
ایران اور پاکستان ان دنوں یکساں تجربے سے گزر رہے ہیں‘ ایک ایسے تجربے سے جس سے وہ گذشتہ ۵۸ سال مدت میں شاید ہی کبھی گزرے ہوں۔ دونوں پر یہ دبائو روز بروز بڑھتا جارہا ہے کہ وہ امریکا اور ایران کے روز افزوں کشیدگی میں امریکا کا ساتھ دیں‘ بالخصوص ایران‘ پاکستان‘ بھارت (IPI) گیس پائپ لائن منصوبے کو ترک کرنے کے حوالے سے دونوں پر دبائو غیرمعمولی ہے۔ ان دونوں کو ترغیبات بھی دی جارہی ہیں تاکہ دبائو میں مٹھاس کا احساس ہو۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو واشنگٹن کے دبائو کی مزاحمت کے لئے اپنے زیرِ قدرت ہر حربہ استعمال کرنا چاہئے اس کالم کا مدعا یہ استدلال پیش کرنا ہے کہ مزاحمت نہ کرنے کی صور ت میں دونوں ممالک کو اپنے عوام کے مفادات پر سودے بازی کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیا اورمغرب نیز جنوب مغرب اور وسطی ایشیا کے مابین طویل المیعاد تعاون کی راہیں بند ہوجائیں گی۔ چنانچہ اس تعاون سے سامنے آنے والے تمام ممکنہ عظیم فوائد سے خطے کے عوام محروم رہ جائیں گے۔ ایران‘ بھارت اور پاکستان کی ڈپلومیسی کے لئے نیز ان دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کی آزادی کی پیمائش کے لئے ایک آزمائشی پتّا (Test Case) بن گیا ہے۔ وجہ اس کی سادہ ہے۔ امریکا نے یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ایران ۱۵ سال یا ۳ سال پہلے کے عراق کی طرح عام تباہی کے جوہری اسلحوں (WMD) کے حصول پر مصر اور بضد ہے۔ واشنگٹن اپنا پورا زور ایران کو تنہا کرنے اور اس کی جوہری سرگرمیوں کے معاملے کو ممکنہ پابندی کی خاطر سلامتی کونسل میں لے جانے کے لئے ضرف کررہ اہے۔ نتیجہ اس وقت سامنے آئے گا جب آئندہ پیر کو ویانا میں بورڈ آف گورنر کی میٹنگ ہوگی ۔ صرف اسی کو سلامتی کونسل میں ایران کا معاملہ بھیجنے کا اختیار ہے۔ ایران اورعراق کے معاملات میں دو طرح کے فرق پائے جاتے ہیں۔ ۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ہی امریکا نے ایران کو خوفناک بنا کر پیش کیا ہے‘ اس کی پروا کئے بغیر کہ وہاں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ بالخصوص حالیہ سالوں میں امریکا نے ایران کو بدمعاش ریاست (Rogue State) قرار دیا ٹھیک اس وقت جبکہ یہ آیت اللہ طرز کی اسلامی انتہا پسندی سے باہر آرہا تھا۔ اس کے برعکس واشنگٹن نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ایران و عراق جنگ میں صدام حسین کی پشت پناہی کی‘ خفیہ معلومات اسے فراہم کی اور معصوم شہریوں کے خلاف کیمیائی اسلحوں کے اس کے استعمال پر امریکا راضی رہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکا نے برطانیہ کے ساتھ مل کر ۲۰۰۳ء میں ایک مقدمہ تیار کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ عراق نے یا تو عام تباہی کے اسلحوں تک رسائی حاصل کرلی ہے یا رسائی حاصل کرنے کے قریب ہے۔ ہوش گوش رکھنے والے بہت سارے لوگوں نے اس خبر پر اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی خفیہ معلومات پر بھروسہ کیا جن پر یہ خبر مبنی تھی۔ اس کا جھوٹ ہونا جلد ہی واضح ہوگیا حتی کہ کولن پاول تک نے کہہ دیا کہ انہیں WMD کے حوالے سے غلط رپورٹ دینے پر افسوس ہے۔ بہرحال ایران کے متعلق ایسی کوئی قابل توجہ دلیل نہیں ہے جس سے دور تک بھی یہ گمان کیا جاسکے کہ اس کے پاس WMD ہیں یا اس کا جوہری پروگرام فوجی مقاصد کے لئے ہے ۔ IAEA نے بارہا ایران کو مبرّا قرار دیا ہے۔ ابھی تازہ رپورٹ میں اس نے کہا ہے کہ آزمائش و تجربہ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ دو سال پہلے ایران کے جوہری آلات پر جو افزودہ یورینیم کے باقیات تھے وہ پاکستان سے درآمد شدہ ہونے کی وجہ سے تھے۔ متعدد معائنوں سے یہ ثابت نہ ہوسکاکہ ایران خفیہ جوہری اسلحوں کے کسی پروگرام پر کار بند ہے ۔ لیکن امریکا ان باتوں کا انکار کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صدام حسین کے برعکس ایران نے IAEA کے ساتھ پورا تعاون کیا ہے۔ NPT معاہدے اور دیگر قوانین کے تحت پرامن مقاصد کے لئے یورینیم کی افزدوگی ایک بالکل جائز اور قانونی کام ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مستقبل میں ایران افزدہ یورینیم کا استعمال اسلحہ میں کرسکتا ہے لیکن یہ تو نیت کی بات ہے۔ گفتگو کے ذریعہ کوئی حل نکلا جاسکتا ہے جس سے ایران کو ایسی نیت سے باز رکھا جاسکے ۔ لیکن امریکا نے اپنے طور سے پہلے ہی یہ فرض کر رکھا ہے کہ تہران کے عزائم ناقابل تبدیل ہیں اور یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ پابندیاں ناگزیر ہیں ۔ واشنگٹن ایک انتہائی غیر معقول رویے پر قائم ہے۔ اس نے بین الاقوامی موڈ کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ صدام کے عراق کے برعکس ایران کا دنیا مین ایک بہتر تاثر ہے۔ اسے تنہا کرنا اتنا آسان نہ ہوگا۔ افسوس کی بات ہے کہ یورپی یونین کے تین اہم ممالک برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کے تذبذب اور ایران کے ساتھ ان کے دو سالہ مذاکرات میں ان کا اختیا رکردہ غیرمستقل رویہ واشنگٹن کی حوصلہ افزائی کا سبب بنا۔ ۲۰۰۲ء میں یورپی یونین کے تین ممالک نے ایران کو آمادہ کیا کہ وہ یورینیم کی افزودگی معطل کر دے۔ اسی سال ایران نے IAEA کے ایک سخت قسم کے اضافی پروٹوکول پر بھی دستخط کردیا۔ لیکن یورپی یونین کے تین ماملک گذشتہ ۳۱ جولائی کی متفقہ ڈیڈ لائن کی پاسداری نہ کرسکے جس میں کہ انہیں ایران کو سیاسی و معالی مراعات پر مبنی ایک پیکیج پیش کرنا تھا۔ درحقیقت گفتگو میں شریک تین یورپی ممالک نے جو پیکج تیار کیا وہ اس قیاس پر مبنی تھا کہ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ایران کے آئندہ صدر منتخب ہوں گے۔ جب رفسنجانی ہار گئے تو ان ممالک نے مفاہمت کی شرائط سخت کردیں اور ایران سے ہمیشہ کے لئے یورینیم کی افزودگی سے دستبردار ہوجانے کے لئے کہا۔ چنانچہ ایران نے ان کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ بحران اور شدید تر ہوگیا جب IAEA نے یہ رپورٹ دی کہ ایران نے اصفہان میں ہیکسا فلورائیڈ گیس کی ۷ ٹن کی مقدار تیار کرلی ہے۔ یہ گیس یورینیم کی افزدوگی کے لئے ننتاذ کے پلانٹ میں استعمال ہوگی۔ لیکن ایران نے پھر بھی ابھی تک افزدوگی کا کام شروع نہیں کیا ہے۔ یورپی یونین ایران کو سیکورٹی کونسل میں لے جانے کے حوالے سے متامِل ہے اور یہی کیفیت IAEA کے ۳۵ رکنی بورڈ کی دو تہائی اکثریت کی ہے جس میں کہ ۱۳ دوسرے غیرجانبدار (Non Aligned) ممالک کے علاوہ پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ روس اور چین تو ان سے بھی زیادہ اس بات کے مخالف ہیں کہ ایران پر پابندی لگائی جائے۔ روس نے ایران کے شہر بوشہر میں ایٹمی پاور اسٹیشن تعمیر کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے NPT معاہدے کی خلاف ورزی نہیںکی ہے۔ IAEA ہمیشہ اپنے فیصلے اتفاق رائے سے لیتا جو کہ ایران کے معاملے میں شاید نہ ہوسکے۔
لہٰذا امریکا ووٹنگ کے طریقے میں تبدیلی پر زور دے رہا ہے۔ ایسا کرنے سے واشنگٹن IAEA بورڈ میں موجود ناوابستہ ممالک کے گروپ میں شگاف پیدا کردے گا جس کی قیادت اس وقت ملائیشیا کے ہاتھ میں ہے۔ NAM کا موقف IAEA میں ایک مشترکہ موقف ہے یہ پرامن مقاصد کے لئے یورینیم کی افزودگی کا حق ایران کے لئے تسلیم کرتا ہے۔ ملیشیا ایران کا بنیادی اور ناقابل انکار حق تسلیم کرتا ہے۔ ایران کا مسئلہ دراصل فرسٹ ورلڈ کی دھمکیوں کے جواب میں تھرڈ ورلڈ کی بغاوت کی علامت بن گیا ہے او ریہ دھمکی اس طاقت کی طرف سے دی جارہی ہے جو اپنے جوہری اسلحوں کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ایران کو جوہری اسلحے تیار نہیں کرنے چاہییں لیکن سویلین جوہری توانائی کے حق کا دفاع ہر حال میں اس کا فرض ہے خواہ اس حوالے سے دوسروں کے تحفظات کچھ بھی ہوں۔ امریکا ‘بھارت ‘پاکستان اور دیگر ممالک پر ایران سے متعلق اپنا موقف بدلنے کے لئے دبائو بڑھا رہا ہے۔ اس نے روس اور چین کے ساتھ بھارت کو بھی ایران کو تنہا کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے۔ جیسا کہ رپورٹ ہے اس نے پرامن جوہری تعاون کے حوالے سے پاکستان کو بھی مراعات کی پیشکش کی ہے۔دونوں حکومتیں باالخصوص ایران ‘پاکستان ‘ بھارت گیس پائپ لائن کے حوالے سے پس و پیش کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ بھارت کا پس و پیش تو وزیراعظم من موہن سنگھ کے دورۂ واشنگٹن کے دوران ہی ظاہر ہوگیا تھا جبکہ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا پائپ لائن میں سرمایہ کاروں کے لئے بہت زیادہ خدشات پائے جاتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کو پائپ لائن کے معاملے پر مضبوط اصولی موقف اختیا رکرنا چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ واشنگٹن غیر معمولی مداخلت سے کام لے رہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ IAEA بورڈ میں ناکام ہوجائے۔ واشنگٹن بھارت اور پاکستان کو جوہری لالچ دے رہا ہے وہ معاشی اور ماحولیاتی لحاظ سے مفید توانائی کی فراہمی کی راہ میں شاید مددگار نہ ہوپائے۔ ایران گیس پائپ لائن کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ توانائی کے ذخیرے کی مقدار کی محدودیت کے باوجود یہ ڈیل سمجھ میں آتی ہے۔ ترکمانستان سے گیس کی فراہمی کی صورت میں جو قیمت ہوگی اس سے نصف قیمت پر ایران گیس فراہم کرسکتا ہے۔ ایران گیس پائپ لائن صرف ایک اقتصادی منصوبہ نہیں‘ اس سے ایک طرف مغرب اور وسط ایشیا کے درمیان تو دوسری جانب جنوبی ایشیا میں سیاسی تعاون کی مختلف مفید راہیں کھلیں گی۔یہ ان خِطّوں میں قریب تر تعاون و اتحاد کے رجحان کو مہمیز دے گا۔ حقیقتاً یہ ایک ایسا اتحاد ہوگا جس میں بھارت او رپاکستان کا مستقبل پوشیدہ ہے۔ ان کا مستقبل امریکا کا حاشیہ بردار بن کر رہنے میں نہیں ہے۔
ایک آخری لفظ: امریکا پہلے ہی عراق میں بے شمار مشکلات سے دوچار ہے اب اگر اس نے ایران کے خلاف بھی سفارتی‘ سیاسی اور سب سے اہم‘ فوجی مہم جوئیوں کا آغاز کردیا ہے۔ تو اس کے استعماری منصوبے خاک میں مل جائیں گے۔ ایران درمیان کی ایک مضبوط قو ت ہے‘ اس کی معیشت بھی بہت فعال ہے اور سعودی عربیہ کے بعد تیل کے ذخائر کے حوالے سے اس کا دوسرا نمبر ہے۔ ثقافتی لحاظ سے بھی ایران ترقی کررہا ہے۔ جمہوریت نے ایران کی حکومت کو زبردست عوامی حمایت کا سبق سکھایا ہے۔ امریکا ایران کو طاقت کے زور پر نہیں جھکا سکے گا۔ پاکستان اور بھارت دونوں امریکا کی طاقت کا غلط اندازہ لگانے سے گریز کریں اس لئے کہ یہ ان کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ ضروری ہے کہ یہ دونوں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دی نیوز‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply