
پندرہ برس سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے تجربات خاصے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں امریکی پالیسی کی ناکامی سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور یوں غیر معمولی سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ ٹرمپ نے ایک ریلی سے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ جن حکومتوں کو امریکا نہیں جانتا ان کا تختہ الٹنے سے گریز کیا جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مداخلت کرنے کا تباہ کن چکر اب ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں صرف افرا تفری پھیلتی ہے، اور کچھ نہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگجویانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں ایسے افراد کو شامل کرلیا ہے، جو دوسرے ممالک میں مداخلت کے مخالف نہیں رہے۔ مستقل مزاجی ایک طرف، ایسا لگتا ہے کہ ووٹروں نے اس بات کو پسند کیا کہ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کرنے کی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کی جانچ کا معیار محض ناپسندیدہ حکومتیں تبدیل کرنے یا دہشت گردوں کا تعاقب کرنے سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہیے۔ افغانستان میں قوم سازی اور داعش سے لڑنے کی ہماری ناکام کوششوں کے علاوہ ہمارے پاس مداخلت کا جواز تیل رہا ہے۔ اب حالات نے ثابت کردیا ہے کہ وہاں تعینات دستے تیل کی آزادانہ ترسیل کے لیے کافی نہیں۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ۳۵ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ان میں سے ۱۳؍ہزار کویت اور ۵ ہزار بحرین میں ہیں۔ ان کی تعیناتی کا بنیادی مقصد توانائی کے وسائل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج کی تعیناتی کے توانائی سے متعلق ۴ مقاصد ہیں:
۱) کسی علاقائی طاقت کو سراٹھانے سے روکنا کہ مبادا وہ تیل کے وسائل پر قبضہ کرلے۔
۲) کسی بیرونی طاقت کو علاقے میں مداخلت سے روکنا۔
۳) علاقائی کشمکش کو محدود کرنے کی کوشش تاکہ وہ کسی وسیع جنگ کی صورت نہ اختیار کرے اور یوں تیل کی فراہمی متاثر نہ ہو، اور
۴) آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانا۔ آبنائے ہرمز سے تیل کی عالمی رسد کا ۳۰ فیصد گزرتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا امن کے زمانے میں تعینات فوج نے ان مقاصد کا حصول یقینی بنایا ہے؟ چارلس ایل گلیسر اور روزمیری اے کیلانک کے مطابق ’’روایتی دانائی کے مطابق امریکا کے خلیج کے تیل سے وا بستہ مفادات کو بے حد خطرات لاحق ہوچکے ہیں، چنانچہ امریکا کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ عسکری صلاحیت بروئے کار لاکر ان کا دفاع کرے۔ تاہم آج یہ معروضہ غلط ثابت ہوچکا ہے‘‘۔
ڈینئل ایف ایس کوہن اور جوناتھن کرشنر کا کہنا ہے کہ ’’توانائی کا عدم تحفظ‘‘ پالیسی سازوں کے لیے ایک معمول کی بات ہے۔ کچھ دانشور اسے محض ایک اسطوری داستان سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ توانائی کے وسائل کی حفاظت کے لیے وسیع فوجی وسائل مختص کرنا ایک بھاری غلطی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج امریکا کا خلیج کے تیل پر انحصار ماضی کی نسبت بہت کم ہوچکا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں امریکا میں استعمال ہونے والا صرف ۲۴ فیصد تیل خلیجی ممالک سے درآمد کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے خلیج سے تیل کی درآمد میں اتنی کمی کبھی نہیں دیکھنے میں آئی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت امریکا ساحلی چٹانوں سے تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ ۲۰۰۸ء سے امریکا کی خام تیل کی پیداوار میں ۷۵ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امکان ہے کہ ۲۰۲۰ء تک درآمدی حجم ۵۵ فیصد تک کم ہوجائے گا۔ کینیڈا کی تیل کی پیداوار بھی ۲۰۴۰ء تک دگنی ہوجائے گی۔ شمالی امریکا بھی ۲۰۲۰ء تک تیل برآمد کرنے والا اہم خطہ بن جائے گا اور یہ صورت حال ۲۰۴۰ء تک برقرار رہے گی۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ تیل عالمی تجارت کی اہم ترین جنس ہے اور دیگر اجناس کی طرح اس پر بھی طلب اور رسد کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ کسی بھی رسد کے ذریعے پیدا ہونے والے مسائل سے اس کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔ ۱۹۷۳ء کے بعد سے آنے والے ہر آئل شاک کے بعد عالمی مارکیٹ نے خود کو رسد کے دیگر ذرائع کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی اور یوں تیل کے نرخوں کو بے قابو ہونے سے روکا۔ منڈی میں ہونے والے اس تغیر نے آئل شاک کے نتائج اور مضمرات کو کم کردیا، یہاں تک کہ رسد اور نرخ معمول پر آگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ خلیج میں موجود امریکی فوج نے اس تعطل کو نہیں روکا اور نہ ہی اس کے نتیجے میں ہونے والے مالی خسارے کا مداوا کیا۔
عالمی سطح پر اور خطے میں طاقت کا توازن، توانائی کی سیکورٹی کے حق میں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خلیج میں قدم جمانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوویت یونین بہرحال آج موجود نہیں اور موجودہ روس کو معاشی مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔ وہ چند ایک چھوٹی موٹی کارروائیاں تو کرسکتا ہے مگر مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کی پوزیشن میں نہیں۔ چین کی طاقت میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے مگر وہ ایشیا پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ وہ سیاسی اور معاشی طورپر خلیج کا رخ کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ جو شارونر کے مطابق ’’اگلے بیس سال تک خلیج سے کسی طاقت کے ابھرنے اور تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر وہاں سے امریکا اپنی فوج کو مکمل طور پر نکال لے تب بھی ایسا نہیں ہوگا‘‘۔
یہ تینوں عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ خلیج میں کسی بیرونی طاقت کا تیل کے وسائل پر قبضہ کرنا اور کسی علاقائی طاقت کا تیل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وہاں امریکی فوج کی موجودگی تیل کی محفوظ پالیسی کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے؟ اس کا جواب غالباً نفی میں ہوگا۔ اس وقت امریکی نیوی کا پانچواں بیڑا بحرین کے پانیوں اور خلیج میں یومیہ بنیاد پر گشت کرتا ہے۔ اس کی موجودگی میں ایران اگر چاہے بھی تو آبنائے ہرمز بند کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے سے خود ایرانی مفادات کو سخت نقصان پہنچے گا۔ نیز اب جبکہ جوہری تصفیے کے بعد ایران سے پابندیاں بھی اٹھائی جارہی ہیں وہ ایسی کوئی حماقت کرنے سے گریز ہی کرے گا، جس کی پاداش میں وہ دوبارہ پابندیوں کی زَد میں آئے۔ اگر ایران ایسا کرتا ہے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ خودکشی پر تُلا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کی صورت میں صرف امریکا نہیں، اُسے عالمی فوجی اتحاد کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسے ۱۹۹۰ء میں کویت پر قبضے کی صورت میں عراق کو کرنا پڑا۔ آبنائے ہرمز کو بند کرنے میں چند ایک عملی رکاوٹیں بھی ہیں۔ یہ آبی گزرگاہ بہت وسیع ہے اور اسے کوئی غیر معمولی بحری قوت ہی بند کرسکتی ہے۔ اور ایران میں اتنی صلاحیت نہیں۔ کیا عالمی برادری اِتنی وسیع آبی گزرگاہ میں کسی ملک کو بارودی سرنگیں بچھانے کی اجازت دے گی؟ ہرگز نہیں۔ ایسا کرنے کی کوشش میں ایران کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی وہ اس وقت تاب نہیں لاسکتا۔
ایک اور ڈراؤنا خواب یہ ہے کہ ایک اہم عرب ملک کی آمرانہ حکومت کسی غیر معمولی انقلاب کی زَد میں آکر گرجائے۔ تاہم امریکی فوج کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مزید یہ کہ اس عرب ملک میں عوامی بغاوت برپا کرنے کے لیے کسی بیرونی طاقت کی شہ اور فوجی امداد چاہیے، مگر فی الحال اس کا بھی امکان نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے لیے ضروری ہے کہ وہ بتدریج مشرقِ وسطیٰ سے اپنے دستے نکالے کیونکہ یورپ اور ڈیگوگارشیا میں موجود امریکی طیارے کسی بھی مہم جوئی کا تدارک کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آخر میں، امریکا کے لیے ضروری ہے کہ وہ روس، چین اور بھارت سے مذاکرات کرے تاکہ باہمی مفادات کو طے کرتے ہوئے تیل کے وسائل کو محفوظ بنایا جاسکے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Does the U.S. military actually protect Middle East Oil?”.
(“nationalinterest.com”. January 9, 2017)
Leave a Reply