
پُرخاش: نہ اردو ہے، نہ فارسی اور نہ عربی۔ ’’پ‘‘ پر زبر کے ساتھ مستعمل یہ لفظ معروفِ عام ہے۔ ’’بَرخاش‘‘ جیسا کوئی لفظ عربی زبان میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔
شُونیز: کلونجی کو عربی میں الحَبّہ السَّوداء کہا جاتا ہے نہ کہ ’’شنیز‘‘۔
دُوغ: فارسی ہی میں مستعمل ہے۔ عربی میں بفتحۂ دال ’’دَوغ‘‘ مویشیوں پر علامتی نشان لگانے کے لیے بولا جاتا ہے۔
سایہ: فارسی کا لفظ ہے اور چھائوں اردو کا۔ اسی سے سایہ دار، سایہ گستر اور سائبان مستعمل ہیں۔ عربی زبان و ادب میں نہ سایہ ہے اور نہ ’’شایہ‘‘۔
گال: اس لفظ کی اصل عربی ’’قال‘‘ کو قرار دینا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ گال کو عربی میں خَدّ کہتے ہیں۔
لال: لال اور لعل میں رنگت کے سوا کوئی قدرِ مشترک نہیں۔ عربی کا لعل وہ پتھر ہے جسے انگریزی میں Garnet کہا جاتا ہے۔
لفظ ’’کاک‘‘ اصلاً عربی ’’کعکہ‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور اُس کے معنی ’’چپاتی‘‘ نہیں بلکہ چھوٹی اور دبیز خوش ذائقہ روغنی نان ہے۔ اس لفظ سے انگریزی کا Cake وجود میں آیا ہے۔
مئے خور: عربی میں جسے ماخورہ یا ماخور کہتے ہیں اس کے معنیٰ میکدہ نہیں بلکہ قحبہ خانہ یا Brothel ہے۔
شال: اس لفظ کو ’’تسلیمات‘‘ یا ’’سالیاٹ‘‘ جیسے کسی مہمل لفظ سے ماخوذ قرار دینا بھی ظلم عظیم ہو گا۔
{}{}{}
Leave a Reply