
امریکا دنیا کا کامیاب ترین ملک ہے، لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اپنی غیرملکی مہمات میں کمبوڈیا اور ویت نام سے لے کر افغانستان اور عراق تک۔۔ اتنا خون و پیسہ خرچ کرنے کے باوجود اس بُری طرح ناکام رہا؟
امریکی ان سوالات کے جوابات افراد و واقعات میں تلاش کرتے ہیں لیکن درحقیقت ممکنہ طور پر گہری بنیادی خامیاں ہیں جو ان ناکامیوں کا سبب بنیں، یہ وجوہات تین C کنٹرول، کلچر اور کمپرومائیز میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
امریکی معاشرے کی سب بڑی خصوصیت ان کا کسی کام کو ناممکن نہ سمجھنے کا جذبہ ہے، جب امریکی کسی بھی مشکل کام کو کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں جیسا کہ چاند پر انسانوں کو بھیجنا، وہ معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل کرکے اپنی پوری توانائی اس پر لگا دیتے ہیں۔ یہ امریکی سرزمین پر تو معجزاتی طور پر کام کرتا ہے لیکن دوسرے ممالک میں تباہ کن ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
مجھے پہلے C یعنی کنٹرول کی جھلک ۱۹۷۳ء میں اس وقت نظر آئی جب میں نوجوان اور غیر شادی شدہ تھا اور جنگ زدہ کمبوڈیا میں سنگاپور کے سفارتخانے میں تعینات تھا۔اور میری ایک نوجوان امریکی سفارتی اہلکار لڑکی سے دوستی ہو گئی۔ اس کا کام بہت آسان تھا، ہر صبح اسے واشنگٹن سے کمبوڈین معیشت کے معاملات کے بارے میں ہدایات آتی تھیں اور وہ یہ ہدایات خود جاکر کمبوڈیا کے وزیر برائے معیشت کو دے آتی تھی۔ چونکہ واشنگٹن میں دنیا کے بہترین ماہرین معاشیات ہیں، اس لیے اس کا جواز تو بنتا ہے لیکن اس بیساکھی نے کمبوڈین حکومت کو اپنے معاملات سنبھالنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ امریکا کے وہاں سے نکلتے ہی بے کس و لاچار حکومت گر گئی۔
ایسا ہی افغانستان میں ہوا، جب تک امریکی کمانڈر و فوجی ۰۰۰,۳۰۰ کی افغان فوج کے ساتھ لڑ رہے تھے، افغان فوج کی کارکردگی ۷۵۰۰۰ طالبان کے مقابلے میں بُری نہیں تھی، لیکن کمبوڈیا کی طرز پر افغان فوج کا اپنے جنگی معاملات پر کوئی کنٹرول نہیں تھا، سارے فیصلے امریکی کرتے تھے، اس لیے جیسے ہی امریکا نے وہاں اپنا کنٹرول چھوڑا پورا ڈھانچہ منہدم ہوگیا۔
مستقبل کے مؤرخین افغانستان کے موضوع پر اس حیران کن تضاد پر بات کریں گے کہ ایک طرف امریکا افغانستان میں جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا تھا، لیکن عملی طور پر ۲۰ سال تک افغانستان کے معاملات مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھ کر اس سے زیادہ غیر جمہوری انداز اختیار نہیں کرسکتا تھا۔
دوسرا C کلچر ہے، امریکا نے فرض کرلیا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت جمہوری ہے کیونکہ وہ امریکی جمہوری انداز میں منتخب ہوئی، کیا واقعی ایسا ہوا؟
افغانستان کی ۶ء۳۱ ملین آبادی، جس میں ۷ء۹ رجسٹر ووٹر ہیں ان میں سے بھی ۸ء۱؍ملین افراد نے گزشتہ انتخابات میں ووٹ ڈالے، اس کے برعکس ۲۰۰۱ء میں جب اقوام متحدہ کے مشن نے الجیریا کے شاندار سفارت کار لخدربراہمی کی قیادت میں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تھی، تب براہمی نے افغان تاریخ و کلچر کو سمجھنے کی کوشش کی اور افغان روایت کے مطابق ایک روایتی بزرگوں اور علاقائی قائدین کی کونسل جو اہم قومی مسائل پر غور وخوص کرتے کا لویا جرگہ منعقد کیا۔
یہ سارا طریقہ کار مشکل تھا اور اقوام متحدہ (اس کے نتائج پر) مکمل کنٹرول نہیں کرسکتی تھی، لیکن اس لویا جرگہ سے سامنے والی حکومت نام نہاد جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے اشرف غنی کی حکومت سے زیادہ عوامی قبولیت و وقعت رکھتی تھی۔
حیران کُن بات ہے کہ امریکا نے اپنے مقبوضہ علاقوں کے کامیاب تجربات سے کوئی کارآمد سبق حاصل نہیں کیا۔ ۱۹۴۵ء میں جاپان کی شکست کے بعد یہ ایک شاندار فیصلہ تھا کہ جاپانی شہنشاہ ہیروہیٹو پر جنگی جُرائم کے الزام میں مقدمہ چلانے کی بجائے جوکہ اگر امریکا چاہتا تو کرسکتا تھااسے تخت پر رہنے دیا گیا۔ جس سے جاپانیوں کو یہ یقین دہانی ہوئی کہ ان کے کلچر و ثقافت کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن افغانستان میں امریکیوں نے افغان کلچر کے بارے میں کسی قسم کی حساسیت و احترام کا مظاہرہ نہیں کیا۔
تیسرا C کمپرومائز (سمجھوتہ) ہے، جب آپ دوسروں کی سرزمین پر چل رہے ہوں تو منطق کا تقاضا ہے کہ حسب ضرورت سمجھوتے کریں اور مقامی اداروں کا احترام کریں۔ امریکا کے عراق میں بُری طرح ناکام رہنے کی وجہ ایک تباہ کن فیصلہ۔۔ عراقی فوج اور بعث پارٹی دونوں عراقی معاشرے کا ستوں تھے کو ختم کرنا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جب امریکا کا جرمنی پر قبضہ تھا تو امریکی فوجی کمان نے محسوس کر لیا تھا کہ جرمن معاشرے کو افراتفری سے بچانے کے لیے انتظامی ڈھانچے کو جوں کا توں رکھنے کی ضرورت ہے، چونکہ ہٹلر کے زمانے میں نازی پارٹی کی ممبرشپ تمام سرکاری ملازمین کے لیے لازمی تھی اور نازی جماعت سے باہر انتظامی تجربے کے لوگ ناکافی تھے۔ اس لیے سرکاری اداروں کی نازی پارٹی کے ممبران سے صفائی کے عمل کو ترک کردیا گیا۔
امریکا کی عظیم طاقت اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، اس کے ساتھ ہی سب سے بڑی کمزوری بھی۔ اتنی طاقت کی وجہ سے امریکا کو اگر منطقی طور پر ضرورت ہوتب بھی کسی سمجھوتے کا دباؤ نہیں ہوتا۔ افغانستان ایک قدیم معاشرہ ہے اس کے ساتھ ہی ایران اس سے بھی قدیم ہے، صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے لازم ہے ایرانی تاریخی و ثقافتی دانش افغانستان کے ساتھ رہنے کے اسلوب سے واقف ہوں گے۔
سادہ سا کام (افغانستان کا) امریکی منتظم کرسکتا تھا کہ ایران سے دوسرے معاملات کو پس پُشت ڈال کر ایرانی حکام سے افغانستان میں مضبوط سیاسی نظام کی تیاری کے لیے مدد حاصل کرتا۔ایران یقینا تعاون کرتا کیونکہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار اس کے لیے امریکا سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ لیکن واشنگٹن میں ایران سے کسی قسم کے سمجھوتے کے بات سوچنا بھی ممکن نہیں۔
اگر امریکا افغانستان و دیگر جگہوں پر اپنی بنیادی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرے گا تو خطرہ ہے کہ وہ انہیں آئندہ بھی دُہراتا رہے گا۔ لیکن اب تک تو ان چیزوں پر غور کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
اس کی بجائے اس تباہ کُن ناکامی کا الزام واشنگٹن میں بہت سے لوگ افغانوں پر لگارہے ہیں، خاص طور پر کرپشن پر۔ لیکن کے لیے بھی سپلائی اور ڈیمانڈ کی ضروری ہے۔ اگر امریکا افغانستان کو بغیر مناسب کنٹرول کے امریکی ڈالروں کے سونامی میں ڈبو نہیں دیتا تو کرپشن بھی نہیں ہوتی۔
حیرت کی بات یہ ہے اس معاملے میں اشرف غنی نے ہی ۲۰۰۸ء میں کلیر لاکہارٹ کے ساتھ مل کر شایع شدہ کتاب میں ایک پروجیکٹ کی مثال دی تھی، جس میں غیر ملکی امداد سے وابستہ مسائل کی وضاحت کی گئی تھی۔
ویسے تو امداد اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے لیکن زیادہ تر رقم امریکا سے ہی آتی ہے۔ یہ کہانی لاکہارٹ کی ایک تحریر میں بیان کی گئی ہے، جو یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ امریکا اپنی افغانستان کی مہم میں کیا غلطی کررہا تھا۔
۲۰۰۲ء میں کلیر لاکہارٹ بامیان کے دور دراز گاؤں میں ایک افغان دیہاتی سے ملیں تو اس نے ایک دلچسپ کہانی سُنائی، اس وقت امریکی و ناٹو قبضے کا ابتدائی دور تھا اور ۱۵۰؍ملین ڈالر کی ابتدائی رقم تعمیر و ترقی کے لیے مختص کی گئی تھی۔
وہ گاؤں صوبہ بامیان کے دور دراز علاقے صوبائی دارالحکومت سے چند گھنٹوں کی ڈرائیو اور دنیا سے مکمل کٹا ہوا تھا۔ اس وقت اقوم متحدہ کی ایجنسیاں اور این جی اوز ایسے پروجیکٹ جن سے افغان عوام کو جنگ کے بعد مدد ہو اور جن کا فائدہ فوری طور نظر آئے کی دوڑ میں لگی ہوئی تھیں۔ یہ ۱۵۰؍ملین ڈالر کی رقم یقینا ایسے دیہاتوں کے باسیوں کی زندگیاں تبدیل کر سکتی تھی۔
لیکن درحقیقت کیا ہوا، اس کی داستان کے لیے اب آجاتے ہیں، دیہاتی کی کہانی کی طرف:-
‘‘ہم نے ریڈیو پر سُناکہ ہمارے علاقے میں تعمیراتی کام شروع ہورہا ہے اور ہمیں جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد اپنے گھروں کی تعمیر میں مدد کی جائے گی، ہم یہ سُن کربہت خوش ہوئے۔
لیکن کئی ماہ گزر گئے کچھ خاص نہ ہوا، اب ہم ناخواندہ تو ہیں لیکن احمق نہیں ہے، اس لیے ہم نے معلومات کرنے کی کوشش کی تو یہ بات سامنے آئی۔
٭ پہلے وہ ساری رقم ایک جنیوا کی ایجنسی کے پاس گئی۔
٭ اس نے ۲۰ فیصد حصہ رکھ کر اس کا ٹھیکہ ایک امریکی ایجنسی کو دے دیا۔
٭ اس امریکی ایجنسی نے بھی اپنا ۲۰ فیصد حصہ رکھ کر آگے بڑھا دیا۔
٭ وہاں سے ایک سب کنٹریکٹر کے پاس گئی اس نے بھی اپنا ۲۰ فیصد رکھ کر آگے بڑھا دیا۔
٭ جب کابل رقم پہنچی تو تھوڑی بہت رقم بچّی تھی لیکن اتنی تھی کہ کچھ عمارتی استعمال کے لیے مغربی ایران سے لکڑی حاصل کی جاسکتی تھی۔
٭ وہ ٹھیکہ ایک افغان گورنر کی کمپنی کو مل گیا۔جس نے اس کی اصل قیمت سے پانچ گُنا زیادہ قیمت پر لکڑی منگوا کر فراہم کی۔
جب اس میں سے کچھ لکڑی ان کے گاؤں تک پہنچی تو شہتیر اتنے بڑے اور بھاری تھے کہ عام مٹی کے بنے افغان گھروں میں استعمال کے قابل ہی نہیں تھے۔ اس لیے دیہاتیوں نے انہیں کاٹ کاٹ کر آگ جلانے میں استعمال کر لیا۔ اس طرح ۱۵۰؍ملین ڈالر چولہے کی نظر ہو گئے۔ مستقبل کے مورخین یقینا حیران ہوں گے کہ کس طرح امریکی ٹیکس دہندگان کی ۱۰؍کھرب ڈالر کی رقم افغانستان میں بغیر کسی مثبت نتیجے کے خرچ کی گئی۔ یہ چھوٹی سی کہانی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے۔ اسی طرح لاتعداد ایجنسیوں اور کنٹریکٹر وں جن میں سے ہر اپنا اپنا حصہ وصول کرتا ہے کو ضرب کرکے حساب لگا لیں تو پتہ چل جائے گا کہ درحقیقت رقم کہاں گئی۔
اگر امریکی افغانوں کو الزام دیتے ہیں تو یہ ایک بڑی غلطی ہو گی، وہ ( افغان) تو واشنگٹن میں کی گئی غلطیوں کا شکار ہیں۔ یہی وہ معاملہ ہے جہاں (امریکا کے لیے) سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
(صاحب تحریر سنگاپور کے ریٹائر سفارت کار اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ایشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ممتاز فیلو ہیں۔ جنوری ۲۰۰۱ء سے مئی ۲۰۰۲ء تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر بھی رہے ہیں۔)
(ترجمہ: اعظم علی )
“Don’t blame the Afghans”. (“Foreign Policy”. August 24, 2021)
Leave a Reply