تو کیا آپ آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا آپ کو آزادی کا مفہوم معلوم ہے؟ اگر آپ مجاہد آزادی (Freedom Fighter) بننا چاہتے ہیںتو پہلے آپ کو آزاد ہونا ہوگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام بائبل میں جن کا ذکر جوزف کے نام سے ہے‘ ایک اسلامی روایت کے مطابق دنیا کے سب سے آزاد آدمی تھے‘ ایسی حالت میں بھی جب کہ وہ مصر کی جیل میں قید تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دنیا کے سب سے آزاد آدمی جیل میں مقید رہتے ہوئے بھی تھے؟ یہ اس وجہ سے تھا کہ اُن کا قلب آزاد تھا۔ اگر آپ اپنے دل میں جذبہ حریت نہیں رکھتے ہیں تو آپ کبھی آزاد نہیں ہوسکتے ہیں خواہ آپ ایک آزاد ترین معاشرے میں ایک عادل حکومت کے زیر سایہ ہی کیوں نہ زندگی گزارتے ہوں؟ اسی طرح اگر آزدی آپ کے دل میں سرایت کیے ہوئے ہے تو خواہ آپ ظالم ترین حکومت میں کیوں نہ زندگی گزار رہے ہوں وہ آپ کو غلام نہیں بناسکتی‘ خواہ آپ کالی کوٹھری میں ہی کیوں نہ پھینک دیئے جائیں۔
قلب کی سطح پر آزاد ہونے کے لئے آپ کو جہاد باالنفس کے مرحلے سے گزرنا ہوگا جس کا مطلب اپنی پست فطرت کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ جہادِ نفس میں کامیاب ہونے کے لئے فنا کا عمل درکار ہے یعنی اپنی ذات اور انا کو قربان کرنے کا جذبہ ضروری ہے۔ یعنی صرف بے لوث اور حق جو ہونے کے بعد ہی کوئی مجاہد آزادی بن سکتا ہے۔ اس کے بعد راستے صاف ہوجاتے ہیں ‘ مقاصد دن کی مانند روشن ہوجاتے ہیں اور خواہشات کے بادل چھٹ جاتے ہیں ‘ حتیٰ کہ کافروں کے ُئے بھی ضروری ہے کہ وہ آزاد رہیں۔ امام حسین ؓ کا قول ہے کہ ’’اگر اپ کا کوئی عقیدہ نہیں تو بھی ضروری ہے کہ کم از کم آپ آزاد رہیں۔‘‘ ہمیں ضرور اپنی موت کو یاد رکھنا چاہئے۔ ایک دن ہم سب مرجائیں گے اورقیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔ پھر ہمیں اس دنیا میں اپنے اعمال کی وہاں جوابدہی کرنی ہوگی۔ چنانچہ ہمیں وہاں کے لئے توشہ تیار کرنا چاہئے ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم سفر کے لئے توشہ تیار کرتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا ’’مرو قبل اس کے کہ تمہیں موت آئے‘‘ امام علی ؓ نے فرمایا کہ میرے خیال میں یہ دنیا ایک بکری کی چھینک سے زیادہ قدروقیمت نہیں رکھتی ہے۔ امام حسین ؓنے فرمایا۔ بے شک لوگ دنیا کے غلام ہیں اور ان کا مذہب بہت سطحی ہے یعنی ان کا مذہب صرف ان کی زبانوں پر ہے۔ وہ مذہب کی جانب اسی وقت تک متوجہ رہتے ہیں جب تک انہیں مادی فوائد اس سے حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ آزمائے جاتے ہیں تو کتنے ہی کٹر مذہبی لوگوں کے ایمان متزلزل ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسری اسلامی روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نمرود کو ذلیل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ بہت مغرور ہوگیا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر کو بھیجا جو نمرود کی ناک میں جاگُھسا۔ اس کے بعد نمرود نے اپنا سر پٹخنا شروع کردیا تاکہ مچھر باہر آجائے لیکن قبل اس کے کہ مچھر باہر آئے وہ سر پیٹتے پیٹتے مر گیا۔ جب مچھر اس کی ناک سے باہر آیا تو صرف اس کا ایک پر ضائع ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نمرود سے پوچھا کہ کیا نمرود کے قتل کے عوض تمہیں دنیا کی کوئی چیز چاہئے ؟ مچھر نے کہا اُسے صرف اپنا ضائع شدہ پر والس چاہئے۔ اس حکایت کا ماحصل یہ ہے کہ پوری دنیا مچھر کے ایک پر سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں بہت سارے لوگ مادہ پرست ہوگئے ہیں۔ وہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں اور مادی دنیا کے غلام ہوچکے ہیں۔ وہ اس قدر خود مداد اور خود محور ہوگئے ہیں کہ آزادی کے بے لوث راستے پر سفر انہیں حماقت معلوم ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے ساتھ وہ پوری زندیگ خواہشاتِ نفس کے حصول میں گزار ردیتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو مسرور شادمان رکھ سکیں۔ وہ اس سادہ سی حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے کہ زندگی کی اہم ترین خوشی دوسروں کو خوش رکھنے کے لئے کوشاں رہنے میں مضمر ہے۔
خدا کا حقیقی بندہ وہی ہے جو عوام کا خادم ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ وہ خوشی ہے جو مادیت کی راہ پر گامزن رہنے والوں کے ہاتھ نہیں آتی۔ ایسے لوگ مسرور ترین لوگ ہیں‘ کیونکہ انہیںاندرونی سکون و اطمینان حاصل ہے انہیں یقین حاصل ہے جس کا مطلب عقیدے پر ایمان کامل ہے۔ ان اہم مثالوں سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے اور ہمیں مردِ آزاد بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(بشکریہ: ’’تہران ٹائمز ‘‘۲۶ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply