ڈاکٹر فضل الرحمن بھی رخصت ہوئے اور محسوس ہوتا ہے کہ علم و دانش، فکر و نظر اور تحریکِ اخلاص و استقلال کا ایک روشن ستارہ ٹوٹ گیا، جو آسمانِ ملت اسلامیہ پر گزشتہ نصف صدی سے روشن تھا۔ میرے لیے یہ ایک ذاتی سانحہ ہے کہ میں ان کے دورِ طالب علمی سے ان سے روشناس ہی نہیں ہمسفری کی سعادت سے بھی بہرہ مند تھا۔
۱۹۵۴ء میں جب میں ثانوی درجات کا ایک طالب علم تھا، الٰہ آباد میں محمد اسحاق مرحوم کے دولت خانے پر حاضر ہوتا تھا تو مختلف ادبی و تحریکی تقاریب میں نوعمر، تیز و طرار اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے جذبات سے سرشار شخص فضل الرحمن فریدی سے ملتا تھا۔ اس وقت وہ معاشیات میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کر چکے تھے اور رامپور میں ثانوی درسگاہ میں اسلامی علوم اور قرآن حکیم کے مطالعے کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ ہماری عمر میں چھ سات سال کا فرق تھا مگر وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی اور تحریکی رفیق سمجھنے لگے۔ میں اپنے وطن سے ان کے شہر جونپور اکثر گرمیوں کی تعطیلات میں جاتا تھا اور کئی کئی دن ان کے گھر کے ایک فرد کی طرح ان کے ساتھ قیام کرتا تھا۔ علم و ادب اور تحریک کے موضوعات پر میری مرحوم سے خط و کتابت بھی مسلسل ہوتی تھی اور ان کے سو ڈیڑھ سو خطوط میرے پاس محفوظ ہیں۔
فضل الرحمن فریدی صاحب آگرہ میں لیکچرار ہوئے اور میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے کر کے رامپور کی ثانوی درسگاہ میں داخل ہوا۔ رامپور کے قیام کے دوران فریدی صاحب سے اکثر ملاقات ہوتی۔ فریدی صاحب ۱۹۶۰ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات میں لیکچرر ہوکر آگئے۔ ادارہ ادب اسلامی کی تشکیل، اس کی توسیع اور اس کے ترجمان ماہنامہ ’’دانش‘‘ کی اشاعت میں مرحوم نے خاصی دلچسپی لی اور اس ادبی تنظیم کے سرپرست اور بانیوں میں ان کا نام شامل تھا۔ ادارہ کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے میں ان سے برابر راہنمائی حاصل کرتا تھا۔ وہ ہر معاملے میں ایک بڑے بھائی کی طرح میری راہنمائی کرتے تھے۔ تحریک اسلامی کے بڑے اجلاسوں میں شرکت ہوتی تو ان سے استفادے کا خوب موقع ملتا۔ میں جب تعلیم مکمل کر کے فیض آباد میں ایک کالج میں ملازم ہوا تو وہاں بھی تشریف لائے اور جب میری ادارت میں ’’دوام‘‘ کا ۱۹۶۷ء میں اجراء ہوا تو اس کی چار سالہ اشاعت کے دوران وہ برابر اپنے مشوروں سے نوازتے رہے اور کوئی مبالغہ آرائی ہوتی تو مجھے ٹوک دیتے۔ مثلاً ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی سے میرے انٹرویو کے عنوان میں ’’توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری‘‘ دیکھ کر مجھے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب کی خدمات بجا مگر موسیٰ جیسے پیغمبر سے مشابہ قرار دینا غیر ضروری مبالغہ ہے۔
فریدی صاحب کو ادارہ ادبِ اسلامی کی ترقی سے اس قدر دلچسپی تھی کہ جب ۱۹۷۵ء سے اس میں جمود پیدا ہوا تو انہوں نے جملہ اہل قلم کو علی گڑھ مدعو کیا اور ادارے کی بقا پر تفصیل سے بحث ہوئی اور اس کا ایک ترجمان شائع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈاکٹر فریدی مرحوم کو خدا اپنی رحمتوں سے نوازے انہوں نے رسالے کے لیے مالیات کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کی، دہلی سے نمائندہ ’’نئی نسلیں‘‘ کا اجراء ہوا پھر فریدی صاحب جدہ چلے گئے۔ واپسی پر تحریک اسلامی کی اہم ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے شانوں پر آگیا۔ جماعت اسلامی ہند کی شوریٰ کے وہ ایک اہم رکن تھے اور ان کے مشوروں کو کافی سنجیدگی سے قبول کیا جاتا تھا۔
ماہنامہ زندگی کے مدیر کی حیثیت سے انہوں نے تحریک کی گراں قدر فکری خدمات انجام دیں۔ ان کے اداریے تحریک کے لیے تازہ بہ تازہ لائحہ عمل بن کر سامنے آتے۔ فریدی صاحب صرف ایک ماہر معاشیات ہی نہیں ملت اسلامی کے عصر حاضر میں گوناگوں مسائل پر غور و فکر کرنے اور رہنما خطوط مرتب کرنے والی ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اسلامی اقتصادیات پر بڑی عالمانہ اور مفکرانہ کتابیں تصنیف کیں اور متعدد معرکتہ الآراء مقالات تحریک کیے۔ فریدی صاحب کو قرآن حکیم سے بے حد قرب تھا اور ان کی آواز میں بڑا سوز و گداز تھا۔ فریدی صاحب نے ملک کے سیاسی مسائل و مشاغل سے خود کو الگ رکھا اور ذہن و دماغ کی تابانی کے لیے اور نئی نسلوں کی شخصیت کی تعمیر کے لیے مسلسل اپنے قلم اور اپنی زبان سے جدوجہد کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی الٹ پھیر سے زیادہ ذہنوں کی تعمیر اور خیالات کی تطہیر ضروری ہے۔
دنیا میں کوئی بھی ٹھوس انقلاب اصحاب کردار اور مردانِ فکر و نظر ہی کے ذریعہ لایا جاسکتا ہے۔ فضل الرحمن فریدی صاحب اسٹیج سے زیادہ زاویہ فکر ونظر کے شیدائی تھے۔ وہ خطیب سے زیادہ مفکر تھے اور عصر حاضر کے مسائل پر جچی تلی رائے دینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس وقت تحریک اسلامی کو ان جیسے غور و فکر کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے دانشوروں کی ضرورت تھی افسوس ہے کہ ان کے خلاء کو پُر کرنے والے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۷؍اگست ۲۰۱۱)
Leave a Reply