
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے ۲۲؍اگست کو اعلان کیا کہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے بیلٹ باکسز کا ۶۳ فیصد آڈٹ مکمل ہوچکا ہے اور ۲۵؍اگست کو فیصلہ سنانے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔ پہلے مرحلے کے فاتح عبداللہ عبداللہ اور دوسرے مرحلے کے فاتح اشرف غنی احمد زئی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے دوسرے مرحلے میں ۴۵ فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ اشرف غنی احمد زئی نے ۵۶ فیصد ووٹ لیے جن میں دھاندلی ہونے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
افغانستان میں دوسرے مرحلے میں ڈالے جانے والے ۸۱ لاکھ ووٹوں کا کڑی بین الاقوامی نگرانی میں بے مثال آڈٹ کیا جارہا ہے جس کی سربراہی اقوام متحدہ کررہی ہے۔ یہ آڈٹ اقوام متحدہ کے انتہائی اعلیٰ سطح کے انتخابی ماہرین کی موجودگی میں کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان جان کیوبس کے مطابق اس آڈٹ کا مقصد انتخابی عمل کے دوران ڈالے گئے لاکھوں ووٹوں میں سے جعلی ووٹوں کا پتا لگانا ہے۔
یہ آڈٹ اس منصوبے کا پہلا حصہ ہے جو امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے پیش کیا ہے اور جس پر دونوں امیدواروں نے اتفاق کیا ہے۔ جان کیری کی پیشکش کا دوسرا حصہ ایک قومی اتحادی حکومت کا قیام ہے جو ایک ایسی مشترکہ حکومت ہوگی جس میں ایک صدر ہوگا اور ایک چیف ایگزیکٹو۔
اگرچہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اور انتخابی عمل کی ساکھ کو یقینی بنانے کے لیے ۱۰۰؍فیصد ووٹوں کا آڈٹ کرانا جان کیری کا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ تاہم یہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ قومی اتحادی حکومت کا قیام ایک غیرمتعلقہ قدم ہے جو الیکشن کے نتائج کو بیکار کردے گا اور جسے عوام میں بھی منظوری حاصل نہیں ہوگی۔ دونوں امیدوار اب تک الیکشن میں منتخب نہیں ہوئے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
یقینا جان کیری کی نگرانی میں ہونے والے معاہدے سے دونوں امیدواروں کو فائدہ ہوگا کیونکہ یہ معاہدہ دونوں کو اقتدار کی ایک ایک کرسی کی ضمانت دیتا ہے چاہے الیکشن کے نتائج جو بھی ہوں۔ وہ ایسے کہ فاتح صدر بن جائے گا اور ہارنے والا چیف ایگزیکٹیو اور اس کے پاس وزیراعظم بننے کا بھی موقع ہوگا۔ الیکشن کے بعد پیدا ہونے والے تنازع کا ایک عمدہ تاثر پیش کرکے اس معاہدے سے اوباما حکومت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس کے نتیجے میں امریکا ۲۰۱۴ء کے اختتام سے قبل نئے افغان صدر سے دو طرفہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کرانے کے بھی قابل ہوجائے گا۔
لیکن افغانستان کے عوام کے لیے قومی اتحادی حکومت کا سیاسی ڈھانچہ ان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافے کا ہی سبب بنے گا۔ مخلوط کمیشن جسے دونوں فریقوں میں اختلافات ختم کرنے کا کام سونپا گیا تھا بذات خود اختلافات کا شکار ہے۔ دونوں فریقین معاہدے کی ایک دوسرے سے بہت مختلف اپنی اپنی مرضی کی تشریحات پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر کشیدگیاں جنم لے رہی ہیں۔ صوبہ بلخ کا گورنر عطا محمد نور عبداللہ عبداللہ کا حامی ہے جس نے دھوکا دہی کی صورت میں بغاوت کی دھمکی دی ہے۔
ایک اختلافی حکومت؟
آڈٹ عمل کے دوران اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان یوناما (UNAMA) کو کئی بیانات جاری کرنے پڑے جن میں امیدواروں کی ٹیموں پر ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے کے لیے زور دیا گیا۔ یوناما نے اپنے تازہ ترین بیان میں ۱۹؍اگست کو عبداللہ عبداللہ کے حامیوں اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی سخت مذمت کی جن میں متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
انتخابی عمل کو اب پورے پانچ ماہ ہوچکے ہیں اور اس عرصے کے دوران ہم نے دیکھا کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ، گالم گلوچ، دھینگا مشتی، مکے بازی اور گندی زبان استعمال کی گئی، اور ہم نے جان کیری کی ثالثی میں ہونے والی پریس کانفرنسوں میں دونوں امیدواروں کو ایک دوسرے کو چومتے اور گلے لگاتے بھی دیکھا۔ تقریباً آدھے ملک میں جاری مسلح جھڑپوں کی طرح یہ بھی افغانستان میں کچھ شناسا سے مناظر ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ۱۹۹۰ء کی دہائی کے مختصر مدت کے لیے بنتے ٹوٹتے اتحاد بھی یاد ہیں جو مزید خونریزی و انتشار پھیلاتے تھے۔
اس سے پہلے دنیا کے بہت سے حصوں میں بھی اتحادی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن زیادہ تر صورتوں میں وہ ایک خراب انتخابی عمل کی علامت ہوا کرتی تھیں جس کا نتیجہ عموماً استحکام کی صورت میں نہیں نکلتا تھا۔ وہ عموماً دو فریقوں کے درمیان کشیدگی کو عارضی طور پر تو کم کردیا کرتی تھیں لیکن بنیادی وجوہات کو پائیدار بنیادوں پر ختم کرنے میں ناکام رہتی تھیں۔ درحقیقیت تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کثیر النسل ممالک میں اتحادی حکومتوں نے نسلی بنیادوں پر مزید خونریزی ہی پھیلائی۔
افغانستان انتہائی حساس کثیر النسل معاشرہ ہے جسے سنگین نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز اور کمزور ڈھانچے کے مسائل درپیش ہیں۔ اگر غلط تدابیر اختیار کی گئیں تو ریاست کا یہ کمزور ڈھانچا بآسانی منہدم ہوسکتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں سلامتی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اور افغان فوج ۳۴ میں سے ۱۴؍صوبوں میں سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا کررہی ہے جس کی ایک وجہ بہت طوالت اختیار کرنے والا انتخابی عمل بھی ہے۔ حالیہ خونریزی گزشتہ ۱۳؍سال میں سب سے شدید قرار دی جارہی ہے۔
اگر ہم قومی اتحادی حکومت کے معاہدے کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ الجھن اور اختلافات میں مزید اضافہ ہی کرے گا۔ معاہدے کی پہلی شق کے مطابق قومی اتحادی حکومت کے قیام کا مقصد امن، استحکام، سلامتی، قانون کی بالادستی، انصاف، معاشی ترقی اور خدمات کی فراہمی کے لیے ایک جامع پروگرام کی تشکیل اور اس کا نفاذ ہے۔
ہم نے گزشتہ ۱۳؍سال کے دوران کتنی ہی بار حکمرانوں کے منہ سے یہ وعدے اور دعوے سنے ہیں اور کتنی ہی بار دیرینہ مسائل مثلاً کرپشن کی وجہ سے ان وعدوں اور دعووں کا پورا ہونا ناممکن ثابت ہوا۔ لہٰذا ایک ایسی مشترکہ حکومت کہ جس کا باہمی اختلاف کی وجہ سے مفلوج ہونے کا بہت امکان ہو، میں ان وعدوں کا پورا ہونا بہت مشکل ہوگا۔ اس موقف کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ دونوں حریف ٹیموں میں بہت ساری مضبوط اور قدآور شخصیات موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کے اپنے اصول و قوانین، اپنا ایجنڈا اور اپنی جاگیریں ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جو شراکت اقتدار و برداشت سے کسی طور ہم آہنگ نہیں۔
اس سب کے باوجود، افغانستان کے عوام مزید الجھنوں کا شکار ہوئے بغیر اب بھی آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں ایک جامع آڈٹ کے بعد واضح اور متعین انتخابی نتائج کی ضرورت ہوگی جس کے ذریعے انہیں ایک قانونی و منتخب صدر مل سکے جو ان کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترے۔ افغانستان کے عوام کو طاقت کے انہی مراکز کی جانب سے ایک اور معاہدے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں جو ان کے اندرونی جھگڑوں کو سلجھائے بنا اور اتفاق رائے و جمہوریت پیدا کیے بغیر انہیں دوبارہ ان کے حال پر چھوڑ سکتے ہیں۔
“Does Afghanistan need a unity government?”. (“Al-Jazira”. August 24, 2014)
Leave a Reply