
افغانستان میں داعش کے جنگجو ابو عمر خراسانی سے منسوب ایک بیان سامنے آیا کہ’’ہمارے لیڈر امریکی انتخابات کا قریبی جائزہ لے رہے تھے لیکن ہمارے لیے یہ بات غیر متوقع تھی کہ امریکی اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی قبریں کھودنے کا فیصلہ کریں گے۔‘‘ خراسانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے داعش کو مسلم ریاستوں سے ہزاروں جنگجو بھرتی کرنے میں مدد ملے گی۔ داعش کا اندازہ ہے کہ، جیسا کہ نائن الیون کے بعد دیکھنے میں آیا، مسلمانوں کو خوفناک برائی بنا کر پیش کرنے اور سب کو اجتماعی سزا دینے سے مسلمانوں کی آبادی کا ایک خاطر خواہ حصہ مشتعل ہو کر جہادی دستوں میں شمولیت اختیار کرے گا۔ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ۶۰ کروڑ ہے جو عالمی آبادی کا ۲۳ فیصد ہے۔ القاعدہ، داعش اور دیگر عسکری تنظیموں کو اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے اس آبادی کے بہت تھوڑے حصے کی حمایت بھی کافی ہو گی۔
حالیہ امریکی انتخابات میں مسلمانوں کو سبق سکھانے کے نعروں نے ٹرمپ کی نمایاں کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک موقع پر ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے وعدہ کیا کہ وہ تمام مسلمانوں کو امریکا میں داخل ہونے سے روک دیں گے۔ بعد میں اُنھوں نے اپنے عزم میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ صرف ’’انتہا پسندی پر مائل مسلمانوں‘‘ کو داخل ہونے سے روکا جائے گا۔ اس دوران پانی سے تشدد کرنے کو سراہا گیا نیز ہلیری کلنٹن کو ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف نہ بولنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے حامی شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ ان نعروں کو ہنگامی اشتعال قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے گا لیکن داعش اور القاعدہ کی پروپیگنڈا ٹیم اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ٹرمپ کے الفاظ کو بار بار دہراتے ہوئے عوامی یادداشت سے محو نہ ہونے دیا جائے تاکہ شدید نفرت کا ڈنک اپنا اثر برقرار رکھے۔
اگر نومنتخب صدر، ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی ٹیم کے کچھ ارکان کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ مسلمانوں سے تعصب کوئی پروپیگنڈا یا ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی اس میں مبالغہ آرائی کا عنصر شامل ہے۔ جنرل فلائن ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ تھے اور اس عہدے ہی سے صدر اوباما نے انہیں ۲۰۱۴ء میں ہٹایا تھا۔ فلائن کے حوالے سے یہ بات سب کے علم میں ہے کہ وہ انتہا پسندی کو صرف ایک عمومی مسئلہ نہیں بلکہ امریکا کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ اُنھوں نے سال رواں کے آغاز میں اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ مسلمانوں سے خطرہ حقیقی ہے۔ فلائن کے جنونیت اور خود پارسائی پر مبنی انتہائی رویے اُنہیں اس صف میں لے گئے جہاں ہلیری کلنٹن کے خلاف نعرے بازی کی جاری تھی۔
جنرل فلائن کے دیرینہ ساتھیوں کو خدشہ ہے کہ ان کی انتہائی محدود اور یک طرفہ سیاسی سوچ مشرق وسطیٰ کو مزید تباہی سے دوچار کر سکتی ہے۔ اُن کی مشاورتی کمپنی ’’فلائن انٹل گروپ‘‘ ترک حکومت کے لیے لابنگ کرتی ہے۔ اُنھوں نے حالیہ دنوں ایک مضمون میں ترکی کے لیے بھرپور امریکی حمایت کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ اس وقت ترکی، عراق اور شام میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایسے میں ترک صدر کی طرف سے ٹرمپ کی کامیابی کا خیر مقدم قابل فہم ہے۔ صدر ایردوان نے ٹرمپ کے خلاف امریکا میں ہونے والے مظاہروں پر تنقید کی۔
ٹرمپ انتظامیہ میں سینئر عہدوں کے امیدواروں کی پروفائل ظاہر کرتی ہے کہ وہ واشنگٹن کے معیاری رویے سے کہیں زیادہ ذاتی مفاد کے طلب گار ہیں۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ایک نعرہ لگایا تھا ’’گندا پانی باہر نکالو۔‘‘ اس سے مراد بدعنوان افسران کی چھٹی تھی لیکن عملی طور پر دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ نئی انتظامیہ کے پائپ کے ذریعے مزید گندا پانی اندر داخل ہو جائے گا۔ ایک ناخوشگوار مثال روڈی جولیانی کی ہے جو نائن الیون کے سانحے کے وقت نیویارک کے میئر تھے اور اُنہوں نے واقعات اور اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں سے بات کرنے کے عوض کئی ملین ڈالر کھرے کیے۔ اُس وقت اُنہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی جیب میں رقم کس طرف سے آرہی ہے۔ انہوں نے ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں منحرف ایرانیوں کی تنظیم مجاہدین خلق کی حمایت میں تقریریں کیں حالانکہ اس کا شمار امریکی محکمہ خارجہ کی ترتیب دی ہوئی فہرست کے مطابق دہشت گرد تنظیموں میں ہوتا ہے۔ جولیانی ایک مسخ شدہ کردار کے طور پر مشہور ہیں لیکن انہوں نے ٹرمپ کے لیے اٹارنی جنرل کے منصب کی پیشکش کو ٹھکرادیا۔
ہو سکتا ہے کہ داعش اور القاعدہ درست اندازہ نہ لگاسکیں کہ ٹرمپ کی کامیابی اُنہیں کس حد تک فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ان دونوں کو سخت دباؤ اور مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب وہ اپنی خوش بختی پر نازاں ہیں۔ ٹرمپ اور اُن کے قریبی حامی لاکھوں مسلمانوں کو ڈرا چکے ہیں۔ وہ اپنی پالیسیوں سے یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور یوں انہوں نے انتہا پسند تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ ان کا بیانیہ انتہا پسندوں کو راس آ رہا ہے کیونکہ وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ مغرب کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف شدید تعصب کی آندھی چلے تاکہ وہ (مسلمان) ان کے انتہا ئی نظریات کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کا نشانہ تمام مسلمان بن جاتے ہیں۔ اس طرح وہ ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں۔ نائن الیون کو جس چیز نے بن لادن کے لیے کامیاب واقعہ بنادیا وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی نہ تھا بلکہ امریکی و اتحادی افواج کا افغانستان اور پھر عراق میں جانا تھا۔ یہ صورت حال اب بھی پیش آسکتی ہے۔ موصل کے محاصرے کے باعث داعش کے خستہ حال لیڈر ابوبکر البغدادی کے سامنے کچھ دیگر طویل المدت اہداف بھی ہوں گے۔ طالبان، القاعدہ اور داعش وہ انتہائی نظریات رکھنے والی تنظیمیں ہیں جنہوں نے افغانستان اور عراق کی جنگوں سے پھیلنے والی تباہی اور شورش سے جنم لیا تھا۔ اب یہ شام، لیبیا، یمن، صومالیہ اور دیگر علاقوں میں جاری افراتفری اور لاقانونیت کی فضا میں پروان چڑھ رہی ہیں۔
تھیوری کے اعتبار سے ٹرمپ امریکا کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ وہ شام میں جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے کے بھی مخالف ہیں۔ اُنھوں نے ۲۰۱۱ء میں عراق سے فوجی دستے نکالنے پر صدر اوباما کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا (حالانکہ اس معاہدے پر ری پلکن صدر جارج ڈبلیو بش دستخط کر چکے تھے) تاہم بش اور اوباما دونوں ہی شروع میں عدم مداخلت کے حامی تھے۔ یہاں تک کہ واقعات کے دھارے اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کی سمت نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ آج امریکی فوج اور ایئر فورس عراق اور شام میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ صدر اوباما کی وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ کارروائیاں ختم نہیں ہو جائیں گی۔ ٹرمپ کی عدم مداخلت کی پالیسی ایک طرف، ان کی خارجہ پالیسی کے اہم ترین ارکان، مثلاً جان بولٹن جو اقوام متحدہ میں امریکا کے جارحانہ رویہ رکھنے والے سفارت کار ہیں، ۲۰۰۳ء ہی سے ایران پر حملے کی وکالت کر رہے ہیں۔ بولٹن کی ایک تجویز (گو کہ زمینی حقائق اُن کی لاعلمی کی غمازی کرتے ہیں) یہ بھی تھی کہ شمالی عراق اور مشرقی شام کو ملا کر سنی مسلک کی ریاست بنا دی جائے تاہم خطے کے حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے اس سے ’’بہتر‘‘ فارمولے کا تصور بھی محال ہے۔
واشنگٹن میں ایسے خبطی افراد کی کمی نہیں لیکن ان میں سے کچھ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والی انتظامیہ میں ایسے افراد کی ریکارڈ تعداد ہوگی۔ امریکی تاریخ شاید ہی اتنے خبطی افراد کی انتظامیہ میں شمولیت کی مثال پیش کرسکے۔ ’’دی ڈیلی بیسٹ‘‘ کے شین ہیرس اور نینسی یوسف کے مطابق ٹرمپ کی نیشنل سکیورٹی کی عارضی ٹیم میں ’’See No Sharia‘‘ کے مصنف کلیر لوپز (Clare Lopez) بھی شامل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انتہا پسند، خاص طور پر اخوان المسلمون کے ایجنٹ وائٹ ہاؤس، ایف بی آئی اور ریاستی اداروں میں سرایت کرتے جا رہے ہیں۔ لوپز کو یقین ہے کہ ۲۰۰۸ء میں رونما ہونے والے مالیاتی بحران کی پشت پر دہشت گردوں کا ہاتھ تھا۔
دوسری طرف رجائیت پسندوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اتنے نظریاتی شخص نہیں جتنے دکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر امریکی جہاز (ریاستی امور) کوئی اسپیڈ بوٹ نہیں بلکہ سمندر میں تیرتا ہوا دیوہیکل لائنر ہے۔ اس کا رخ یک لخت نہیں موڑا جاسکتا۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ’’ملازمت‘‘ کے امیدوار تمام خبطی اعلیٰ عہدے حاصل کر پائیں۔ ان میں چند ایک ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے یہی کچھ نائن الیون سے پہلے جارج ڈبلیو بش کے دور میں بھی کہا گیا تھا۔ کوئی بھی انتہائی سوچ رکھنے والا شخص تباہ کن فیصلہ کرسکتا ہے، چنانچہ داعش اچھے وقت کی امید کا دامن تھامے رہنے میں حق بجانب ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Donald Trump’s dangerous team of crackpots will spread corruption and start new wars in the Middle East”. (“Independent:. Nov. 18, 2016)
Leave a Reply