسرائیلی کی ملکیت والے ہوٹل کی تباہی کی منصوبہ بندی کرنے والا صالح علی صالح نبہان مارا گیا۔ امریکا کو عسکری کارروائیوں میں کسی بھی ملک کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ خوراک کے بحران اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے البتہ امداد عالمی برادری نے فراہم کی ہے۔ قزاقوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اب عالمی برادری حرکت میں آچکی ہے۔ بیس سے زائد ممالک کے بحری جہازوں کا بیڑا خلیج عدن اور بحر ہند میں صومالی قزاقوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
کیا واقعی صومالیہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ صومالیہ میں الشباب خطرہ ضرور ہے تاہم اتنا بڑا نہیں کہ اس کے بارے میں زیادہ سوچ کر پریشان ہوا جائے۔ اس سے کہیں بڑے اور مضبوط گینگ تو لاس اینجلس میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک کہیں بڑا ہے۔ الشباب بڑے پیمانے پر بیرونی امداد بھی نہیں پاسکتا۔ اور پھر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ صرف اری ٹیریا اس کی مدد کر رہا ہے۔ اری ٹیریا اور ایتھوپیا روایتی حریف ہیں۔ الشباب نے دشمن کے دشمن کو اپنا بنالیا ہے۔ کینیا میں امریکی سفیر مائیکل رینیبرگر کہتے ہیں کہ صومالیہ کی صورت حال بہت مختلف ہے۔ اس کے پڑوس میں کوئی ایٹمی قوت نہیں۔ ہمارے لیے پریشانی کا باعث تو افغانستان اور پاکستان کے عسکریت پسند ہیں۔ صومالیہ تو خاصی پس منظر کی چیز ہے۔
جب دہشت گردی کے بارے میں کوئی تجزیہ کیا جاتا ہے تو افرادی قوت کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی اہمیت کسی کو نقصان پہنچانے کے عزم کی ہوتی ہے۔ الشباب سے نمٹنے کے لیے اب زیادہ پرعزم ہوکر لڑنے کی بات ہو رہی ہے۔ افریقی اتحاد کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی امن فوج کو وسعت دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ موغادیشو میں گرین زون قائم کیا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے کسی بڑی کارروائی کی اطلاع پاکر الشباب کے سیکڑوں کارکن موغادیشو میں جمع ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب یوگنڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے تجویز پیش کی ہے کہ صومالیہ پر حملہ کرکے جنوبی بندرگاہ کشمایو پر قبضہ کیا جائے تاکہ الشباب کے خلاف بھرپور آپریشن ممکن ہو۔ ۱۹۹۳ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اس کا خاصا بھیانک نتیجہ برآمد ہوا تھا۔ امریکا اب شاید ایسی کسی بھی تجویز پر عمل کو ترجیح نہیں دے گا۔ بہر کیف، حقیقت یہ ہے کہ صومالیہ سے اب بھی خطرہ محسوس کیا جارہا ہے اور اسی لیے اس کے خلاف کسی بڑی کارروائی کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ یکم مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply