
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے حوالے سے کئی ردعمل سامنے آئے ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے ’’گارجین‘‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ان لوگوں کا تذکرہ نہیں کیا جنہوں نے ہلیری کلنٹن کے حق میں ووٹ ڈالے تھے، اسی طرح انہوں نے جارج بش کے حوالے سے بات نہیں کی جو اس وقت بیمار ہیں۔ ان کے اس جملے کہ: Make America Great Again کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیونکہ تجارتی دنیا کے آدمی ہیں اس لیے وہ صرف تجارت کو فروغ دیں گے۔ Hire American کا جو انہوں نے اعلان کیا ہے اس سے یہ خوف پیدا ہورہا ہے کہ امریکا آنے والے لوگوں کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے جائیں گے، علاوہ ازیں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ جو امریکی شہری نہیں اور امریکا میں رہتے ہیں، ان کو بھی ملازمت کے وہ مواقع دستیاب نہ رہیں گے کہ جو انہیں اب تک حاصل رہے ہیں۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ صدارتی تقریر سننے والوں میں بڑی تعداد سفید فام امریکیوں کی تھی۔ سیاہ فام امریکی تعداد میں کافی کم تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک پوری نسلی اکائی نے انہیں رَد کیا ہے۔
ان کے جملے:
Wheter we are black or brown or white we all bleed the same red blood کو سراہا، لیکن ان کا یہ جملہ:
We all enjoy the same glorious freedom regarles of race
حقیقی صورتحال سے بالکل مختلف تھا۔
ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ رہے تھے ’’اپنے دل کو حب الوطنی کے لیے کھول دیجیے اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘ دوسری طرف انہوں نے اسلام فوبیا کے خلاف جدوجہد کااعلان کیا۔ علاوہ ازیں صدارتی محل آنے سے پہلے وہ اہلیہ کے ہمراہ چرچ گئے اور مذہبی رسومات میں شرکت کی۔
ان کا یہ کہنا کہ ’’عوام اس قوم کے دوبارہ حکمران بنیں گے‘‘ اس لحاظ سے توجہ طلب ہے کہ اس میں سابقہ ادوار کی خدمات کی یکسر نفی کردی گئی۔
جس طرح انہوں نے سڑکوں، اسپتالوں اور فلائی اوورز کا تذکرہ کیا، اس سے تیسری دنیا کے سیاستدان کے لب و لہجہ کا رنگ نمایاں ہورہا تھا۔
ان کا یہ اعتراف کہ ہم نے اربوں کھربوں ڈالر بیرون ملک ضائع کردیے ہیں، حقیقت کی عکاس ہے۔ سابق صدور نے دیگر ممالک میں جنگیں مسلط کرکے امریکی سرمایہ بڑی مقدار میں حقیقتاً ضائع کیا۔ گارجین کے مبصر کاکہنا ہے کہ صدر کی پہلی تقریر سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اب ایک ایسا شخص آبیٹھا ہے کہ جسے معاملات کا صحیح ادراک نہیں ہے اور جسے کسی سیاسی منصب پر خدمات سرانجام دینے کا پہلے موقع نہیں ملا ہے۔
’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ ایسا نعرہ ہے جس کو دنیا بھر میں خوش دلی سے قبول نہیں کیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکا isolationalist اور protectionist کا راستہ اختیار کرے گا۔
اسرائیل میں ٹرمپ کی صدارتی تقریر کا خیرمقدم کیا گیا اور اسے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا۔
پانچ لاکھ سے زائد خواتین نے صدر ٹرمپ کے خلاف وفاقی دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرہ کیا اور انہیں ’’اقلیتی صدر‘‘ قرار دیا ہے۔ مظاہرین نے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا ’’اکثریت میں ہم ہیں‘‘ خطاب کرنے والوں میں اسکارلٹ جوہانسن، ایشلے جڈ، گلوریا سٹائنم اور مائیکل مور شامل تھے۔ ٹرمپ کے صدارتی خطاب سے ہی حزب اختلاف نے سڑکوں کو گھیر لیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ ادوار میں صدر ٹرمپ کو انتہائی مضبوط، متحرک اور جاندار حزب اختلاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Leave a Reply