
افغان امن مذاکرات کے حوالے سے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادنے ۱۶؍اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کی ٹیم کو افغان امن مذاکرات اور طالبان کی طرف سے ایک ایسی پیشکش کے بارے میں بریف کیا، جس کی مدد سے امریکا بیرون ملک طویل ترین جنگ میں اپنے کردار کو باعزت طریقے سے ختم کرسکتا ہے۔ ابھی تک کوئی باضابطہ ڈیل ہوئی نہیں ہے اور تفصیلات طے کی جارہی ہیں، امریکا فوری طور پر ۸۶۰۰ فوجیوں کو اور اکتوبر ۲۰۲۰ء تک تمام فوجیوں کو نکالنے سے متعلق امور پر غور کر رہا ہے۔ طالبان نے القاعدہ سے تعلقات کم کیے ہیں اور افغان حکومت سے بات چیت سے انکاری رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ پہلے واشنگٹن اُن سے کوئی معاہدہ یا ڈیل کرے۔ یہ تو تباہی سے کھلواڑ کرنے والی بات ہے۔ طالبان بضد ہیں کہ پہلے امریکا اپنی فوج افغانستان سے نکال لے۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ افغانستان میں اب تک امریکا اور افغان حکومت کی طرف سے کی جانے والی تعمیر نو اور سیاسی استحکام سے متعلق کوششوں کو داؤ پر لگادے گا۔ اگر امریکا موجودہ صورتِ حال کے تحت افغانستان سے اپنی فوج نکالتا ہے تو افغان حکومت طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی اور یوں طالبان کا افغانستان میں ایک بار پھر اسلامی ریاست قائم کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے گا۔
افغانستان میں امریکا کے عسکری طور پر ملوث ہونے سے بہت سی ناکامیاں جڑی ہوئی ہیں، تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان کی شرائط مان کر کیا جانے والا کوئی بھی معاہدہ افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت قائم کرنے سے متعلق امریکا کی تمام کوششوں کو شدید ناکامی سے دوچار کردے گا۔ طالبان سے ایسے کسی بھی معاہدے کے حامی کہیں گے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ۲۰۲۰ء تک افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں اور طالبان سے ایسا کوئی بھی معاہدہ اس مقصد کا حصول یقینی بنائے گا۔ بہت سے ڈیموکریٹس نے بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی باضابطہ ڈیل چونکہ اب تک نہیں ہو پائی ہے اس لیے ٹرمپ انتظامیہ سے تعلق رکھنے والی چند سرکردہ شخصیات اور کانگریس کے چند نمایاں ارکان اس بات کے حق میں ہیں کہ صدر ٹرمپ کو انخلا کا معاملہ کم و بیش ۶ ماہ کے لیے موخر کردینا چاہیے۔ طالبان سے بات چیت اور معاہدے کے چند ناقدین چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں زیادہ جذباتیت اور عجلت پسندی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ اس بات کی امید کی جانی چاہیے کہ صدر ٹرمپ افغان طالبان سے کسی معاہدے یا ڈیل کے حوالے سے سیاسی سطح پر ڈالے گئے دباؤ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ صدر کے بعض قریبی ساتھی بڑھکیں مار رہے ہیں کہ طالبان سے تیزی سے کی جانے والی ڈیل بہت اچھی ثابت ہوگی جبکہ حالات کی روشنی میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی۔
افغانستان میں طویل اور غیر نتیجہ خیز جنگ کے تناظر میں امریکا کی طالبان سے کوئی جامع ڈیل کرکے نکلنے کی خواہش ایسی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے، مگر اس وقت امریکا اور طالبان کے درمیان جس نوعیت کا معاہدہ تجویز کیا گیا ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے معاملات کو درست انداز سے طے کرنے کا معقول طریقہ نہیں۔ طالبان کے وعدوں پر مکمل بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ افغان حکومت کو طالبان امریکی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد وہ افغان حکومت پر شدید دباؤ ڈال کر اُس سے اپنی ہر بات منوانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ پاکستان سے توقع ہے کہ وہ امریکا کے افغانستان سے باعزت انخلا کو یقینی بنانے میں معاونت کرے گا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں طالبان سے متعلق پاکستان کے وعدوں پر بھی بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔
عام افغانیوں نے امریکا اور اس کے حلیفوں کی افواج کی آمد پر سکون کا سانس لیا تھا کہ وہ طالبان سے نجات دلائیں گے مگر اب وہ امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد کی صورتِ حال کا سوچ سوچ کر پریشان ہوئے جاتے ہیں۔ جن افغانوں کو میں جانتا ہوں اُنہوں نے بتایا ہے کہ افغان سرزمین سے امریکی افواج کے انخلا کی ابتدا ہوتے ہی معاملات کچھ کے کچھ ہو جائیں گے اور افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ایسے میں عوام کا حکومت پر اعتماد مزید کم ہوجائے گا۔ اس حوالے سے تشویش بلا جواز اور بے بنیاد نہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کا عجلت میں انخلا عدم استحکام کا گراف بلند کرے گا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ طالبان کی جانب سے انتہا پسند تنظیموں سے تعلقات کم کرنے سے متعلق یقین دہانیوں پر ضرورت سے زیادہ بھروسا کیا گیا۔
نیا کیا ہے؟
میں اس رائے کا حامل رہا ہوں کہ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے حوالے سے طالبان سے مصالحتی مذاکرات واحد بہترین طریقہ نہیں۔ میں نے ۲۰۱۳ء میں امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ میں ایک مضمون Reconciliatory Foolosophy سے متعلق لکھا تھا، جس میں اس نکتے کی وضاحت کی گئی تھی کہ انخلا کے حوالے سے طالبان سے مصالحت پر مبنی بات چیت اور معاہدہ واحد قابلِ اعتبار اور اطمینان بخش طریقہ نہیں۔ تب براک اوباما صدر تھے اور میں نے طالبان سے مصالحت سے متعلق ان کی اپروچ کو غلط قرار دیا تھا۔ وہ داعش اور طالبان کے درمیان فرق محسوس کرتے تھے اور اِسی بنیاد پر طالبان سے کوئی بڑی ڈیل کرنا چاہتے تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فرق کچھ زیادہ معاون نوعیت کا نہیں تھا۔ براک اوباما کی قومی سلامتی کی ٹیم چاہتی تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے طالبان سے کوئی معاہدہ تیزی سے ہوجائے۔ میں نے گزشتہ برس ’’وار آن دی راکس‘‘ کے لیے ایک مضمون میں طالبان سے کسی معاہدے کے حوالے سے بہت زیادہ خوش امید ہونے سے خبردار کیا تھا۔
اس وقت ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ طالبان سے کوئی معاہدہ تیزی سے ہوجائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ افغان حکومت سے کیے جانے والے سلامتی معاہدے کو بھی داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔ یہ معاہدہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ امریکا اپنی افواج کے مکمل انخلا سے قبل افغانستان کی حکومت اور فوج کو اس قابل بنانے کا پابند ہے کہ وہ اپنی خود مختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی عمدگی سے حفاظت کرسکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے معاملات میں کسی بھی نوع کی بیرونی مداخلت ناکام بنانے کے قابل ہوسکیں۔ اگر امریکا نے افغان حکومت سے کیے جانے والے دوطرفہ سیکورٹی معاہدوں پر عمل کرنے میں تساہل یا غفلت سے کام لیا اور افغانوں کے درمیان امن مذاکرات ناکام ہوئے تو افغان سرزمین پر ایک بار پھر ویسی ہی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی جیسی ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل میں ہوئی تھی۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ طالبان سے تیزی سے کوئی معاہدہ کرکے وہ افغانستان سے انخلا یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائے گا تو یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر اس ڈیل کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوئیں تو امریکا کے بارے میں یہ تاثر پھیلے گا کہ اُس نے افغان حکومت سے کیے گئے اپنے ہی وعدوں کا پاس نہ کیا اور یوں دنیا بھر میں اتحادی اور ہم خیال ممالک کا سلامتی اور استحکام سے متعلق امریکی وعدوں پر اعتماد تیزی سے اور غیر معمولی حد تک گرے گا۔
مصالحت میں دشمن کی عدم دلچسپی
جو کچھ میڈیا کے لیے جاری کیے جانے والے بیانات میں ہوتا ہے وہ اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت میں حصہ نہیں چاہتے بلکہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ طالبان کسی طور افغان حکومت میں حصہ چاہتے ہیں محض خام خیالی ہے، کیونکہ طالبان کا اول و آخر حتمی مقصد یہ ہے کہ امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوتے ہی اقتدار پر قبضہ جمایا جائے۔ گزشتہ برس امریکا کے لیے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے لکھا تھا کہ ’’امن مذاکرات کے دوران طالبان کے بڑھتے ہوئے حملے دراصل یہ پیغام دینے کے لیے تھے کہ افغانستان سے نکلنا امریکا کی کمزوری اور مجبوری ہے اور یہ کہ ایمان والے بھروسا رکھیں کہ طالبان مضبوط ہیں‘‘۔ امریکی مذاکرات اس خیال کے حامل تھے کہ طالبان سے مذاکرات کے نتیجے میں تشدد کا گراف نیچے لانے میں مدد ملے گی جبکہ دوسری طرف طالبان صرف اقتدار کی بحالی میں دلچسپی لیتے دکھائی دیے ہیں۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد نسلی اور لسانی بنیاد پر خانہ جنگی چھڑے گی، جو ویسی ہی خوں ریز ہوگی جیسی ۱۹۹۰ء کے اوائل میں ہونے والی خانہ جنگی تھی۔ طالبان کو اقتدار پانے اور برقرار رکھنے کے لیے القاعدہ اور داعش جیسے انتہا پسند گروپوں کی مدد درکار ہوگی۔ دنیا بھر سے جہادی سوچ کے حامل افراد افغانستان میں پناہ حاصل کریں گے اور اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف سرگرمِ عمل ہوں گے۔
افغانستان میں جہادی گروپ اگر امریکی مفادات کے لیے فوری طور پر کوئی بہت بڑا خطرہ ثابت نہ ہوں تب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نائن الیون سے پہلے کی صورتِ حال ضرور پیدا کردیں گے۔ القاعدہ اور داعش کی طاقت و کردار حال ہی میں ہونے والے دی ٹیکساس نیشنل سیکورٹی ریویو کا موضوع تھا۔ جہادی گروپ اور کچھ نہ سہی، انسدادِ دہشت گردی سے متعلق افغان حکومت کی صلاحیت و سکت کو تو نقصان پہنچا ہی دیں گے۔ افغانستان کا مزید کمزور ہو جانا داعش اور دیگر انتہا پسند گروپوں کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنے گا۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ طالبان سے معاہدہ ہوجائے تاکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ آئندہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے ٹرمپ کے لیے ایک بڑی الجھن بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان پر زیادہ انحصار
افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے لیے امریکا پہلے بھی پاکستان پر بہت انحصار کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اُس کا معاملہ دو کشتیوں میں سوار شخص کا سا ہے۔ طالبان سے مذاکرات اپنی جگہ مگر پاکستان پر انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو اسلحے کی فروخت کا بھی کچھ فائدہ نہیں کیونکہ اس کی قیادت میں وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں، جو امریکا چاہتا ہے۔
یہ بھی محض خام خیالی ہے کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کو پروان چڑھانے میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ براک اوباما کے دور میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی کامیابیاں پاکستان کی مدد سے زیادہ افغان حکومت کی کمزوری کی مرہون منت ہیں۔ طالبان نے منشیات کی تجارت، اسمگلنگ اور کان کنی کے شعبے میں اپنی پوزیشن خاصی مستحکم کرلی ہے۔ اس کی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں اُسے پاکستان سے مدد کی کچھ خاص ضرورت بھی نہیں۔
ناکامی کا فاسٹ ٹریک
طالبان سے ڈیل کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ غیر معمولی عجلت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ صدارتی انتخاب سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی عوام کے سامنے افغانستان کے حوالے سے کامیاب ہونے کی اداکاری کرنا چاہتے ہوں۔ طالبان صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ افغان حکومت کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھیں گے اور یہ لڑائی اُسی وقت ختم ہوگی جب وہ اپنے تمام اہداف حاصل کرلیں گے، یعنی اقتدار مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں آجائے گا۔ امریکی مذاکرات کار اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ طالبان سے امریکا کی کسی ڈیل کے نتیجے میں طالبان کا افغان حکومت سے سیز فائر ہوجائے گا۔ ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی افواج کے انخلا کے دوران بھی افغانستان میں صورتِ حال کے برقرار رہنے کا امکان ہے۔ ایسے میں طالبان پر بھروسا کرنا ایسا ہی ہے جیسا ٹائی ٹینک کے عملے نے کیا تھا۔ شمالی بحر اوقیانوس میں برفانی تودوں کی موجودگی کی اطلاع کے باوجود اس عظیم جہاز کا سفر جاری رکھا گیا تھا اور پھر جو کچھ ہوا وہ دنیا کے سامنے ہے۔
افغانستان میں امریکی مشن ہر سال کم و بیش ۴۵؍ارب ڈالر ڈکارتا رہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی مرضی کے نتائج کا حصول ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ خام خیالی اور خوش فہمی کے دائروں سے نکل کر حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔
افغانستان کی سرزمین پر کم و بیش بیس انتہا پسند گروپ متحرک ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو طالبان کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں افغانستان کو مزید خرابیوں سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے … یہ کہ اس کی سالمیت اور سلامتی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے اور وہاں جمہوری روایات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ افغان حکومت کو زیادہ سے زیادہ مالی استحکام درکار ہے۔ ملک کو مستحکم رکھنے کی یہی ایک بہتر صورت ہے۔ عوام کے مسائل حل ہوں گے تو وہ کسی بھی انقلابی یا جہادی گروپ کی طرف جانے سے گریز کریں گے۔
امریکی سفارت کاروں، فوجی مشیروں اور پالیسی سازوں کو مالی امداد کے عوض افغان حکومت پر زور دینا چاہیے کہ وہ جمہوری اقدار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے کر حقیقی سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرے۔ امریکا جتنی بھی فنڈنگ کرے اُس کی بھرپور مانیٹرنگ کی جانی چاہیے۔ امریکی امداد کا بڑا حصہ اب تک کرپشن کی نذر ہوتا رہا ہے۔ افغان عوام کی بہبود یقینی بنانے کے نام پر جو کچھ بھی دیا جاتا رہا ہے وہ خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکا۔ امریکا کو اس حوالے سے جامع مانیٹرنگ سسٹم تیار کرنا ہوگا۔
ٹرمپ انتظامیہ کو طالبان سے مذاکرات فوری طور پر روک کر افغانستان میں انتخابی عمل کی بھرپور مدد کرنی چاہیے اور بین الافغان مذاکرات پر زیادہ سے زیادہ زور دینا چاہیے۔ اِسی صورت افغانستان میں کوئی حقیقی مثبت تبدیلی یقینی بنائی جاسکے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کو افغانستان میں سویلین اداروں کی زیادہ سے زیادہ کامیابی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جمہوری روایت کو پروان چڑھانے کے حوالے سے فنڈنگ کی جانی چاہیے۔
افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی کارکردگی بہتر ہوتی جارہی ہے۔ وہ پیچیدہ آپریشنز بھی کرتی ہیں اور کامیاب ہوتی ہیں۔ ایسے میں امریکا کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کی فورسز کی تعداد کم کرنے پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ افغان حکومت کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اندرونی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے اپنی فوج کی کارکردگی بہتر بنائے۔ معاملات کی بہتری کو فنڈنگ سے مشروط کیا جائے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ خوشحال سادات کہتے ہیں کہ افغان اپنی ذمہ داریاں خود پوری کرنا چاہتے ہیں۔ اندرونی سلامتی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔
۲۰۱۴ء کے افغان انتخابات خامیوں سے پاک نہیں تھے مگر عوام نے ثابت کیا کہ وہ طالبان کے مقابلے میں جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ جمہوریت پروان چڑھے۔ اس کے لیے تھوڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور سوچنا چاہیے۔ رواں ماہ افغانستان میں انتخابات ہونے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو نئی حکومت سے بات کرنی چاہیے تاکہ ملک کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنے میں مدد مل سکے۔
امریکی صدر کاروباری ہیں۔ وہ سرمایہ کاری پر منافع چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ انہوں نے افغانستان کو دو سال سے زیادہ کا وقت دیا، مگر اب وہ مزید وقت دینے کو تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی افغانستان پر لگایا گیا ہے اُس کا بھرپور منافع حاصل ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر امریکی صدر کو طالبان سے ایسی کوئی ڈیل نہیں کرنی چاہیے جو امریکا کی ساکھ کو داؤ پر لگادے۔ امریکی عوام بھی اس وقت جذباتیت کا شکار ہیں۔ ٹرمپ کی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کو جلد از جلد نکال لیا جائے۔ ایسا کرنا خطرناک ہوگا۔ خوش فہمی پر مبنی سوچ اپنانے کے بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو درست کرنے پر متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے تھوڑا سا صبر کرنا پڑے گا۔
طالبان سے کوئی ڈیل ہو یا نہ ہو، امریکی فوجیوں کو معقول تعداد میں واپس بلاکر بھی معاملات درست کیے جاسکتے ہیں۔ افغان حکومت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد طالبان کو من مانی کرنے کا موقع نہ ملے اور ان کے خلاف کھڑے ہونے والے بھی مضبوط پوزیشن میں ہوں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Don’t sign a death warrant for Afghan democracy”. (“warontherocks.com”. Aug. 26, 2019)
Leave a Reply