
گزشتہ برس دنیا نے بہت تیزی سے کروٹ بدلی ہے بریگزٹ اور ٹرمپ کے علاوہ بھی دنیا کو حیرت کا ایک اور جھٹکا تب لگا جب ولادیمیر پیوٹن اور رجب طیب ایردوان ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں کی جا ری تھیں کہ روس مغربی ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، اس وقت مغربی ممالک کے پاس نئی تہذیب نئے خیالات، حوصلہ مند افراد اور جدید ذرائع موجود تھے اور مغربی دنیا کے ساتھ روس ایک اچھے سفر کا آغاز کرسکتا تھا، لیکن ۹۰ کی تباہ کن دہائی کے اختتام پر یہ بات واضح ہوگئی کہ روس ایک نیا راستہ اختیارکرے گا۔ پیوٹن نے اقتدار کے آغاز ہی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے دنیا کو سخت اور جارحانہ پیغام دیا۔
گزشتہ برسوں میں ترکی نے بھی یہی راستہ اختیار کیا ہے، یورپ نے ترکی کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام ’’یورپین یونین‘‘ میں شمولیت کے لیے مذاکرات کی دعوت دی تو ترکی نے روس کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس سے انکار کردیا اور سلطنت عثمانیہ کا خواب تَرک کر کے صرف ترک ریاست کی ترویج کی۔ روس اور ترکی نے پرزور لفظوں میں دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ جیسے ہیں انہیں اسی طرح قبول کیا جائے۔
امریکا اور یورپ کے سربراہوں کی قیاس آرائیاں روس اور ترکی کے بارے میں غلط ثابت ہوئیں۔ روس اور ترکی نے مغرب کو مایوس کیا ہے، لیکن ٹرمپ ماضی کے مغربی سربراہوں سے مختلف مزاج رکھتا ہے۔ وہ پیوٹن اور ایردوان کی مغربی اشرافیہ اور مغربی ناقدین سے علیحدگی کی وجوہات جانتا ہے،یہ دونوں آزادانہ اور خود مختارانہ مزاج رکھتے ہیں اور اپنے اقتدار میں کسی کی بھی شراکت برداشت نہیں کرتے۔ ٹرمپ نے انہیں اسی طرح قبول کیا ہے جیسا وہ چاہتے ہیں، وہ اپنے مفاد کے لیے ان دونوں سے تعاون کریں گے اور روس اور ترکی کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
روس اور ترکی ہمسایہ ممالک ہیں، لیکن وہ فطری اتحادی نہیں بن سکتے۔ جنوری میں تشکیل پانے والادونوں ممالک کا اتحاد انتہائی غیر متوقع ہے۔ ایک طرف شام کے مسئلے پر روس ترکی کی مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف روس ترکی کے ذریعے بحیرۂ اسود سے بحیرۂ روم تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ترکی ناٹو کا اتحادی ہے اور ناٹو ممالک سویت یونین کی شکست کی علامت ہیں۔ ترکی اور روس ماضی میں عظیم سلطنتوں کے مراکز رہے ہیں اور دونوں آج بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں، ایک بار پھران کا ملک عظیم سلطنت کے طور پر دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ ان ریاستوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے۔
رجب طیب ایردوان اور پیوٹن مضبوط ارادے والے اناپرست اور طاقتور انسان ہیں، جو اپنے ملک میں پائیدار سیاسی مستقبل تلاش کر رہے ہیں۔ پیوٹن نے مضبوط سیاسی مستقبل کو یقینی بنالیا ہے لیکن ایردوان اس سال ایک ایسا ریفرنڈم کروانے جارہے ہیں جو آئین میں ترمیم کی اجازت دے گا اور ان کے سیاسی مستقبل کو مضبوط اور پائیدار بنائے گا۔ دونوں میں سے کسی ایک نے بھی اگر دوسرے کے مفادات یا اقتدارکے خلاف کچھ بھی کیا تو ایک بار پھر توہین آمیز بیانات اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ یہ دونوں ممالک اس وقت تک عارضی اتحادی رہیں گے جب تک یہ ایک دوسرے کے مفادات کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
نومبر ۲۰۱۵ء میں روس نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور اس کے انتباہ کو نظرانداز کرتے ہوئے شام پر بمباری کی، جس کے جواب میں ترکی نے روس کے طیارہ کو نشانہ بنایا اور روسی پائلٹ کو ہلاک کرکے یہ واضح کردیا کہ ترکی بے وقوف نہیں ہے اور نہ ہی وہ تر نوالہ ہے۔ روس نے ترکی پر پابندیاں عائد کیں اور خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ ایک ماہ بعد ہی ترکی میں ایردوان کے لیے مصیبتیں کھڑی ہوگئیں۔ فوج کی ناکام بغاوت کے بعد ایردوان نے ہنگامی حالت کا اعلان کردیا اور باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا۔ باغیوں کے خلاف کارروائی پر امریکا اور یورپ نے شدید تنقید کی جبکہ روس نے فوجی بغاوت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ایردوان نے امریکا اور یورپ کی تنقید کو مسترد کردیا اور روس کومثبت انداز میں جواب دیا۔ ایردوان کی یہ خواہش رہی ہے کہ روس شام میں کردوں کے خلاف کارروائی کرے، اسی خواہش کے پیش نظر ایردوان نے روسی طیارہ کی تباہی پر یہ کہہ کر معافی مانگ لی کہ روسی طیارہ کی تباہی فوجی باغیوں کی کارروائی تھی۔ اب روس اور ترکی ایک دوسرے کے دوست اور اتحادی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ترکی میں روسی سفیر کی ہلاکت بھی اس دوستانہ تعلق پر اثر انداز نہیں ہوسکی اوردونوں ممالک نے اس واقعے کی مذمت کرنے پر اکتفاکیا۔
ٹرمپ کی بین الاقوامی سیاست میں آمد سے پہلے ہی دنیا ایردوان اور پیوٹن کی اشتعال انگیز قیادت سے متعارف تھی۔ ٹرمپ، ایردوان اور پیوٹن کا عکس ہے اور بہت ممکن ہے کہ ایک جیسے مزاج، ایک جیسی انانیت اور ایک جیسی استعداد کے حامل یہ تینوں صدور مملکت ایک مضبو ط گروپ کی شکل اختیار کرلیں اور آپس میں کاروباری انداز میں اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
ٹرمپ ان امریکی ووٹروں کو بالکل اہمیت نہیں دیتے جو بین الاقوامی مفاد کی وجہ سے شام میں خانہ جنگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ٹرمپ کا ہدف داعش کا مکمل خاتمہ ہے اور ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ امریکا کے لیے خطرہ بننے والی قوتوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔ ٹرمپ کو اس بات سے کوئی پریشانی نہیں کہ کردوں پر روسی بمباری کے عوض ترکی بشارالاسد کی مخالفت ترک کر دے ٹرمپ کے نزدیک یہ ایک اچھا سودا ہے۔
ٹرمپ نے یہ واضح کردیا ہے کہ امریکا اب دنیا کے پولیس مین کا کردار ادا نہیں کرے گا۔ امریکا اب صرف اور صرف اپنے مفاد میں فیصلے کرے گا، ٹرمپ کے پیش نظر صرف امریکا کی ترقی اور امریکی عوام کی خدمت ہے، ٹرمپ کے مطابق وہ لوگ بے وقوف ہیں جو بین الاقوامی قوانین کا خیال کرتے ہیں اور پوری دنیا کے لیے یہ ایک بالکل نئی طرز کی حکومت ہے۔
ٹرمپ متعصب سوچ رکھتے ہیں لیکن وہ تنہائی پسند نہیں ہیں۔ وہ پیوٹن اور ایردوان کی طرح معاملات کو چلنے دیتے ہیں، اور صرف وہیں مداخلت کرتے ہیں جہاں انہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے، ٹرمپ فطری انداز میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق روایات اور اصولوں کی پاسداری اس وقت کرنی چاہیے جب یہ آپ کے مفاد میں ہوں۔ ۱۱جنوری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اگر پیوٹن مجھے پسند کرتا ہے تو اس میں بُرا کچھ بھی نہیں جس کی جوابدہی کی جائے، بلکہ پیوٹن کی پسندیدگی امریکا کے مفاد میں بہترین ہے۔
یورپ ٹرمپ کے جرأت مندانہ اور سخت گیر بیانات سے پریشان ہے، کوئی بھی یورپی رہنما اس قسم کے بیانات نہیں دیتا، ٹرمپ اگر یورپ کے فیصلوں کی مخالفت کریں گے تو یورپ روس پر عائد پابندیاں نرم کر دے گا، لیکن پیوٹن یورپ کے لیے کبھی بھی ایک اچھے دوست نہیں بن سکتے اور نہ ہی یورپ کریمیا کو روس کا مستقل حصہ تسلیم کرے گا۔ شام کے پناہ گزینوں کے سیلاب کو روکنے کے لیے یورپ ترکی کو فنڈ دے رہا ہے لیکن یورپ، ترکی میں حزب اختلاف اور صحافیوں کی گرفتاری اور پھانسی کی سزاکی بحالی کی کبھی حمایت نہیں کرے گا۔
ٹرمپ ان معاملات کی پروا نہیں کرتے، یوکرائن کے معاملات سے وہ الگ تھلگ ہیں، الاسکا اور روس کے الحاق کا انہیں خوف نہیں ہے، اسے شمالی کیرولین کے بیرونی کنارے پر شامی مہاجرین کی ہلاکتوں کی فکر نہیں، ٹرمپ کے لیے یہ سب کچھ امریکی مفاد کا حصہ ہے اور وہ کبھی بھی ان معاملات پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے۔
لبرل اشرافیہ پر یہ بات اب واضح ہوجانی چاہیے کہ سرد جنگ کی فتح اور لبرل سوچ کے تحت دنیا کی سیاست کے بارے میں کی گئی پیشگوئیوں کا دور کب کا ختم ہوچکا ہے۔ دنیا کا واحد سپر پاور اپنے مفادات کی بنیاد پر اپنی انانیت پسندی کے ساتھ من پسند سودے کرے گا اور ان ممالک کے ساتھ شراکت داری کرے گا جو اس کے مفادات کے لیے بہترین ہوں گے۔ واشنگٹن میں موجود مقتدراشرافیہ کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکا بدل چکا ہے۔
ممکن ہے کہ انانیت پسندی اور مشترکہ مفادات روس ترکی اور امریکا کو قریب کر دیں اور ہوسکتا ہے کہ یہی چیز انہیں ایک دوسرے سے دور کر دے ۔مستقبل میں ان کے تعلقات آپس کے لین دین اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہوں گے۔ مشترکہ اقدار، اعتماد اور بھروسے جیسی اصطلاحات اب تعلقات بنانے کے لیے ناکافی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات اورحکومتوں کا اتحاداب تجارتی اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہی تشکیل پائے گا۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
(“Donald Trump’s New World Order Puts Nation Over Globe”. “Time Magazine”. Jan. 12, 2017)
Leave a Reply