’’تہذیب اسلامی کے احیاء میں ایران کا کردار‘‘

معارف لیکچر سیریز کے تحت جمعرات، ۱۲جون ۲۰۰۸ء کو انقلابِ ایران کے ممتاز فلسفی مرتضیٰ مطہری شہید کے فرزند ڈاکٹر علی مطہری (پروفیسر شعبۂ فلسفہ، آیت اﷲ بہشتی یونیورسٹی، تہران) کو بطور مہمان اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں مدعو کیا گیا۔ ڈاکٹر علی مطہری خود بھی ایک ممتاز فلسفی ہیں۔ موصوف پاکستان کے نجی دورے پر تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر علی مطہری نے ’’تہذیبِ اسلامی کے احیا میں انقلابِ ایران کا کردار‘‘ پر پُرمغز، معلومات افزا اور فکر انگیز گفتگو کی۔ ہم علامہ امین شہیدی (اسلام آباد) کے شکر گزار ہیں، جنہوں نے اکیڈمی میں مہمان کی آمد کو ممکن بنایا اور اِس نشست میں ہونے والی تمام گفتگوؤں کا ترجمہ فارسی سے اردو اور اردو سے فارسی میں بڑی خوبصورتی سے پیش کر کے نشست کو مفید اور یادگار بنا دیا۔ یہ نشست ’’اکیڈمی‘‘ کے سینئر وائس چیئرمین پروفیسر غفور احمد کی زیرِ صدارت منعقد ہوئی۔ نشست کے آغاز میں اکیڈمی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید شاہد ہاشمی نے معزز مہمان کو اکیڈمی میں خوش آمدید کہا اور اُن کی آمد پر خوشی و انبساط کا اظہار کیا۔ بعد ازاں خانۂ فرہنگ جمہوریہ اسلامی ایران کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مہدی توسلی نے بھی ڈاکٹر علی مطہری کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اکیڈمی کی جانب سےاُن کے اعزاز میں نشست پر ادارے کا شکریہ ادا کیا۔ معزز مہمان کی گفتگو کے آغاز سے پہلے جناب علامہ امین شہیدی نے بطور تمہید ایک مختصر سی گفتگو کی جو یہاں مہمان کی گفتگو سے پہلے درج ہے۔


جناب امین شہیدی نے فرمایا کہ ڈاکٹر علی مطہری کے والد گرامی آیت اللہ مرتضیٰ مطہری شہیدؒ کے افکار کی امام خمینیؒ نے نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ ان کے افکار کو عام کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ زور بھی دیا۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ کے علاوہ انقلاب کے اندر اور باہر میں کسی ایسی شخصیت کو نہیں پہچانتا جن کے افکار و نظریات صد فیصد اسلام کے مطابق ہوں۔اُن کی تحریروں کو خالص شکل میں مجتمع کیا جائے اور انہیں زیورِ طباعت سے آراستہ کیا جائے تاکہ ان کے افکار سے معاشرہ اچھی طرح مستفید ہو۔

جب امامؒ کی طرف سے یہ فرمان آیا تو اس وقت علی مطہری کی عمر تقریباً ۱۹ ، ۲۰ سال تھی پھر بھی انہوں نے اس بار گراں کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ’’شہید مرتضیٰ مطہریؒ کے تمام آثار کو جمع کرنا شروع کیا خواہ وہ قلمی ہوں یا لیکچرز کی صورت میں۔ بہرحال محنت شاقہ کے بعد اس پورے عرصے میں ۵۰ کتابیں انہوں نے مدون کیں جن میں ایک لفظ بھی ان (علی مطہری) کااپنا نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ شہید مرتضیٰ مطہری کا ہے۔ جناب علی مطہری نے پوری امانتداری اور تمام تر احتیاطوں کے ساتھ کوشش کی ہے کہ کسی طرح بھی شہید مرتضیٰ مطہری کے افکار اور دوسروں کے افکار خلط ملط نہ ہوں۔ اس طرح شہیدمرتضیٰ مطہریؒ کی اب ۹۰ کتابیں ایران میں لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہر کتاب لاکھوں کی تعداد میں کئی دفعہ چھپ چکی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایران کے معاشرے میں ان کے افکار کو زیادہ سے زیادہ داخل کرنے کے لیے یونیورسٹی، کالج حتیٰ کہ اسکول میں بھی ان کی کتابوں کو داخلِ نصاب کیا گیا۔ مثلاً ان کی ایک کتاب ’’اسلامی علوم سے آشنائی‘‘ کا حوالہ یہاں مناسب ہے جس میں منطق، فلسفہ، اصول، فقہ، علم الکلام اور عرفان کے موضوعات شامل ہیں۔ پاکستان میں جب یہ کتاب چھاپی گئی اور بعض یونیورسٹیز کے اساتذہ کو دی گئی تو ان کی سمجھ میں نہیں آئی، کہنے لگے کہ ہم کیسے اس کو سمجھیں اور اس کو پڑھیں۔ لیکن آج ایران میں بچوں کی فکری سطح یہ ہے کہ آٹھویں جماعت میں مرتضیٰ مطہری کے فلسفہ کی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ یہ بہرحال علمی حوالے سے اس قوم کی ترقی کا مظہر ہے۔ خود ڈاکٹر مطہری نے اپنا تعلیمی سلسلہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ کے علمی آثار کو مجتمع کرنے اور انہیں شائع کرانے کی خاطر ترک کر دیا۔ اور پھر بعد میں فلسفہ و الٰہیات میں پی ایچ ڈی مکمل کر کے یونیورسٹی کا رخ کیا، اس طرح کہ اب تہران یونیورسٹی میں آپ شعبہ الٰہیات میں پروفیسر ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے والد گرامی کے آثار کی حفاظت و ترویج کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں جب برسرِ اقتدار گروپ کی طرف سے ڈاکٹر مطہری کا نام آیا کہ وہ انہیں اپنے امیدوار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں تو علی مطہری نے کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی۔ صرف اخبارات میں نام آیا کہ مرتضیٰ مطہری شہیدؒ کے بیٹے بھی تہران سے انتخابات کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں میں مرتضیٰ مطہری شہیدؒ اور ان کے افکار سے محبت کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے پروفیسر علی مطہری کو ۶ لاکھ ووٹوں سے کامیاب کرایا۔

یہاں سے ڈاکٹر علی مطہری کی گفتگو کا آغاز ہوتا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجھے بہت زیادہ خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ آج میں پاکستان میں جماعت اسلامی کے کارکنوں اور رہنماؤں کے درمیان ایک نظریہ کی بنیاد پر بھائی کی حیثیت سے بیٹھا ہوں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران کی اسلامی تحریک کی کامیابی نے ہمیں ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے کہ عالم تشیع عالم تسنن کے قریب تر آئے اور ان کے درمیان جو فاصلے ہیں وہ مٹ جائیں۔

شاہ کی حکومت جو استعمارکے آلۂ کار کی حیثیت سے ایران میں موجود تھی اس کا کوئی نظریہ اور عقیدہ نہیں تھا، وہ نہ تو تشیع کے عقائد پر یقین رکھتی تھی اور نہ تسنن کے نظریات پر۔ شاہ کے اطراف جو لوگ موجود تھے ان کی یہ خواہش تھی کہ ایران کو قومیت کی بنیاد پر قائم رکھا جائے اور اسلام سے جو اس کا ناطہ ہے اسے حتی المقدور ختم کیا جائے۔ نیز ایران کو ماضی کی شاہی اور پہلوی اور لادینی روایات سے جوڑا جائے۔ اس لیے ان کی یہ پوری کوشش تھی کہ وہ ایران کے اندر دین اور مذہب کی جگہ ایرانی قوم پرستی کو فروغ دیں اور چونکہ وہ نیشنلزم کو فروغ دے رہے تھے اس لیے سیاسی طور پر انہیں ایک چھتری چاہیے تھی اور وہ انہیں امریکا کی طرف سے مہیا کی گئی۔ اس زمانے کی عالمی قوتیں جو روس اور امریکا تھیں، اس شہنشاہیت کی کھلی حمایت کرتی تھیں لیکن آپ نے دیکھا کہ امام خمینیؒ نے عوام کی قوت ایمانی کو تقویت پہنچاتے ہوئے انہیں اس طرح دین کی طرف متوجہ کیا کہ مشرق و مغرب کی دونوں قوتوں کی حمایت کے باوجود وہ حکومت ختم ہو گئی۔

امام خمینیؒ کی سیاست اور دین کے حوالے سے رائے یہی تھی کہ دین اور سیاست ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں اور کسی بھی صورت میں سیاست کو دین کے پیکر اور جسم سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ امام خمینیؒ اس پوری تحریک کے سب سے بڑے ہیرو ہیں اور ان کی دعوت کو عوام نے پوری طرح قبول کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام خمینیؒ کی اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے جو میدان فراہم ہوا اس میدان کی فراہمی، لوگوں کی ذہن سازی اور لوگوں کو تیار کرنے کا عمل مرتضیٰ مطہریؒ اور ان جیسے لوگوں نے کیا اور ایران کی پڑھی لکھی جو قوم ہے ان کے درمیان انہوں نے اسلامی نظریہ کو اس طرح سے راسخ کر دیا کہ امام خمینیؒ کی دعوت پر سب نے لبیک کہا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمیں دو طرح کے ردعمل کا سامنا ہوا۔ ایک حکومتوں کی طرف سے اور ایک عوام کی طرف سے۔ ہمیں توقع تویہ تھی کہ حکومتوں کی طرف سے ایک مثبت ردعمل آئے لیکن بہت ساری حکومتوں اور خصوصاً عرب حکومتوں نے ہماری اس توقع کے برخلاف ایسے رویہ کا مظاہرہ کیا گویا یہ انقلاب ان کے لیے خطرہ ہے۔ انقلاب سے پہلے ایران اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی تھالیکن بعد میں سب سے بڑا دشمن بنا، اس حوالے سے ہمیں توقع تھی کہ عربوں کے اندر انقلاب ایران کی پذیرائی کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوں گے لیکن عرب حکومتوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اور اس کی بڑی وجہ عرب حکمرانوں کا قومی تعصب تھا جس نے اس انقلاب کی پذیرائی کو روکنے کی کوشش کی اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اسلام نے بہت زیادہ توجہ دی ہے کہ اسلام کے اندر عصبیت اور قومی تعصب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب عصبیت و تعصب کی نفی کی بنیاد پر کامیابی کی منزلیں طے کرتا رہا اس لیے کہ اسلام برتری اور فضیلت کا جس چیز کو معیار قرار دیتا ہے وہ علم اور تقویٰ ہے۔

نبی کریمؐ کی حدیث ہے کہ! ’’تم سب آدم سے ہو اور آدم خاک سے ہیں اور کسی کو کسی پر تقویٰ کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں ہے‘‘۔ آج کی مشکل بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان موجود اختلافات ہی اسلام کی کامیابی اور پیش قدمی میں حائل ہیں۔ اور یہی اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عملاً نافذ ہونے دینے میں مانع ہیں۔ ہماری اصل مشکل یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں اکثر تضاد نظر آتا ہے اور اسلام جو کہ عمل کا دین ہے اس میدان میں ہم پیچھے اور گفتگو کے میدان میں آگے نظر آتے ہیں۔

مسلمان اگر متحد ہوتے تو امریکا کبھی بھی یہ جرأت نہیں کر سکتا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرتا اور عراق کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ پاتا۔ لیکن اس کے باوجود نا امیدی نہیں ہونی چاہیے۔ ایک روشن اور تابناک مستقبل ہمارے سامنے ہے۔ اس تابناک مستقبل کی جدوجہد ہم سب کو مل کر کرنی چاہیے۔ میں شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہریؒ کے حوالے سے یہ عرض کروں گا کہ انہوں نے اس حوالے سے مختلف اسلامی مسالک اور فرقوں کے درمیان موجود مشترکات کو زندہ کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا اور فرمایا کہ آپس کے چھوٹے چھوٹے عقیدتی یا دیگر اختلافات کو ان کے مخصوص دائرے میں محدود رکھتے ہوئے اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں ایک متحدہ محاذ قائم کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ شہید مرتضیٰ مطہریؒ اس بات کے معتقد تھے کہ مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان وحدت اور اتحاد کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کوئی فرقہ اپنے عقائد چھوڑ کر دوسرے کے عقیدے کو اپنائے یا پھر تمام فرقے اپنے اختلافی اور امتیازی عقائد کو چھوڑ کر ان مشترکات پر اس طرح سے جمع ہوں کہ ایک نیا فرقہ جنم پائے بلکہ انہوں نے اس نظریہ کو بڑے خوبصورت انداز میں اس طرح سے پیش کیا کہ تمام فرقے اپنے تمام تر امتیازی عقائد پر قائم رہتے ہوئے ان مشترکات کو سامنے رکھیں اور ان کی بنیاد پر ایک مشترکہ محاذ اس طرح کا اپنائیں جس سے ہمارے دین کے دشمنوں کو ہیبت اور خوف کا احساس ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اگر اپنے امتیازی نظریات اور امتیازی عقائد کے حوالے سے مباحثہ اور علمی بحث کی جا سکتی ہو تو علم کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان پر مباحثہ یا گفتگو کرنا نہ صرف یہ کہ ایک صحیح عمل ہے بلکہ وحدت بین المسلمین اور اس مباحثہ کے مابین کوئی تضاد نہیں ہے۔

شہید مرتضیٰ مطہریؒ کا نظریہ یہ تھا کہ مختلف فرقوں کے درمیان بہت سارے اختلافات موجود ہوں گے لیکن ان اختلافات کی بنیاد وہ غلط فہمیاں ہیں جن کو حل نہیں کیا گیا۔ چونکہ فرقے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھتے، اہل فکر ایک دوسرے کے ساتھ ہم نشینی نہیں کرتے لہٰذا دور سے جو سنتے ہیں اسی کی بنیاد پر غلط فہمی کی عمارت کھڑی ہو جاتی ہے یا پھر ایک دوسرے کو صحیح طور پر چونکہ سمجھتے نہیں ہیں اس لیے غلط فہمی ہوتی ہے۔ سوئے تفاہم اور غلط فہمیاں ان کے مابین حائل ہیں۔ ان چیزوں کو صرف اور صرف آپس میں مل بیٹھ کر، قربت اختیار کرتے ہوئے نیز ایک دوسرے سے علمی اور نظری گفتگو کے ذریعے اور مباحثوں کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ شیعہ اور سُنّی دونوں مکاتب میں افراط و تفریط کے حامل لوگ موجود ہوتے ہیں یعنی شدت پسند عناصر پائے جاتے ہیں جو راہ اعتدال سے یکسر منحرف ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے دونوں فرقوں میں معتدل، روشن فکر اور اصلاح پسند طبیعت رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں جن کی آرزو اسلام کی آرزو ہے جن کے اعمال اسلام کے اعمال ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مل بیٹھنا چاہیے اور اپنی علمی اور نظری گفتگو کے ذریعے قربتوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔

انقلاب اسلامی ایران نبی کریمؐ کے انقلاب کی طرح ہے جو کسی فرقے کا نہیں بلکہ اسلام کا انقلاب ہے اور کسی ایک قوم یا سرزمین میں بسنے والوں کا نہیں بلکہ فکر و نظر کا انقلاب ہے۔ اس لیے جو بھی فکری اور نظری حوالے سے دین پر یقین رکھتا ہے یہ انقلاب اس کا ہے اور زمین کی موجود سرحدیں لوگوں کو اس انقلاب سے دور نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا جتنی بھی اقوام زمین پر بستی ہیں اور اللہ و اس کے رسولؐ پر اعتقاد رکھتی ہیں، یہ انقلاب ان سب سے متعلق ہے۔ اس کی خوشی سب کی خوشی اور اس کا غم سب کا غم ہے۔ اس میں اگر کامیابی ملتی ہے تو وہ اسلام کی کامیابی ہے اور اگر مشکلات بڑھتی ہیں تو وہ اسلام کی مشکلات ہیں۔ لہٰذا اس کی حمایت بھی تمام مسلمانوں پر اسی طرح سے واجب اور تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے جس طرح سے اس کی مشکلات میں تمام مسلمان شریک ہیں۔

اسلام کا نظریہ جس طرح سے آفاقی اور عالمی ہے اسی طرح سے انقلاب ایران کا نظریہ بھی عالمی اور آفاقی ہے لہٰذا اس انقلاب کو ایران کی چہار دیواریوں کے اندر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بنیاد پر امام خمینیؒ نے اس انقلاب کی کامیابی کے بعد ببانگ دہل یہ اعلان فرمایا تھا کہ: ’’ہم اس انقلاب کو ایکسپورٹ کریں گے‘‘۔ ان کے اس ایکسپورٹ کرنے کا مطلب بھی یہی تھا کہ چونکہ یہ ایک نظریاتی انقلاب ہے اس لیے سرحدیں اس انقلاب کو روک نہیں سکتیں۔ لیکن دشمنان دین اور استعمار نے امام خمینیؒ کے اس جملے سے غلط استفادہ کیا اور بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ گویا ایران اپنے ارد گرد کے ہمسایہ ممالک پر حملہ کر کے زور یا زبردستی اور طاقت کی بنیاد پر وہاں پر شیعہ انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے جبکہ حقیقتاً بات یہ نہیں تھی اور ہر عاقل اس بات کو سمجھتا تھا۔ امام خمینیؒ کا رویہ ان کا عقیدہ اور اس جملے کا ماحاصل یہ تھا کہ یہ جو دینی فکر ہے اس کو چہار دیواریوں سے نکال کر عالمی بنایا جائے، تمام مسلمان قومیں اس عالمی فکر سے آشنا ہوں اور اس طرح سے تدریجی طور پر اسلام پوری دنیا پر حاکم قوت بن کر ابھرے اور اس حوالے سے انقلاب اسلامی نے بہت بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں تمام اسلامی ممالک میں بیداری کی ایک ایسی تحریک اور ایک ایسی لہر اٹھی ہے کہ جس کو دنیا کا ہر فرد محسوس کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکا کے اندر بھی مسلمانوں میں ایک بیداری اور ولولہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس بیداری کی بنیاد پر اگر آپ غور کریں تو اسلامی انقلاب کی بنیاد ہی سے اس بیداری نے جنم لیا ہے۔ ہم یہ سمجھنے میں بجا طور پر حق بجانب ہیں کہ اگر یہ انقلاب نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ آج اسرائیل اپنے ہمسایہ ممالک پر حاکم ہوتا لیکن اس انقلاب کی بدولت آپ جانتے ہیں کہ آج دو اسلامی قوتیں حماس اور حزب اللہ کے سامنے اسرائیل کی بے بسی و عاجزی تمام دنیا کو نظر آرہی ہے۔

پیغام یہی ہے کہ شیعہ اور سنی کے درمیان موجود ایسے اکابر اور ایسے لوگ جو فقہی حوالے سے واضح ہیں وہ اسلام کے ان آفاقی اہداف کے حصول کے لیے وحدت اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھیں اور اسلامی کاز کو تقویت پہنچانے کی کوشش کریں اور میرے خیال میں آج کی یہ نشست جس کا آپ نے انعقاد کیا ہے بھی اسی مقصد کے لیے ہے اور اس طرح کی نشستیں اور گفتگو کی محفلیں یقینی طور پر اس ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔

آپ کی نظرِ التفات کا میں بے حد ممنون ہوں اور اللہ تعالیٰ سے آپ کی توفیقات میں اضافہ کی دعا کرتا ہوں۔

معزز مہمان کی اس پرمغز اور وقیع گفتگو کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا جس میں مہمان گرامی نے انتہائی دلچسپی کے ساتھ لوگوں کے سوالات سنے اور ان کے جوابات دیئے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

ایک سوال کہ ڈاکٹر علی شریعتی اور مرتضیٰ مطہری کے افکار میں کتنا فرق اور کتنی مماثلت ہے؟ کے جواب میں ڈاکٹر علی مطہری نے کہاکہ ڈاکٹر علی شریعتی وہ شخصیت ہیں جن کو مرتضیٰ مطہری نے دریافت کیا۔ شریعتی کے انداز بیان سے مطہری متاثر ہوئے، جنہوں نے پڑھی لکھی نسل کو اسلام کی طرف مائل کیا۔ لیکن بعض جگہوں میں مرتضیٰ مطہریؒ نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر علی شریعتی کے نظریات میں کچھ خامیاں ہیں جن کی روک تھا م ضروری ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے بعض مطالب پر جب مرتضیٰ مطہریؒ کی نظر پڑی بالخصوص فلسفہ تاریخ کے حوالے سے تو انہیں محسوس ہوا کہ علی شریعتی فلسفہ تاریخ کے نظریہ کے بارے میں مارکسزم سے متاثر ہیں اور مارکسزم کا یہ نعرہ رہا ہے کہ مذہب حکومت اور سرمایہ دار تینوں نے مل کر عوام کا استحصال کیا ہے۔ مرتضیٰ مطہریؒ یہ سمجھتے تھے کہ مارکسزم بھی مغربی نظریہ کی طرح اسلام دشمن نظریہ ہے۔ اس لیے انہوں نے علی شریعتی کو روکنے کی کوشش کی۔ مرتضیٰ مطہریؒ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ علی شریعتی نے بنیادی تعلیم یورپ سے حاصل کی ہے اسی لیے انہوں نے جو کچھ سیکھا اور پڑھا ہے اس پر یورپ کی چھاپ ہے جس کی وجہ سے دین سے متعلق ان کے فہم میں کچھ بنیادی کجی رہ گئی ہے۔ علی شریعتی نے بعض جگہوں پر اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا اور کہاکہ وہ ان کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں لیکن زندگی نے اُنہیں مہلت نہ دی۔

اسلام کے نزدیک فلسفہ شہادت کیا ہے؟ کے جواب میں ڈاکٹر علی مطہری نے اپنے والد گرامی شہید مرتضیٰ مطہری کی ’’شہید‘‘ کے موضوع پر کی گئی ایک تقریر جسے بعد میں کتاب کی صورت میں چھاپا بھی گیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مرتضیٰ مطہریؒ کا کہنا ہے کہ محفل بشریت کی شمع شہداء ہیں جو خود جل جاتے ہیں اور محفل بشریت کو روشن کر جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی قوم اور فرد ایسا نہیں ہے جو شہید پر احسان رکھتا ہو یا شہید کے مقام تک پہنچ سکے۔ جبکہ شہداء سب پر احسان رکھتے ہیں اور ان کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ یعنی پوری امت پر شہداء کا حق ہے لیکن شہداء پر کسی کا بھی کوئی حق نہیں۔ اس طرح سے شہادت معاشرے کے پیکر اور بدن میں خون کی تطہیر اور خون ڈالنے کا نام ہے اگر انسانی جسم سے خون کم ہو جائے تو اسے خون کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح سے انسانی معاشرے کو بھی خون کی ضرورت پڑتی ہے اور انسانی معاشرے کو زندہ رکھنے کے لیے جو خون چاہیے وہ شہید کا خون ہوتا ہے جو انسانی معاشرے میں ایک نئی اور تازہ روح پھونکتا ہے اور اس کو زندہ کرتا ہے۔ اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے مصلح کی منطق اور فکر اور عارف بااللہ اور خدا کے معنوی بندے کی جو منطق اور فکر ہے ان دونوں کو اگر یکجا کر کے ایک جگہ جمع کیا جائے تو اس سے شہید کی منطق جنم لیتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی شہادت انسانی معاشرے کے لیے ایک تہذیبی نشاط کی حیثیت رکھتی ہے یعنی ایک فرد جب نیکی اور خیر کا کوئی کام انجام دیتا ہے تو اپنے اندر ایک معنوی لذت محسوس کرتا ہے اسی طرح سے ایک شخص جب کسی معاشرے میں جام شہادت نوش کرتا ہے تو اس کی شہادت کی بدولت اس معاشرے میں لذت و نشاط کی ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

اسلامی تہذیب کو غیر مسلم خصوصاً ترقی یافتہ دنیا تک پہنچانے کے لیے ایران نے کیا کیا جبکہ اس کے پاس نظریہ، فکر اور انقلاب بھی ہے اور ریاستی وسائل بھی ہیں؟ اس سوال پر ڈاکٹر علی مطہری نے کہاکہ اس حوالے سے ایران نے ’’پریس ٹی وی‘‘ کے نام سے ایک مستقل ٹی وی چینل (جو مکمل طور پر انگریزی پروگرامات نشر کرتا ہے) شروع کیا ہے اسی طرح ’’سحر ٹی وی‘‘ ہے جس پر کچھ گھنٹوں کے لیے انگریزی زبان میں پروگرامات نشر کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ ان چینلز پر ترک، ہسپانوی، بوسنیائی، آذربائیجانی اور آرمینیائی باشندوں کے لیے بھی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جن میں مرتضیٰ مطہری شہید کے فکر کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم یہ کام اب بھی بہت کم ہے آئیڈیل کام نہیں ہوا ہے۔ آئندہ اس سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایک اور سوال کہ دین کو کتنا جمہوری اور جمہوریت کو کتنا دینی ہونا چاہئے؟ انقلاب ایران کے وقت یہ بحث کس مقام پر تھی اور آج کس مقام پر ہے؟ اور اس تناظر میں انقلاب کے وقت کے ایران اور آج کے ایران میں کتنا فرق ہے؟۔ اس سوال کے جواب میں مہمان فلسفی نے فرمایا کہ ایران کے اندر ابتداء ہی سے جمہوری موقف رہا ہے اور جمہوریت کے نام پر ہی ہم کام کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ کہ اس موضوع پر روشن فکر اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے نئی بحثیں اور نئے مناظرے چھڑتے رہے ہیں لیکن ایک بات جو یہاں کہنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی جمہوریت کی جو تعریف ہے وہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ مغربی جمہوریت کی بنیاد صرف اور صرف لوگوں کی مرضی ہے، لوگوں کی اور اکثریت کی رائے ہے جبکہ اسلام اس چیز کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا، اسلام کی نگاہ میں یہ قابل قبول نہیں ہے ورنہ انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا مغرب اور اسلام کی جمہوریت میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہی ہے کہ مغرب لوگوں کی مرضی کو معیار سمجھتا ہے اور اسی کے مطابق راستے کا تعین کرتا ہے جبکہ اسلام میں راستہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دیا گیا ہے، وہ مقرر شدہ ہے اور اب اس مقرر شدہ راستے پر چلنے کے طریقوں اور چلانے والوں کا انتخاب جمہوریت کی شکل میں اسلام نے عوام کے سپرد کر دی ہے اور عوام انتخاب کا یہ کام کرتے ہیں گویا جمہوریت اسلام کی نگاہ میں بند گلی سے نکلنے کے لیے عوام کی رائے طلب کرتی ہے اور ان احکام کے نفاذ کے لیے ہے جو اللہ کی طرف سے پہلے سے متعین شدہ ہیں۔ شہید مرتضیٰ مطہریؒ کا یہ کہنا تھا کہ یہ جو ہم خود کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں اس میں جمہوریہ اس کی شکل و صورت اور ہئیت (نظام) سے عبارت ہے اور اس کی طرف اشارہ کرتا ے اور جب ہم اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں تو اسلامی سے مراد وہ نظام ہے یعنی نظام اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی شکل و صورت اور اس کو چلانے کا انداز لوگ اپنی مرضی کے مطابق اختیار کر سکتے ہیں۔

حج کی ادائیگی کے موقع پر اعلان برأت کا کیا مقصد ہے؟ اس کا فلسفہ کیا ہے ؟ جواب میں ڈاکٹر علی مطہری نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حج ایک بہت بڑی عبادت ہے لیکن اس عبادت کا صرف انفرادی پہلو نہیں ہے بلکہ اس کا اجتماعی پہلو انفرادی پہلو سے زیادہ نمایاں اور غالب ہے۔ احادیث کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ جب وہ مل بیٹھیں تو اپنے مشترکہ مفادات اور نقصانات و مشکلات کے حوالے سے گفتگو میں بحث کریں اور دوسری طرف قرآن سورہ توبہ میں یہ کہتا ہے کہ:

وَاَذَانٌ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اﷲَ بَرِیْئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِیْ اﷲِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمo(التوبہ: ۳)

’’اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے حجِ اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبیؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو‘‘۔

اس لیے حج اکبر کے اندر مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مشرکین سے اپنی برأت اور بیزاری کا اظہار کریں۔ اس لیے کہ وہ حج جس میں مشرکین سے برأت کا اعلان نہ ہو وہ قرآن کی نگاہ میں حج نہیں۔ تیسری بات یہ کہ حج کے مختلف رسومات کی اگر ہم بات کریں تو ان میں ۳ شیاطین کو پتھر مارنا، کنکریوں کا انتخاب، پھر ایک پتھر کو کنکریاں چن چن کر مارنا یہ سب علامتی چیزیں ہیں کہ آپ اللہ اور اپنے دین کے دشمنوں کو اپنی عملی زندگی میں جب حج سے واپس آئیں تو پہنچانیں اور ان سے اپنی بیزاری، برأت اور نفرت کا اظہار کریں ورنہ اگر ان کے بغیر اور اس فلسفہ کے بغیر آپ حج کی عبادت دیکھیں گے تو یہ آپ کو کچھ خشک اور بے مقصد اور بے ہدف رسومات کا مجموعہ نظر آئے گی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینیؒ نے اسی فلسفہ حج کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآنی آیات کی تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے حج کی اس عظیم عبادت میں اس روح کو پھونکنے کی کوشش کی جو قرآنی روح ہے جس کے نتیجے میں تمام حاجی ایک لباس پہن کر ایک اللہ کے حضور اکٹھے ہو کر اس کے دشمن اور مشرکین سے اپنی برأت اور نفرت کا اظہار کریں اور آپس میں وحدت، بھائی چارے اور اخوت کے فروغ کا باعث بنیں۔ یہی حج کی روح ہے اور یہی اس کا فائدہ بھی ہے۔

سوال و جواب کے اختتام پر اکیڈمی کے سینئر وائس چیئرمین جناب پروفیسر غفور احمد صاحب نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے مہمان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر غفور احمد نے کہاکہ ہمیں آپ جیسے نوجوان جو متقی اور باعمل ہیں اور ایک شہید باپ کے بیٹے ہیں پر فخر ہے۔آپ صرف ایران کے لیے نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کامیابی عطا فرمائے۔

انہوں نے کہاکہ ایران کا انقلاب ایسا انقلاب ہے جو پوری مسلم دنیا میں پھیل رہا ہے۔ آج اگر امریکا ایران کا سب سے بڑا دشمن ہے تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ امریکا کو اس بات کا یقین ہے کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے بلکہ اسے خطرہ اس بات کا ہے کہ ایران کا اسلامی انقلاب مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا میں جا سکتا ہے جو اس کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ایران کے انقلاب نے ایک نئی روح پھونکی ہے ایک نیا جذبہ دیا ہے اور وہ آج تک اسی طرح تر و تازہ ہے جس طرح امام خمینیؒ کی زندگی میں تھا، آپ کے شہید والد نے اسے اچھے طریقے سے پروان چڑھایا ہے۔ ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، پاکستان آپ کا دوسرا گھر ہے، پاکستان پر اس بات کا دباؤ ہے کہ وہ امریکا کے دشمنوں کے خلاف امریکا کی پالیسیوں کا ساتھ دے۔ حکمران کمزوری دکھائیں تو دکھائیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام دل و جان سے آپ کے ساتھ ہیں اور کبھی حکومتوں کو ایسا کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کہ جو ایران کے خلاف ہو۔ ہم ایران کے لیے دعا گو ہیں اور پاکستان کے لیے بھی کہ اسے اسلامی منزل ضرور حاصل ہو گی۔

ترتیب و پیشکش: محمد آفتاب احمد

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*