مصر کی خفیہ اسلامی حزبِ اختلاف نے تشدد کو بہت پہلے ترک کردیا ہے۔ اور یہی اس کے لیے معقول ترین انتخاب تھا۔ صدر اوباما کو اخوان المسلمون سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے اور بہتر یہ ہے کہ مصریوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔
تیونس کے انقلاب نے پوری عرب دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل عوام نے سڑکوں پر آکر کسی آمر کو چلتا نہیں کیا۔ زین العابدین بن علی کے بعد اب حسنی مبارک کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا دکھائی دے رہا ہے۔ مصر میں ممکن سیاسی تبدیلی کے پیش نظر یہ سوال بھی ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ اخوان المسلمون کا کیا بنے گا اور کیا امریکا مصر کی عبوری یا نئی حکومت میں اخوان کے ساتھ کام کرنے کے لیے راضی ہوگا؟
اس سوال کا ایک جواب تو مصریوں کو دینا ہے کہ ان پر حکومت کون کرے گا۔ ہمیں مصر کے عوام کے لیے لیڈر منتخب کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ویت نام کے جرنیلوں سے افغانستان کے صدر کرزئی تک ہم نے جو بھی لیڈر منتخب کیے ہیں ان سے ہمیں کوئی فیض نہیں پہنچا بلکہ معاملات مزید الجھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر میں امریکا کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اخوان کو سمجھنا مصر میں اپنے آپشنز کو سمجھنا ہوگا۔
اخوان المسلمون شیخ حسن البنا نے ۱۹۲۸ء میں قائم کی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں کے کمزور پڑنے سے آزادی کی لہر کو شروع کرنا مقصود تھا۔ نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف اخوان نے بڑھ چڑھ کر تحریک چلائی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مصر میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تب اخوان نے جمال عبدالناصر کے ساتھ چلنے کی کوشش کی مگر تھوڑی ہی مدت میں اختلافات کے باعث اخوان حکومت سے الگ ہوگئی۔ جمال عبدالناصر نے اخوان کو بہیمانہ ہتھکنڈوں سے کچلا۔
جمال عبدالناصر کے بعد انور سادات اور حسنی مبارک نے اخوان کو کمیونسٹ مخالف اور دائیں بازو کی جماعت کی حیثیت سے دیکھا اور جابرانہ طریقوں سے اس کے اثرات کم کرنے کی کوشش کی۔ اخوان تکنیکی طور پر تو کالعدم ہے مگر اس کا سماجی بہبود کا نظام بہت عمدہ ہے۔ صحت عامہ اور تعلیم کی سستی سہولتیں فراہم کرنے میں اخوان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مصر کے غیر منصفانہ انتخابات میں اخوان سب سے نمایاں حزب اختلاف کی حیثیت سے ابھرتی ہے۔ مصر کے نئے اپوزیشن لیڈر اور ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سابق سربراہ محمد البرادعی نے اخوان کے ساتھ ڈھیلا ڈھالا اتحاد قائم کر رکھا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مصر میں عوام کو متحرک کرنے والا بس یہی ایک گروپ ہے۔ البرادعی کا کہنا ہے کہ وہ اخوان کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ عرب دنیا میں بہت سے مسلم اسکالر کا کہنا ہے کہ اخوان حقیقی اور مثبت تبدیلی لانے کے لیے ایک معقول طاقت کی حیثیت سے ابھری ہے۔ تشکیک پسند عناصر کا خیال ہے کہ البرادعی اخوان سے بھی زیادہ انقلابی گروپوں کے ریلے میں بہہ جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسنی مبارک نے تیس سال مصر پر بلا شرکت غیرے حکومت کی ہے۔ انہوں نے اپنا نائب تک منتخب نہیں کیا تھا۔ اقتدار پر فوج کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ مارشل لا اب تک نہیں اٹھایا گیا۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی کے لیے فوج ذہنی طور پر کیسے تیار ہوگی؟ وہ اقتدار پر اپنی گرفت کو ڈھیلا دیکھنا کیسے گوارا کرے گی؟ اب تک کسی کو یہ اندازہ نہیں کہ مظاہرین کو در اصل کون کنٹرول کر رہا ہے۔ مگر اس بات کا سبھی کو یقین ہے کہ حسنی مبارک کے اقتدار کا سورج اب غروب ہونے والا ہے۔ امریکا یقینی طور پر بہت بڑے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ اس سے قبل ایران میں ۱۹۷۸ء میں اور پاکستان میں ۲۰۰۷ء میں امریکا کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دونوں مواقع پر امریکی قیادت ایسا کچھ نہ کرسکی جس سے معاملات درست ہوں اور اس کی اقدار کے فروغ کی راہ ہموار ہو۔
امریکا اور اخوان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ اسرائیل ہوگا۔ اخوان نے ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے خلاف لڑائی کے لیے لشکر تشکیل دیا تھا۔ حماس کو بھی اخوان کی فلسطینی شاخ سے بنیادی حمایت ملتی رہی ہے۔ غزہ کے حکمرانوں سے اخوان کے تعلقات برقرار ہیں۔ اخوان کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل سے امن معاہدہ امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی جز ہے اور اس معاہدے پر عمل جاری رکھنے کی صورت ہی میں امریکا سے سالانہ دو ارب ڈالر کی امداد ملتی رہے گی، تاہم وہ اسرائیل کی پالیسیوں سے شدید اختلاف رکھتی ہے اور اسرائیل کے وجود اور قائدین کے خلاف تنقید کرتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اخوان اسرائیل سے کسی بھی سطح پر تعاون کے خلاف ہے۔
اسرائیل اس صورت حال سے بہت پریشان ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ مصر کے حالات پر اس کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اسرائیلی قیادت کا برائے نام بھی کنٹرول نہیں اور دوسری طرف اسرائیل کی ممتاز شخصیات بے بنیاد اور مفروضوں پر مبنی بیانات داغ کر حالات کو مزید خلاف کر رہی ہیں۔ مصر میں اسرائیل کے ایک سابق سفیر نے حال ہی میں کہا ہے کہ مصر میں اپوزیشن ممکنہ طور پر امن معاہدے کا احترام نہیں کرے گی اور اسرائیل کے بارے میں اس کا رویہ خاصا سخت گیر ہوگا۔
شمالی افریقا میں ابھرنے والا عوامی انقلاب امریکی صدر اوباما اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے لیے چیلنج بن کر سامنے آیا ہے اور انہوں نے اس حوالے سے اپنی سرگرمیاں بھی شروع کردی ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ امریکا کا کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور آپشنز کس قدر نازک ہیں۔ امریکا کو بدحواس بھی نہیں ہونا اور ہتھیار بھی نہیں ڈالنے ہیں۔ یہ معاملہ مکمل توازن کا طالب ہے۔
امریکا کو اخوان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اس کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہوگا تاہم اسے لازمی طور پر اپنا دشمن سمجھنا کسی طور درست نہ ہوگا۔ اگر ہم اخوان کو سراہنا نہیں چاہتے تو اس کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ اپنی تقدیر کا مصری عوام کو خود فیصلہ کرنا ہے اور وہی طے کریں گے کہ ان کے سیاسی امور میں اخوان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۷فروری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply