
فوج ہمیشہ ہی میانمار (برما) میں اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے۔ میانمار میں فوج نے ایک بار پھر عشرے سے جاری جمہوری عمل کی بساط لپیٹ کر سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کردیا ہے۔ جس کے بعد میانمار کو سزا دینے کے لیے پابندیاں عائد کرنے اور عالمی تنہائی میں دھکیلنے کے مغربی مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی اقدام غلط ہوگا۔ جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا، ویتنام اور میانمار اپنے شمالی پڑوسی ملک چین کی طرح آمرانہ طرزِ حکمرانی رکھتے ہیں۔میانمار میں جمہوری عمل کی ناکامی ایک بار پھر یاد دلاتی ہے کہ انتہائی طاقتور آمرانہ قیادت اور اداروں کی موجودگی میں جمہوریت کا پنپنا ناممکن ہے۔ جمہوری ممالک کی جانب سے سزا کی قیمت میانمار معاشی بدحالی کی شکل میں ادا کرے گا۔ملک میں سول سوسائٹی کمزور ہوجائے گی اور جمہوری طاقتوں کے ساتھ قریبی تعلقات خراب ہوں گے۔ لیکن ماضی کی طرح پابندیوں کا خمیازہ عام شہری بھگتیں گے اور جرنیلوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ منظرنامہ ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے متنبہ کیا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد پابندیوں کے قوانین کا فوری جائزہ لے کر مناسب کارروائی کی جائے گی۔ لیکن بائیڈن اس بات پر غور کرنا چاہیں گے کہ ماضی میں امریکا کی زیرقیادت پابندیوں نے میانمار کو چین کی اسٹریٹجک گود میں دھکیل دیا، جس سے علاقائی سلامتی کے چیلنجوں میں اضافہ ہوا۔ پابندیاں ایک انتہائی سخت اقدام ہوگا۔ تھائی لینڈ کے آرمی چیف ایک غیرمقبول ہوتے بادشاہ کی حمایت کے ساتھ ۲۰۱۴ء سے برسر اقتدار ہیں، وہ بظاہر ایک سول حکمران کا روپ اختیار کیے ہوئے ہیں اور امریکا تھائی لینڈ کے ساتھ تجارت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ تھائی لینڈ میں جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن مسلسل جاری ہے اور شاہی خاندان کی توہین پر قید کی سز ا کے سخت قوانین موجود ہیں تو پھر اس کے پڑوسی ملک میانمار کے لیے معیار دہرا کیوں ہے۔ اسی طرح امریکا، بھارت، جاپان اور دیگر نے کمیونسٹ پارٹی کے زیر اقتدار ویتنام کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ درحقیقت امریکا حالیہ برسوں میں بڑے فخر کے ساتھ ویتنام کے ساتھ مضبوط سکیورٹی تعلقات کے بارے میں بتاتا رہا ہے۔ میانمار کے جرنیلوں کے ساتھ رابطے اور تعاون ہی جمہوری ممالک کو ایک اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ملک پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت فراہم کرسکتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں جیسے ہی میانمار میں جمہوری عمل کا آغاز ہوا، مغرب نے اس عمل کے پیچھے موجود قوت یعنی فوج کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کو نظرانداز کردیا۔ مغرب نے آنگ سانگ سوچی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کا سہرا بھی ان کو ہی دے دیا۔ مغرب کا فوج کو نظر انداز کرنا اس وقت بھی جاری رہا جب سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر فوج کا دفاع کیا۔ بہت سارے روہنگیا مسلمان وحشیانہ فوجی مہم کے نتیجے میں بنگلادیش فرار ہوگئے۔ مغرب کے اس رویے نے میانمار کی فوج کو اکسایا اور رواں ماہ بغاوت ہوگئی۔ آج میانمار کی فوج پر امریکا کا بہت کم اثر ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے الزام میں بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل من آنگ ہیلی ینگ اور ان کے نائب جنرل سو ون پر ۱۴ ماہ قبل امریکی پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں۔ لیکن سنکیانگ میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کے باوجود امریکا نے چین کے اعلیٰ فوجی حکام اور پارٹی قیادت کے بجائے نچلے درجے کے اہلکاروں کو ہی صرف دکھانے کے لیے پابندیوں کا نشانہ بنایا۔ غیرمؤثر ہونے اور غیرمتوقع نتائج کے باوجود پابندیاں مغربی سفارتکاری کا خاصہ رہی ہیں، چھوٹی اور کمزور ریاستوں سے نمٹنے کے لیے پابندیوں کا استعمال بھی بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس غیرمغربی جمہوریتیں تعمیری رابطہ کاری کو ترجیح دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر جاپان نے میانمار کی فوج کے ساتھ شراکت کا پروگرام جاری رکھا ہے، جس میں استعداد کار بڑھانے کے لیے تربیت کا عمل شامل ہے۔ اسی طرح میانمار اور بھارت کے دفاعی تعلقات کافی بہتر ہوگئے ہیں، دونوں مشترکہ مشقیں اور فوجی تعاون کرتے ہیں، حال ہی میں بھارت نے اپنے پڑوسی ملک کو پہلی آبدوز فراہم کی ہے۔ اس طرح کے تعلقات سے چینی اسلحے کی فراہمی کا مقابلہ کرنے کے ساتھ بھارت کے خلاف لڑنے والے شمالی میانمار میں پناہ گزین باغیوں کے خلاف بھی کارروائی میں مدد ملتی ہے۔ بات چیت اور رابطہ کاری کے بغیر پابندیاں ہمیشہ لاحاصل رہی ہیں، ۲۰۱۰ء میں امریکا میانمار پر پابندیاں لگانے کا سوچ رہا تھا تو اس وقت کے صدر براک اوباما نے بھارت کے میانمار کے ساتھ تعمیری تعلقات پر تنقید کی تھی۔ لیکن کچھ مہینوں کے اندر ہی اوباما نے بھارت کی حکمت عملی اپنائی اور اس کے نتیجے میں ۲۰۱۲ء میں امریکی صدر نے میانمار کا تاریخی دورہ کیا۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آخر سے امریکی پابندیوں کے نتیجے میں چین کو میانمار کاسب سے بڑا تجارتی شراکت دار بننے میں مدد ملی۔ لیکن ۲۰۱۱ء میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی میانمار نے بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متنازع اور اہم چینی منصوبے مائیٹسون ڈیم کو معطل کردیا۔ جس سے میانمار کا چین پر انحصار کم کرنے میں مدد ملی اور اس کی خارجہ پالیسی متوازن ہوگئی جبکہ اندرون ملک اصلاحات کوبھی فروغ ملا۔ آج میانمار کودنیا سے الگ تھلگ کرنے کی امریکی کوششوں سے زیادہ چین کے لیے فائدہ کی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ میانمار چین کے لیے بحرہند میں ایک اسٹریٹجک گیٹ وے ہے اور قدرتی وسائل کی فراہمی کی اہم گزرگاہ ہے۔ درحقیقت پابندیوں اور تنہائی کے نتیجے میں میانمار لاؤس، کمبوڈیا اور پاکستان جیسے دوسرے چین کے زیر اثر ممالک میں تبدیل ہوجائے گا۔ جیسا کہ جاپان کے وزیر مملکت برائے دفاع نے متنبہ کیا ہے کہ پابندیوں کے نتیجے میں پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔ امریکی پالیسی سازوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ دوسرے ممالک کے خلاف امریکی پابندیوں نے چین کے فائدے میں کتنی بار کام کیا ہے۔ انہیں فکرمند ہونا چاہیے کہ کس طرح پابندیوں نے روس کو چین کے قریب کردیا اور دو فطری حریف ممالک قریبی اسٹریٹجک شراکت دار بننے پر مجبور ہوگئے۔ اسی طرح ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ تجارتی فائدہ اٹھانے والا ملک چین ہے۔ اسی لیے اب امریکا کو میانمار کے معاملے میں ایک تعمیری پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ جب بائیڈن نے باہمی دلچسپی کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی آمریت چین کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے تو امریکا کو کم ازکم ایک انتہائی کمزور ملک میانمار کے ساتھ بھی اسی طرح کی روش اپنانی چاہیے، جہاں فوج واحد کام کرنے والا ادارہ ہے۔ میانمار کی موجودہ صورتحال میں بہتری کے لیے بائیڈن کے پاس فوج کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، فوج پر اثرانداز ہو کر ہی جمہوریت کے لیے راستہ نکالاجاسکتا ہے۔ ویسے بھی امریکی پالیسی ساز میانمار کے حوالے سے اپنی سب سے بڑی کمزور ی فوج سے تعلقات نہ ہونے کو قرار دے چکے ہیں۔ امریکا کو میانمار کو دوبارہ اتحادی سے اچھوت میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Don’t isolate Myanmar”. (“project-syndicate.org”. Feb 5, 2021)
Leave a Reply